وطن عزیز میں جس طرح مہنگائی کا
ایک ہوشربا اور نہ ختم ہونے والا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے اس میں کوئی
کمی ہوتی تو نظر نہیں آتی لیکن مرکزی حکومت ہو یا صوبائی حکومتیں، سب نے ہی
عوام کی عزت نفس سے کھیلنے کا جیسے ٹھیکہ لے رکھا ہو، غربت ختم کرنے کی
بجائے غریب کو ہی ختم کرنے کا سلسلہ آجکل عروج پر ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے
لوگ خودکشیاں کررہے ہیں لیکن اس کی طرف توجہ کرنے کی بجائے ہمارے حکمران
اپنے عوام کی عزت نفس کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ گئے ہیں۔ رمضان کی آمد کے ساتھ
ہی حکومتی سطح پر اعلان کیا گیا کہ عوام کو سستے رمضان بازاروں اور یوٹیلٹی
سٹورز پر سستی اشیاء میسر ہوں گی۔ وفاقی حکومت نے چند ماہ پہلے چینی درآمد
کرنے کی سفارشات کو نہ صرف یکسر نظر انداز کیا بلکہ چینی کا بحران شروع
ہونے پر ڈرامائی طور پر حکومت پنجاب کو شوگر ملوں پر چھاپوں سے بھی روک دیا۔
وفاقی حکومت نے پہلے تو چینی مافیا سے نپٹنے کا اعلان کیا لیکن بعد ازاں
منظور وٹو نے شوگر ملز مالکان سے مذاکرات کے بعد بیان داغ دیا کہ چینی کا
کوئی بحران ہی نہیں ہے، پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناءاللہ کے مطابق چینی
کے حالیہ بحران کے دوران عوام کو پانچ ارب روپے کا ”ٹیکہ“ لگا دیا گیا۔ اس
ٹیکے کو مہنگائی کی ماری عوام پر لگانے میں کون کون شامل ہے اس کا پتہ آج
نہیں تو کل چل ہی جائے گا لیکن پھر کیا ہوگا؟ معمول کے مطابق شائد کوئی
کمیشن بھی بنا دیا جائے لیکن اس کا نقصان بھی عوام کو ہی برداشت کرنا پڑے
گا کیونکہ جب بھی حکومتی سطح پر مہنگائی کو روکنے کی کوشش کی جاتی ہے اس کا
نشانہ بیچارے عوام ہی بنتے ہیں۔ مہنگائی کو روکنے کے لئے جب چھاپے مارے
جاتے ہیں تو روز مرہ استعمال کی اشیاء زیادہ مہنگی کیسے ہوجاتی ہیں، یہ بات
سمجھنے کے لئے نیوٹن یا کسی سائنس دان کا دماغ ہرگز درکار نہیں بلکہ عام
عقل و فہم اور ادراک رکھنے والا شخص بھی تھوڑا سا غور و فکر کر کے بات کی
تہہ تک پہنچ سکتا ہے۔ جب حکومت کے اہلکاران مہنگائی کو روکنے کے لئے چھاپے
مارتے ہیں تو مینوفیکچررز ، ہول سیل ڈیلرز اور پرچون دکاندار اپنی اپنی سطح
پر ان سرکاری اہلکاران کی مٹھی گرم کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور اس طرح
مہنگائی کا مزید بار بھی عوام کے ناتواں کندھوں پر آجاتا ہے۔ اگر بلاوجہ
چھاپے نہ مارے جائیں تو شائد عوام کو ہلکا سا ”ٹیکہ“ ہی برداشت کرنا پڑے
لیکن چھاپے مارنے اور اس کے نتیجہ میں سرکاری اہلکاران کی چاندی ہونے کی
وجہ سے سارا ملبہ اور نزلہ عوام پر آگرتا ہے، جتنا کوئی رشوت کی صورت میں
سرکاری اہلکاران کو ادا کرتا ہے وہ اس نے کوئی اپنی جیب سے تھوڑا دینا ہوتا
ہے بلکہ وہ بھی مع مزید منافع عوام کی جیبوں سے نکلوا لیا جاتا ہے۔
رمضان کی آمد کے ساتھ ہی یوٹیلٹی سٹورز کا حال ملاحظہ کیا جائے تو عوام کی
عزت نفس کو مجروح کرنے کا گھناﺅنا کام اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔ یوٹیلٹی
سٹورز سے سستی اشیاء اپنے من پسند اور منظور نظر پرچون فروشوں کو فروخت کر
دی جاتی ہیں۔ عوام اگر غلطی سے چینی اور دیگر اشیائے ضرورت خریدنے چلے بھی
جائیں تو اتنا لمبا عرصہ انہیں لائنوں میں لگوایا جاتا ہے کہ وہ آئندہ وہاں
جانے کی زحمت نہ ہی کریں۔ کڑی دھوپ میں گھنٹوں لائن میں لگ کر جب وہ اندر
پہنچتے ہیں تو انہیں بتایا جاتا ہے کہ چینی کا ریٹ تو اڑتیس روپے فی کلو ہے
لیکن وہ ختم ہوچکی ہے یا اگر ہے بھی تو اس کے لئے پہلے 500 روپے کی دیگر
اشیاء خریدنی پڑیں گی۔ اب بھلا ایک شخص جو دو کلو چینی کے لئے 3/4 گھنٹے
لائن میں لگا رہتا ہے اگر اس کے پاس دیگر اشیاء کی خریداری کے لئے رقم
موجود ہو تو وہ اوپن مارکیٹ سے چینی نہیں خرید سکتا؟ اسی طرح باقی سستی
اشیاء کا حال ہوتا ہے۔ کچھ ایسا ہی نظارہ سستے رمضان بازاروں میں دیکھنے کو
ملتا ہے۔ ایک طرف عوام کا جم غفیر ہوتا ہے تو دوسری طرف ایک منی ٹرک میں
آٹے اور چینی کے تھیلے رکھے ہوتے ہیں۔ لائن اتنی لمبی کہ الامان الحفیظ! ہر
کوئی پہلے خریداری کے چکر میں ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سب کو اپنی
دیہاڑی پر بھی جانا ہوتا ہے۔ پہلے چینی اور آٹا خریدنے کی دھن میں غریب نہ
اپنے کپڑوں کی پرواہ کرتا ہے نہ دوسرے کی، جب گھر پہنچتا ہے تو اپنی غربت
کو بھی کوس رہا ہوتا ہے اور حکومت کی پالیسیوں کو بھی، اس کے ساتھ ساتھ جب
وہ دیکھتا ہے کہ سڑکوں پر نئی گاڑیوں کی لائنیں لگی ہیں اور امراء بڑے بڑے
سٹورز میں ایک وقت میں ہزاروں روپے کی خریداری کرتے ہیں اور خریدی گئی
اشیاء کی قیمت تک پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تو اس وقت جو جوالا مکھی
اس کے اندر طوفان کھڑا کر رہا ہوتا ہے اس کو دیکھنے اور محسوس کرنے والا
کوئی نہیں ہوتا۔ غریب آدمی یہ سوچتا ہے کہ کیوں نہ وہ ان امیروں سے سب کچھ
چھین لے؟ مجھے ایک جھگی نشین کی بات یاد آرہی ہے جو اس نے چند ماہ پیشتر کی
تھی۔ ہمارے محلے میں گھروں میں کام کرنے والی خاتون کا سسر اسے لینے آیا
ہوا تھا، یہ ان دنوں کی بات ہے جب پورے ملک میں خود کش دھماکے بڑے تواتر کے
ساتھ ہورہے تھے۔ بڑی گرما گرم خبریں تھیں کہ امریکہ بھی پاکستان پر حملہ
کرنے والا ہے اور ہندوستان بھی پر تول رہا ہے۔ اس آدمی کو کام کرنے والی
خاتون نے ٹی وی کی خبروں کے بارے میں بتلایا تو اس نے ایسا جواب دیا جس کو
سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے، اس نے کہا کہ ”کوئی بات نہیں، حملہ ہونے کی
دیر ہے پھر سب سے پہلے ہم ان کوٹھیوں میں لوٹ مار کریں گے“جب ملک کے اندر
ہی غربت و افلاس کی وجہ سے لوگ ایسا سوچنا شروع کردیں تو باہر سے کسی کو
لوٹ مار کرنے کے لئے آنے کی کیا ضرورت ہے؟
پوری دنیا میں جب کسی ملک میں کوئی مذہبی تہوار نزدیک ہوتا ہے تو وہاں کے
تاجر اپنا منافع کم کردیتے ہیں تاکہ عوام بھی اس تہوار کی خوشیوں میں شریک
ہوسکیں اور اپنی پسند کی اشیاء خرید سکیں۔ یورپ، امریکہ اور دیگر ملکوں میں
جب کرسمس کا موقع آتا ہے تو سستی اشیاء کے سٹالز لگا دیے جاتے ہیں، ریلوے
اور جہاز کے کرایوں میں کمی کردی جاتی ہے تاکہ لوگ اپنے عزیز و اقارب اور
گھر والوں کے ساتھ وہ تہوار منا سکیں لیکن ہماری ہر چیز ہی الٹ ہے، جب عید
کا موقع ہوتا ہے تو بازاروں میں مہنگائی آسمان کو چھونا شروع کردیتی ہے،
ریلوے اور ہوائی جہاز کے ٹکٹ مہنگے ہوجاتے ہیں، تاجر حضرات کی کوشش ہوتی ہے
کہ پورے سال کی کمائی ایک ہی ماہ میں کر لی جائے۔ اس کے علاوہ رمضان میں
عمرہ کرنے کے خواہش مندوں کو بھی کچھ اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا
پڑتا ہے۔ عام دنوں کی نسبت جہاز کے کرایہ میں ڈیڑھ، دو گنا تک اضافہ کردیا
جاتا ہے جس میں سب سے آگے ہماری اپنی ائیر لائن PIA ہوتی ہے۔ ایسا کیوں
ہورہا ہے اور متواتر کیوں ہورہا ہے؟ اسی لئے کہ یہاں کوئی کسی کو پوچھنے
والا نہیں! جتنی مرضی مہنگائی ہوجائے، عوام اپنی دھن کے پکے ہیں، وہ آواز
بلند کرنے کو تیار ہی نہیں۔ اگر مہنگی چینی نہ خریدی جائے یا کم خریدی جائے
اور چینی کچھ دنوں کے لئے چھوڑ ہی دی جائے تو شوگر مل مالکان کو بھی آٹے
دال کا بھاﺅ یاد نہ آجائے؟ ظاہر ہے جب ان کے سٹاک میں موجود چینی بکے گی ہی
نہیں تو وہ ناجائز منافع خوری کیسے کر سکیں گےَ؟ لیکن یہاں ایسے حالات
ہوجاتے ہیں کہ جس کے گھر میں ایک ماہ کی چینی موجود بھی ہو وہ چاہتا ہے کہ
کم از کم ایک ماہ کا ذخیرہ اور کرلیا جائے، لوگ ایسے لپکتے ہیں کہ جیسے
چینی نہ ملی تو قیامت برپا ہوجائے گی اور یہی وجہ ان کی عزت نفس مجروح کرنے
کا باعث بھی بنتی ہے۔ دوسری طرف ایسے دنوں میں حکومت نام کی چیز ڈھونڈے سے
بھی نہیں ملتی، بیت اللہ محسود پر اپنی رٹ قائم کرنے والے مہنگائی کے مسئلہ
پر مکمل فیل نظر آتے ہیں۔ کیا لوٹ مار اور مہنگائی سے عوام کو ٹیکے لگانے
والے اور خون چوسنے والے لوگوں پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا، کیا عوام کی
عزت نفس کو کوڑیوں کے بھاﺅ بیچنے والوں پر کوئی دفعہ نہیں لگتی؟ کیا ایسے
وزراء کو حکومت میں رہنے کا کوئی حق ہے جو ”چینی مافیا“اور ”آٹا مافیا“ کے
ہاتھوں عوام کو بلیک میل کروائیں اور خود کروڑوں، اربوں کی ”دیہاڑیاں“
لگائیں؟ کیا حکومت کا کہیں وجود ہے؟ کیا کوئی عوام کی عزت نفس کی حفاظت
کرنے کا بیڑہ اٹھانے کو تیار ہے؟ اگر کوئی ہے تو مہربانی کر کے سامنے آئے
ورنہ حالات ایک ایسے جہنم کی طرف جارہے ہیں جس کی آگ کی تپش غریب کو تو
جلائے گی ہی لیکن امراء اور حکومت بھی اس سے نہیں بچ پائیں گے |