حضرت شیخ الاسلام نے حال ہی میں ایک او ر چٹکلہ چھوڑا ہو
ا ہے ۔ کہ میرے زندگی کا ہر لمحہ انقلاب کے لیے وقف ہے ۔حضرت کہنے کو تو
شیخ الاسلام ہے ۔ لیکن چٹکلے شیخ رشید کی طرح چھوڑتے ہیں ۔ شیخ صاحب شاید
انقلاب کا معنیٰ نہیں جانتے یا جان بوجھ کر پاکستانی عوام کو لولی پاپ دینے
کی ناکام کوشش کر رہے ہیں ۔پتہ نہیں ان کو انقلاب کیا چیز نظر آتا ہے ۔
انقلاب کو کروڑوں روپے کے بنائے ہوئے بلٹ پروف کینٹینر میں نہیں بلکہ بھوکے
پیٹ اور ننگے جسم والے لے کر آتے ہیں ۔ جو قوم خوش ہو جس قوم کو تین وقت کی
روٹی میسر ہو ۔ جو قوم روزانہ تین سو روپے دیہاڑی میں بھی سو روپے مو بائیل
بیلنس پر خرچ کر تے ہیں ۔ جس قوم میں کوئی رات کو بھوکا نہ سوتا ہو ۔ اور
جس قوم کے رہنما خود فریبی اور خود غرضی جیسے صفات کے مالک ہوں ۔ اس قوم کی
نصیب میں انقلاب نہیں بلکہ سیلاب اور تباہی ہی ہوتی ہے ۔ آ پ خود اندازہ
لگالیں کہ کچھ عرصہ پہلے جس کا ابھی سال بھی پورا نہیں ہوا ۔اس طرح کی بات
انقلاب ،سونامی ،کے نام سے حضرت شیخ صاحب کے ہمنوا ء جناب عمران خان عرف
سونامی خان بھی کیا کرتا تھا ۔ اس نے بھی عوام کو خوشخبری دی تھی کہ میں
اقتدار میں آکر پاکستان کا تقدیر بدل دونگا ۔ وہ بے چارہ تو پاکستان کے
اقتدار سے محروم رہا ۔لیکن کے پی کے کے بد قسمت عوام می نصیب میں ٹپک پڑا ۔
جو وہ بے چارے عوام ابھی تک سہہ رہے ہیں ۔ اگر کسی کو شک ہو تو بے شک کے پی
کے کا ایک وزٹ کر کے دیکھ لیں کہ انقلاب کے دعویداروں نے وہا ں کیا کیا ہے
۔پشاور کے علاوہ تو کسی ضلع میں حکومت نام کی کو ئ چیز ہے ہی نہیں ۔ اور
پشاور کے عوام پروٹوکول اور سیکورٹی کی وجہ سے زندگی کے سخت دن بیت رہے ہیں
۔ تو بات ہو رہی تھی شیخ صاحب کی ۔حال ہی میں شیخ الاسلام کے ٦٣ ویں سالگرہ
کی تقریبات ہوئ ۔جس پر نہ جانے کتنا خرچہ آیا ہو گا ۔ اس کو یہ صاحب انقلاب
کہتے ہیں ۔ تو شیخ صاحب کو یا د ہو نا چاہیے ۔ کہ دنیا میں وہ لو گ عزت کے
حق دار ہو تے ہیں ۔جو عریب کو اپنے نوالے سے پہلے کھلا ئیں ۔دنیا شیخ کی
انقلاب کو نہیں بلکہ درویش صفت عبد الستار ایدھی کی انقلاب کو مانتے ہیں ۔
وہ عبد الستار ایدھی جو کسی غریب یا بے گناہ کی نا حق موت پر ایسا بین کر
تے ہیں جیسے وہ اس کا اپنا اولاد ہو ۔ وہ عبد الستار ایدھی جس نے دنیا کو
ترک کرکے اپنی ساری خوشیاں غریب عوام کے نام وقف کر لیں ۔وہ عبد الستار
ایدھی کہ اگر وہ چاہتا تو اپنے فلاحی کاموں پر سونامی یا آپ کی طرح عوام سے
ووٹ بھی مانگ کر کیش کر سکتا تھا ۔لیکن آج تک کسی نے اس کے منہ سے ایسی بات
نہیں سنی کہ اس نے اپنے کسی فلاحی کام کا کہیں اپنے مفاد کے لیےذکر کیا ہو
۔ اصل انقلاب وہ لا سکتا ہے ۔ اگر چاہے تو ۔ جو لوگ کروڑوں اربوں کی پر
آسائش کو ٹھیوں میں رہتے ہیں ۔ نوکر چاکر اور خوشامدی اس کے ارد گرد جمع ہو
۔ جو اپنے آپ کو عقل کل مانے ۔ اور باقی ساری دنیا اسکے نظر میں جاہل ہو ۔
جو دوسروں کو موروثیت کے نام پر بلیک میل کر ے لیکن اپنے ولی وارث کے طورپر
اپنے اولاد کو نامزد کرے ۔ اس کے منہ سے انقلاب اور عوام دوستی جیسے الفاظ
سن کر مجھے ایک بہروپیے کے سوا ءاور کچھ نظر نہیں آتا۔آیے مان لیں ۔کہ
پاکستانی عوام ابھی سوئے ہوئے ہیں ۔ یا آ پ کی اصلیت جان چکے ہیں ۔اسلیے آپ
اپنا خاطر جمع کرکے کینیڈا واپس تشریف لے جائیں ۔ یہاں آپ کی دکانداری کا
چلنا بہت ہی مشکل ہے ۔ مداری کا مال ایک دفعہ بکتا ہے ۔ دوسری دفعہ اس کو
لیتر پڑتےہیں ،کہیں ایسا نہ ہو ۔کہ پاکستانی عوام جاگ جائیں ۔ اور تمھیں سر
چھپانے کی جگہ نہ ملے ۔ ملکہ برطانیہ کے چشم وچراغ پاکستان کے خیر خواہ
کبھی بھی نہیں ہو سکتے ۔موسمی پرندے صرف پیٹ کی فکر کرتے ہیں مستقل گھونسلہ
ان کا کسی اور ملک میں ہوتا ہے ۔ جو موسم کی تبدیلی پر پرررررررررر کر کے
اڑ جاتے ہیں اور اپنے مستقل جگہے میں چلے جاتے ہیں ۔ |