پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ
میجر جنرل اطہر عباس کا تعلق ایک علمی ادبی اور صحافتی گھرانے سے ہے۔ آئی
ایس پی آر کی ویب سائٹ پر انہوں نے سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے اپنے
خصوصی مضمون میں کہا ہے کہ سول ملٹری تعلقات میں بہتری کیلئے قومی سلامتی
کونسل جیسے اداروں کا قیام اہمیت کا حامل ہے۔ انٹیلی جنس اداروں کو سیاسی
مقاصد یا ڈیلنگ کیلئے استعمال نہیں ہونا چاہئے۔ حکومت اور اپوزیشن پارلیمنٹ
کی دفاعی کمیٹیوں کے ارکان کا انتخاب احتیاط سے کریں۔ کسی بھی ادارے یا فرد
کو آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ جنگیں کبھی عوامی حمایت کے
بغیر نہیں جیتی جاسکتیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ملک میں نہ صرف بدترین
سیاسی بحران پیدا ہوا بلکہ پاک فوج کا تشخص بھی بری طرح متاثر ہوا۔ انہوں
نے اس امر کا بھی اظہار کیا ہے کہ ‘ فوج یہ چاہتی ہے کہ اس کی دفاعی ضرویات
ترجیحی بنیادوں پر پوری ہونی چاہئیں۔ اس کے علاوہ سول محکموں میں حاضر سروس
یا ریٹائرڈ فوجی افسروں کی تقرری کی بھی سول انتطامیہ اور بیوروکریٹس کے
درمیان تشویش کا باعث بنتی ہے حالانکہ حکومتی پالیسی کے تحت منتخب اداروں
میں حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی افسروں کیلئے دس فیصد کوٹہ مقرر ہے تاہم سول
اداروں میں فوجی افسروں کی طویل تقرری بھی پاک فوج کی ساکھ کیلئے درست نہیں‘
چنانچہ یہ تقرریاں انتہائی محدود ہونی چاہئیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ
انہوں نے یہ بات واضح کی کہ انٹیلی جنس اداروں کو سیاسی مقاصد یا ڈیلنگ
کیلئے استعمال نہیں ہونا چاہئے۔ آج میڈیا میں اچھالا جانے والا لاپتہ افراد
کا معاملہ بھی اسی کا شاخسانہ ہے۔
آئی ایس پی آر کے ماضی قریب کے ذمہ داروں کے برعکس میجر جنرل اظہر عباس کا
رویہ میڈیا کے بارے میں بڑی حد تک حقیقت پسندانہ ہے۔ پاکستان کی سیاست میں
خرابیوں کی ابتدا اس وقت سے ہوئی جب سے ہمارے انٹیلی جنس کے اداروں کا اثر
نفوز سیاست میں زیادہ دخیل ہوا۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ لیکن اس
کے بعد باقی مانند پاکستان میں سندھو دیش، پختونستان، آزاد بلوچستان، اور
جناح پور جیسے منصوبے تخلیق کئے جاتے رہے۔ اور ان منصوبوں کی آڑ میں سیاسی
کارکنوں کا قتل عام کیا جاتا رہا۔۲۷۹۱ میں سندھ میں جئے سندھ کی تحریک کا
ہوا کھڑا کیا گیا۔ اور سندھ میں بڑے پیمانے پر سندھی مہاجر فسادات ہوئے۔ جس
کے اثرات اب بھی سندھ کی سیاست میں پائے جاتے ہیں۔ پھر بھٹو دور میں اے این
پی کو نشانہ بنایا گیا، ولی خان سمیت اے این پی کی ساری قیادت کو غدار قرار
دیا گیا۔ اور حیدرآباد جیل میں ان کے خلاف مقدمے بنائے گئے۔ بعد میں یہی
رہنما قومی اتحاد کے صف اول کے رہنما قرار پائے۔ اس دور میں بلوچستان پر
فوج کشی کی گئی۔ اور وہاں کے جمہوری رہنما، سردار عطااللہ مینگل، سردار غوث
بخش بزنجو، سمیت ہزاروں افراد کو ملکی سیاست سے متنفر کر دیا گیا۔ ضیاءالحق
کے پورے دور میں سندھ کے گاﺅں گھوٹوں کو تختہ مشق بنایا گیا۔ جس کے بطن سے
ایم آرڈی کی تحریک نے جنم لیا۔ سندھ میں شہری سیاست میں ایم کیو ایم کی آمد
سے سندھ میں بسنے والے لاکھوں مہاجر نوجوانوں کے دلوں میں اس بات کی امید
پیدا ہوئی تھی کہ کوٹہ سسٹم کا خاتمہ ہوگا۔ شہری یونیورسٹی( جو حیدرآباد کے
شہریوں کا جائز مطالبہ ہے ) قائم ہوگی، اور مہاجر کے حقوق کو تسلیم کیا
جائے گا۔ لیکن ۸۸۹۱ کے بلدیاتی انتخاب میں کامیابی کے بعد ایم کیو ایم کا
ایسا پیچھا کیا گیا کہ ۲۹۹۱ میں اس تنظیم کو مٹانے کے لئے آپریشن کا سہارا
لیا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ کو ایم کیو ایم کا سیاست میں آنا اس قدر ناگوار گزر ا
کہ 19جون 1992ء کو ایم کیوایم کے خلاف بدترین ریاستی آپریشن کا آغاز کر دیا
گیا۔ اس دوران ایم کیوایم کے ہزاروں ذمہ داران وکارکنان، سینیٹ و ارکان
اسمبلی ہمدردوں ایم کیو ایم کے چیئرمین عظیم احمد طارق، الطاف حسین کے بڑے
بھائی ناصر حسین اور جواں سال بھتیجے عارف حسین کو بھی نہایت بے رحمی سے
بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا۔ اس
بدترین آپر یشن کے دوران سرکاری اہلکاروں نے الطاف حسین کے دیگر عزیز و
اقارب کو بھی گر فتار کرکے بے رحمانہ تشدد کیا اور انہیں ذہنی ٹارچر کیا۔
ہزاروں مہاجر نوجواں ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ آخر مہاجر قومی موومنٹ کو 27
جولائی 1997 کو متحدہ قومی موومنٹ بن جانا پڑا۔
گزشتہ روز ایک ٹی وی مذاکرے میں کہا گیا ہے کہ 1992ﺀ میں متحدہ کے خلاف
آپریشن کے دوران جناح پور کے نقشے کی برآمدگی ایک ڈرامہ تھی۔ ایم کیو ایم
کے دفتر سے ایسا کوئی نقشہ برآمد نہیں ہوا تھا۔ ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو
دیتے ہوئے انٹیلی جنس بیورو کے سابق ڈائریکٹر جنرل بریگیڈیئر (ر) امتیاز کا
کہنا تھا کہ جناح پور کا نقشہ قوم میں نفاق ڈالنے کی سازش تھی جبکہ اس بارے
میں کراچی کے اس وقت کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نصیر اختر کا کہنا ہے کہ
انہیں ایسے نقشے کا کوئی علم نہیں تھا۔
سوال یہ ہے کہ یہ کون لوگ تھے جو ملک اور قوم کے مستقبل سے کھیل رہے تھے،
اور اب بھی یہ کون لوگ ہیں جو بلوچستان، سرحد اور سندھ میں یہ کھیل جاری
رکھے ہوئے ہیں۔ کوئی تو ان کو نکیل ڈالنے والا ہونا چائیے۔ اس ملک میں
سیاست کرنے والی جماعتیں سب محب وطن ہیں۔ سب کا اس دھرتی سے رشتہ ہے، سب اس
کی ترقی اور خوشحالی چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ اس
ملک کے وسائل میں سے ان کو بھی حصہ دیا جائے، وہ بھی زندہ رہنا چاہتے ہیں،
ہندوستان، افغانستان میں دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہہ رہی کہ لوگ ان کے
ایجنٹ بن کر اس پاک دھرتی کو نقصان پہنچائیں۔ یہ ہماری نالائقی ہے کہ ہم نے
ان لوگوں کو ناراض کردیا ہے، ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے، سوچنا چاہیے، اور
اس کا مداوا کرنا چاہیے۔ |