بریگیڈئر ( ر) امتیاز کا متنازعہ انٹرویو

بریگیڈئر ( ر) امتیاز نے تئیس اگست کی رات کو ایک نجی ٹی وی چینلز پر کچھ “ انکاشافات “ کیے جس کے بعد ملک کی سیاسی صورتحال میں ایک ہلچل مچ گئی۔ اس انٹرویو کی بنیاد پر جناب الطاف حسین صاحب نے چوبیس اگست کو بیک وقت کئی شہروں میں ٹیلیفونک خطاب بھی کئے۔ لب لباب اس انٹرویو کا یہ ہے کہ “ بریگیڈئر ( ر) امتیاز“ نے انکشاف کیا کہ جناح پور کا نقشہ ایک سازش تھی اس میں کوئی حقیقت نہیں تھی اور میں نے سات دن تک اس کی تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے اور یہ قوم کو تفرقہ میں ڈالنے کی ایک سازش تھی۔ جبکہ اسی دوران سابق کور کمانڈر سندہ جنرل ( ر) نصیر اختر سے بھی گفتگو کی گئی انہوں نے یہ فرمایا کہ انہیں جناح پور کے نقشوں کا کوئی علم نہیں تھا اور یہ نقشے دو دن کے بعد ان سے واپس لے لیے گئے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ بریگیڈئر ( ر) امتیاز صاحب نے آئی جے آئی کے حوالے سے بھی پرانے الزامات کو دہرایا، اور ساتھ ہی غلام مصطفیٰ کھر کے بارے میں یہ انکشاف کیا کہ انہوں نے جنرل ضیاء الحق مرحوم اور اس وقت کی فوجی قیادت کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، انکے جوشی نامی را کے ایک ایجنٹ سے رابطے تھے۔

اس انٹرویو پر متحدہ کے قائد الطاف حسین صاحب اور رابطہ کمیٹی کے رد عمل پر ہم بعد میں بات کریں گے پہلے اس پروگرام کے کچھ نکات پر بات کرلیتے ہیں۔ یہ پروگرام اے آر وائی سے نشر کیا گیا اور اے آر وائی کا پروگرام سوال یہ ہے جو کہ ڈاکٹر دانش نامی اینکر کرتے ہیں انہوں نے یہ پروگرام کیا۔ اگر جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ یہ پروگرام ایک اسپانسرڈ پروگرام تھا۔

پہلی بات یہ کہ آج کل نجی چینلز سے تمام ہی ٹاک شوز براہ راست نشر ہوتے ہیں لیکن یہ پروگرام ریکارڈڈ تھا کیوں کہ اس پروگرام کا وقت رات ایک بجے کا تھا جبکہ یہ رات تقریباً ایک بج کر دس منٹ پر نشر ہوا اور سب سے دلچسپ بات یہ کہ پروگرام نشر ہونے سے پہلے ہی ایم کیو ایم کی ریلیاں نکلنا شروع ہوگئیں اور رابطہ کمیٹی کا بیان بھی سامنے آگیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پروگرام باقائدہ منصوبہ کے تحت ریکارڈ کیا گیا۔

دوسری بات کہ تمام قارئین غور کریں جتنے بھی ٹاک شوز ہوتے ہیں ان میں جب کسی شخصیت کے متعلق کوئی بات ہوتی ہے تو اس وقت ان سے ٹیلفونک رابطہ کیا جاتا ہے اور ان کا نظریہ معلوم کیا جاتا ہے لیکن یہاں پروگرام شروع ہونے سے پہلے ہی اینکر نے بتادیا کہ ہم جنرل نصیر اختر اور غلام مصطفیٰ کھر کی کال لیں گے۔؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اینکر کو یہ کیسے پتہ چلا کہ بریگیڈئر ( ر) امتیاز جنرل نصیر اور غلام مصطفیٰ کھر کی بات کریں گے؟؟؟

تیسری بات جن لوگوں نے یہ پروگرام بغور دیکھا ہوتا ان کو یہ بات نظر آئی ہو کہ اینکر واضح طور پر پروگرام کو یکطرفہ لیکر چل رہے تھے اور جہاں کوئی بات ان کے مطلب کے خلاف ہوتی وہاں وہ شور مچا کر بات کا رخ بدل دیتے، کئی بار انہوں نے ایسا کیا البتہ بریگیڈئر ( ر) امتیاز نے چند بار خاموشی اختیار کی اور کئی بار ان کو خاموش کرا کر اپنا موقف سنایا ( اس کا ذکر آگے آئے گا )۔ اس کے علاوہ جب بریگیڈئر ( ر) امتیاز نے یہ کہا کہ نواز شریف کو اس آپریشن کا علم نہیں تھا اس کے بعد انہوں نے جنرل نصیر اختر سے کال ملائی تو اس دوران طنزاً یہ کہا کہ “ جناب نواز شریف صاحب کو تو کئی باتوں کا علم ہی نہیں ہوپاتا ہے کارگل کا معرکہ ہوتا ہے تو ان کو پتہ نہیں چلتا، کراچی میں آپریشن ہوتا ہے تو ان کو پتہ نہیں چلتا “ اس طرح کی باتوں سے واضح ہورہا تھا کہ یہ پروگرام صحافتی اصولوں کے بجائے صریحاً جانبداری پر مبنی ہے۔

جنرل نصیر اختر سے ٹیلیفون پر رابطے کے دوران جب انہوں نے کراچی آپریشن سے متعلق سوال کیا تو جنرل نصیر اختر نے جواب دیتے ہوئے کہنا شروع کیا کہ “ یہ آپریشن متحدہ کے خلاف نہیں تھا بلکہ کراچی میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف تھا اور یہ طے پایا تھا کہ کوئی گولی نہیں چلائی جائے گی۔ کسی کا خون نہیں بہایا جائے گا لیکن جب ہمارے لوگ مارے گئے۔۔۔۔۔۔“ یہاں اینکر ڈاکٹر دانش نے فوراً مداخلت کی اور ان کی بات کاٹ لی جبکہ ان کے جملے سے یہ بات واضح ہورہی تھی کہ وہ کہنا چاہتے تھے کہ جب ہمارے لوگ مارے گئے تو پھر متحدہ کے خلاف آپریش شروع ہوا لیکن اینکر نے ان کی بات کاٹ دی۔

اسی طرح مذکورہ اینکر نے بریگیڈئر ( ر) امتیاز سے ایک سوال کیا کہ “ کیا نواز شریف آپریشن رکوا سکتے تھے یا نہیں “ بریگیڈئر ( ر) امتیاز نے جواب دیا کہ بحیثیت وزیر اعظم وہ ایسا کرسکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اس موقع پر پروگرام کے اینکر ڈاکٹر دانش نے ایک بار پھر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ جناب وہ کارگل میں ہندوؤں کی جان بچانے کے لیے امریکہ جاسکتے ہیں لیکن اپنے پاکستانی بھائیوں کی جان بچانے کے لیے آپریشن نہیں رکوا سکتے تھے۔ یہاں بریگیڈئر ( ر) امتیاز نے مداخلت کی اور کہنا شروع کیا کہ ہندوؤں کے لیے نہیں ۔۔ ۔تو ایک بار پھر ڈاکٹر دانش نے ان کی بات کاٹنے کی کوشش کی ( یہ وہی بات ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا تھا ) لیکن بریگیڈئر ( ر) امتیاز نے ان کی بات کاٹ کر کہا آپ میری بات مکمل ہونے دیں اور کہا کہ کارگل میں ہندؤوں کو بچانے کے لیے نہیں بلکہ اپنے مسلمان بھائیوں کو بچانے کے لیے امریکہ گئے تھے۔

دوسری جانب بریگیڈئر ( ر) امتیاز نے غلام مصطفیٰ کھر پر الزام لگایا جب ان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے واضح طور پر نہ صرف اس کی تردید کی بلکہ بریگیڈئر ( ر) امتیاز کو مناظرے کا چیلنچ بھی دیا جس کے بعد اینکر نے ان سے مزید کوئی بات نہیں کی اور یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ ٹھیک آپ کو بریگیڈئر ( ر) امتیاز صاحب کو کسی پروگرام میں ایک ساتھ بلایا جائے گا۔ جبکہ وہ چاہتے تو فون پر بھی کئی باتیں پوچھ سکتے تھے لیکن چونکہ غلام مصطفیٰ کھر صاحب نے بریگیڈئر ( ر) امتیاز کی باتوں کی تردید کردی تھی اس لیے ان سے زیادہ بات کرنے کی کوشش نہیں کی گئی تاکہ پروگرام میں اپنی مرضی کا رنگ بھرا جاسکے۔

آخری بات یہ کہ عموماً کسی بھی مذاکرہ میں جب کسی شخصیت سے متعلق کوئی بات کہی جاتی ہے تو اس شخصیت سے رابطہ کر کے اس کا مؤقف سنا جاتا ہے لیکن اس پروگرام میں بریگیڈئر ( ر) امتیاز نے جنرل ( ر ) حمید گل، سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ، نواز شریف، قاضی حسین احمد اور دیگر چند فوجی افسران پر الزامات لگائے اصولی طور پر تو ان لوگوں سے رابطہ کر کے ان کا مؤقف سنا جاتا تاکہ دونوں جانب کی بات سامنے آتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا، جبکہ دیکھا گیا ہے جنرل حمید گل، جنرل اسلم بیگ، قاضی حیسن احمد، اور میاں نواز شریف سے جب بھی میڈیا نے رابطہ کیا تو انہوں نے کبھی بھی کسی پروگرام میں بات کرنے سے انکار نہیں کیا ہے بلکہ اپنا مؤقف میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچایا لیکن اس پروگرام میں جان بوجھ کر ان افراد سے رابطہ نہیں کیا گیا تاکہ اپنی مرضی کی بات لوگوں تک پہنچائی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی انتہائی اہم ہے کہ اس پروگرام میں کسی مخالف نظریے کے فرد کے بجائے ہم خیال فرد یعنی متحدہ قومی موومنٹ کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر حیدر عباس رضوی صاحب کو بلایا گیا اور تاثر یہ دیا گیا کہ “ ہم نے ان کو اس لیے بلایا تھا کہ یہاں ہمیں مقابلے کی توقع تھی جبکہ یہاں اس کے برعکس صورتحال سامنے آئی ہے اور بریگیڈئر ( ر) امتیاز نے تو آپ کے مؤقف کی تائید کردی ہے“ یہ بات بھی بالکل غلط ہے کیوں کہ یہ بات سامنے آچکی تھی کہ بریگیڈئر ( ر) امتیاز صاحب نواز شریف اور آئی جے آئی کے مخالف ہیں اور جیو کے ایک پروگرام میں وہ اپنے خیالات کا اظہار کرچکے تھے اس لیے یہ کہنا کہ ہمیں مقابلے کی توقع تھی بالکل غلط ہے۔

قارئین یہ باتیں جو ہم نے بتائی ہیں کوئی بھی فرد اس پروگرام کی ریکارڈنگ دیکھ کر یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ ہم غلط کہہ رہے ہیں یا درست۔ بہر حال یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ پروگرام اتفاقیہ نہیں ہے بلکہ منصوبہ بندی کے تحت بنایا گیا تھا۔ اس کے اوپر مزید بات ہم اپنے اگلے مضمون میں بیان کریں گے ( اگر زندگی رہی تو) -
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1505366 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More