گزشتہ کالم میں اس موضوع کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی کہ
کسی بھی ملک میں جمہوریت اور جمہوری نظام کے تسلسل کے لیے بر وقت ، شفاف،
اور منصفانہ انتخابات نا گزیز ہیں۔ انتخابات کی اہمیت اپنی جگہ مسلم
،مگرووٹرز کی شمولیت نہ ہو تو تمام تر باقاعدگی، شفافیت اور غیر جانبداری
کے با وصف یہ ساری مشق بے کار ہے ۔ ہمارے ہاں جمہوریت کو پنپنے کے مواقع
بہت کم میسر آئے مگرجب بھی جمہوری حکومت کے قیام کے لیے انتخابات کا ڈول
ڈالا گیا تو عوام الناس نے اپنا حق ِ رائے دہی استعمال کرنے کے حوالے سے عد
م دلچسپی کا مظاہر ہ کیا۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چھ عام انتخابات میں ووٹرز
ٹرن آوٹ کبھی بھی 45 فیصد سے ذیادہ نہ ہو سکا۔ یعنی نتیجتا بننے والی
حکومتیں اکثریت کی نمائندہ نہیں تھیں۔ 1997 میں عوام کی عد م دلچسپی کا یہ
عالم تھا کہ ووٹ ڈالنے کی شرح فقط 35 فیصد تک محدود رہی۔ گزشتہ انتخابات
میں ٹرن آوٹ 44 فی صد تھا یعنی جنوبی ایشیاء میں کم ترین۔اسمیں بھی بعد
میں81 ملین بوگس ووٹوں کی نشاندہی کی گئی۔جبکہ اسی سال یعنی 2008 میں بنگلہ
دیش میں ٹرن آوٹ 83 فی صد رہا۔ ہمارے ہمسایہ ممالک بھارت اور بنگلہ دیش میں
ہمیشہ ووٹ ڈالنے کی شرح بالترتیب 55 اور50 فیصد سے ذیادہ رہی ہے۔
مگرپاکستان میں عمومی طور پر ووٹ ڈالنا بیکارریاضت تصور کیا جاتا ہے۔
(مہذب ممالک میں عوام ووٹ کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔ بہت سے ممالک میں ووٹ کا
حق حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ تحریکیں چلائی گئیں۔ بیلجئیم، آسٹریلیا اور
ارجنٹائن جیسے دیگر ممالک میں ووٹ ڈالنا لازمی امر ہے اور انحراف پر جرمانہ
عائد کیا جاتا ہے۔ان ممالک میں وہ افرادجو کسی بھی امیدوار کے حق میں نہیں
ہوتے وہ blank یعنی سادہ ووٹ ڈال کر اپنی رائے کا اظہارر کرتے ہیں نہ کہ
انتخابات کا بائیکاٹ کر کے۔ )
ہمارے ہاں انتخابات میں عوام کی عدم دلچسپی ، سیاست دانوں پر بے اعتمادی کی
مظہر ہے۔ اکثریت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ذیادہ تر سیاست دان ااپنے
مفادات کی اسیر ہیں سوانکے لیے ووٹ کیوں ڈالا جائے۔حالانکہ ووٹ کا استعمال
سیا ست دانوں کی بجائے عوام کے مفادات کا ضامن ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ کسی
کے بھی برسراقتدار آ نے سے، عوام کی حالت زار پرکوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہ
سو چ قطعا درست نہیں۔ووٹ فقط ایک پرچی کا نام نہیں ہے۔ اس کے ذریعے عوام
الناس اپنے پسندیدہ افراد کو اپنے ملک اور اداروں کی باگ ڈور سنبھالنے کی
اجازت فراہم کرتے اور نا پسندیدہ افراد کی اقتدار پر قابض ہونے کی راہیں
مسدود کرتے ہیں۔
اسی ووٹ کی طاقت سے منتخب چندسو افرادکئی سالو ں تک ہماری صحت، تعلیم ،
روزگار، امن و عامہ ، پٹرولیم اور دیگر تمام امور سے متعلق پالیسیوں کی
تشکیل اور نفاذکا ذریعہ ہوتے ہیں۔ہمارے ہاں عمومی رویہ یہ ہے کہ انتخابات
کے روز کو چھٹی کا دن خیال کیا جاتا ہے اور قطعا کوئی ذمہ داری محسوس نہیں
کی جاتی۔عوام کی عدم دلچسپی کی بنا پرنااہل افراد باآسانی اقتدارپر براجمان
ہو جاتے ہیں اور آنے والے سالوں میں عوام مہنگائی، دہشت گردی، بے روزگاری،
لا قانونیت، لوڈ شیڈنگ، تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی عد م دستیابی پر ان
حکمرانوں او رانکی پالیسیوں کو بر ا بھلا کہنے میں مصروف رہتے ہیں۔ حکومتیں
، خواہ اچھی ہوں یا بری، محض اس وجہ سے تشکیل پاتی ہیں کہ عوام الناس نے
ووٹ کے ذریعے انہیں اختیارات منتقل کیے ہوتے ہیں یا پھر ووٹ کے عدم استعمال
کی صورت انکی راہ مسدود نہیں کی ہوتی ۔ اگر ہم اپنی غیر فعالیت اورغیر ذمہ
داری کی بنا پر اپنے پسندیدہ افراد کو با اختیار نہیں بنا سکتے اور اپنے
ووٹ کو ضائع کر کے نا اہل، کرپٹ ، بے ایمان اور داغدار ماضی کے حامل افراد
کو اقتدار حاصل کرنے اور با اختیار بنانے میں مد د فراہم کرتے ہیں تو ان کے
دور ِ حکومت میں ہمیں انکی کارکردگی پر احتجاج کابھی کوئی حق نہیں۔
عام طور پرکم شر ح خواندگی کو عوام کی پولنگ میں عد م دلچسپی اور عدم
شمولیت کی بنیادی وجہ تصور کیا جاتا ہے۔ ILDAT Pاو ردیگر مستند اداروں کی
تحقیق سے ثابت ہو چکا ہے کہ ووٹ ڈالنے میں خواندہ افراد کی دلچسپی، نا
خواندہ اورنیم خواندہ افراد کی نسبت بہت کم ہے۔ جو کہ افسوسناک امر ہے۔ اگر
پڑھے لکھے افراد ہی ووٹ کو غیر اہم جانیں گے، تو تبدیلی کس طر ح رونما ہو
گی۔ خاص طور پرنوجوان ووٹرز کی بے حداہمیت ہے۔ موجودہ انتخابی فہرستوں میں
نوجوان رجسٹرڈ ووٹرز کل ووٹر ز کا 47% ہیں یعنی تقریبا نصف تعدادمیں۔ 1.58
ملین تو وہ نوجوان ہیں جو 2012میں 18 سال کی عمر کو پہنچے ہیں اورپہلی بار
آئندہ انتخابات میں حصہ لیں سکیں گے۔ ملکی حالات کی ابتری پر،اپنے مستقبل
سے مایوس یہ نوجوان اگر سیاست اور سیاست دانوں سے اظہار ِ نفرت کی بجائے
اپنے اپنے حلقوں کے امیدواروں اور انکی سیاسی جماعتوں کی ماضی کی کارگردگی
اور انتخا بی منشور کو مد نظر رکھ کر ووٹ کی طاقت کا استعمال کریں اور
ایماندار افراد کو بااختیار بنائیں اور بے ایمان اور کرپٹ افراد کا راستہ
روکیں تو یہ طرزِ عمل انکے بہتر مستقبل کا ضامن ہو گا۔
بالکل اسی طر ح مجموعی آبادی کا 52 فیصد یعنی اکثریت ہونے کے باوجود،
خواتین میں ووٹ ڈالنے کا رحجان بے حد محدود ہے۔ اول توخواتین انفرادی طور
پر بھی اپنی ذمہ داری محسوس نہیں کرتیں۔ بصورت دیگر گھر کے سربراہ یا مردوں
کی تقلید میں انکے پسندیدہ امیدواروں ہی کو ووٹ ڈالا جاتا ہے ۔ بہت سے
علاقوں میں تنگ نظری اور انتہاپسندی کو حجاب یا روایات کا نام دے کرخواتین
کو حق رائے دہی سے محروم رکھا جاتا ہے۔ ماضی میں سیاسی جماعتیں بھی خواتین
کو غیر فعال ووٹرز تصورکرتے ہوئے توجہ دینے سے قاصر رہی ہیں۔ اس حوالے سے
میڈیا، این جی اوز اور خاص طور پر حقوق خواتین کی تنظیموں کو کردار ادا
کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں امن و عامہ کی مخدوش صورتحال اوراحساس عدم
تحفظ بھی کم ٹرن آوٹ کا باعث رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کا فرض ہے کہ نگران
حکومت،قانون کا نفاذکرنے والے اداروں اور فوج کی مدد سے تمام حلقوں کے
پولنگ اسٹیشنوں پر امن وامان کو یقینی بنایا جائے۔
المیہ یہ ہے کہ ہم روزانہ کئی کئی گھنٹے بجلی کے انتظار اور سی این جی کے
حصول کے لیے ضائع کرنے کو تیار ہیں مگر تبدیلی کے لیے پانچ سال بعدفقط چند
گھنٹے صرف کرنے پر آمادہ نہیں۔ درحقیقت بحیثیت قوم ہم غیرفعالیت اور غیرذمہ
داری کا رویہ اپناچکے ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ اپنے حلقے کے امیدواروں کے قول
و فعل اور ماضی کے کردار پر نظر رکھیں اور سوچ سمجھ کر ووٹ کا حق استعمال
کریں اور اپنی عدم شمولیت کی بناء پر کسی نااہل کو با اختیار ہو کرعوام پر
مسلط ہونے کاموقع فراہم نہ کریں۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے 17 اکتوبر بطور"نیشنل ووٹر ز ڈے " منانے کا اعلان
خوش آئند ہے۔ اس دن کو ووٹ کی اہمیت سے آگاہی کے پھیلاؤ کا ذریعہ بنا نا
چاہیے۔
اس حوالے سے میڈیا پر سب سے بھاری ذمہ دار ی عا ئدہو تی ہے کہ مباحثوں ،
مذاکروں اور پبلک سروس پیغامات کے ذریعے عوام الناس کو ووٹ کے استعمال کی
جانب راغب کریں۔ این جی اوز، انسانی حقوق کی تنظیموں اور اساتذہ کا بھی فرض
ہے کہ وہ اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے عوام النا س کو آگاہی اور
رہنمائی فراہم کریں۔ |