گذشتہ دنوں منور حسن صاحب نے
طالبان مذاکرات کے حوالے سے یہ تجویز دی کہ مذاکرتی عمل کی مانیٹرنگ وفاق
المدارس کے سپرد کی جائے، منورحسن صاحب کی اس مضحکہ خیز تجویز کو تسلیم
کرنے سے پہلے ماضی کے دریچوں میں جھانکیں تو کچھ تلخ حقائق منہ چڑاتے نظر
آئیں گے۔سانحہ لال مسجد برپا ہونے سے پہلے اسی وفاق المدارس کو مذاکرات کی
ذمہ داری سونپی گئی تھی ،جس میں وفاق المدارس نے حکومت کی ترجمانی کرتے
ہوئے پہلے تو جامعہ حفصہ کا الحاق منسوخ کیااور پھر اس کے بعد مذاکرات کا
حق ادا کرتے ہوئے اس سارے معاملے سے لاتعلقی اختیار کی اور اس طرح اس
مذاکراتی عمل کو پایہ تکمیل پہنچا کر امن پسندوں کی صف میں جا کھڑے
ہوئے۔اسی طرح حال ہی میں مدرسہ تعلیم القرآن کا پیش آنے والا سانحہ، اس سے
پہلے مدرسہ احسن العلوم کے کئی طلباء کا پے درپے گولیوں کا نشانہ بننا، اس
سے پہلے بنوری ٹاؤن کے طالب علموں کا بے دردی سے قتل ہونا، اس سے پہلے
جامعہ فاروقیہ کے ایک طالب علم کا ناک ،کان کاٹ کر بہیمانہ قتل، اور اس سے
پہلے جامعہ فاروقیہ کے ہی اساتذہ و طلباء کی ایک گاڑی کو گولیوں سے بھون
دینا ،جامعہ بنوریہ کے طلباء پر بم دھماکہ یہ ماضی کے بہت سے سانحات میں سے
چند ایک سانحات ہیں،ان مدارس کا تعلق وفاق المدارس کے تحت 17687رجسٹرڈ
مدارس ہی میں سے ہے،اور ان میں سے بعض مدارس پر تو پے درپے سانحات برپا
ہوتے رہے ہیں،جب وفاق المدارس کے ماتحت ان مدارس کے سانحات پر وفاق المدارس
کا کوئی کردار نظر نہیں آیا تو طالبان مذاکراتی عمل میں اس کا کردار بے
معنی اور بے وجہ ہی سمجھا جائے گا۔
بالائی سطور میں مذکورہ چند مثالیں قومی سانحات میں اس ادارے کے کردار کی
حقیقت ہے،اب بات نکل ہی آئی ہے تو مزید کرداروں پر طائرانہ نظردوڑا ہی دیتے
ہیں۔17684مدارس و جامعات 107908اساتذہ کرام اور 2199863طلباء وطالبات کا
نمائندہ ’’ وفاق المدارس ‘‘ کے نام ہمہ گیر تنظیم کا قیام 1959ء میں
یقیناًایک وسیع النظر اور طویل المیعاد جامع اسلامی تعلیم کے لئے وجود میں
لایا گیا،جس کا مقصد اسلامی تعلیمات کے ماہرین،قرآن و حدیث پر گہری نگاہ
رکھنے والے علماء اور علوم اسلامیہ میں دسترس رکھنے والے رجال کار پیدا کئے
جائیں جو آگے جاکر مسلمان معاشرہ کا اسلام سے ناطہ جوڑنے ،مسلمانوں میں
اسلام کی بنیادی اور ضروری تعلیم عام کرنے اور اسلامی تہذیب وتمدن کی ابدی
صداقت کو اجاگر کرنے کا فریضہ انجام دیں۔اور اس مقصد کے لئے اس وقت کے جید
اکابرین و علماء نے ایک جامع نصاب مرتب کیا ،یہی وجہ ہے کہ اس ہمہ گیر
تنظیم نے نہایت ہی کم عرصے میں اپنی حیثیت ،اہمیت و افادیت کا لوہا
منوایا،یقیناًاس کا سہر افقط اس وقت کے صاحب علم وسیع النظر علماء و
اکابرین کو ہی دیا جاسکتا ہے۔
آج اس ہمہ گیر تنظیم کو معرض وجود میں آئے 50سال سے زائد کا عرصہ گذر چکا
ہے،اب یہ دنیا کے بڑے تعلیمی بورڈ میں شمار کیا جاتا ہے،مگر دیکھا جائے تو
آج یہ وہی کھڑا ہے جہاں سے اس کی ابتداء ہوئی،ہونا تو یوں چاہئیے تھا کہ اس
طویل عرصوں کے دوران بتدریج اس کے تعلیمی نصاب و تعلیمی نظام میں تبدیلیاں
کی جاتی،ادب، تاریخ ،فلسفہ و ابلاغ عامہ و دیگر ضروری فنون کا قرآن و حدیث
کے امتزاج سے ایسا نظام تعلیم متعارف کرایا جاتا کہ جس کے ذریعے ایک باعمل
عالم مفتی ابلاغ عامہ،ادب و تاریخ جیسے اور دیگرفنون کے امتزاج کے ساتھ
معاشرے میں اہم کردار ادا کرتا ،مگر افسوس صد افسوس ایسا نہیں ہوا۔یہ بات
وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ان 50سالوں میں کوئی ایک ایسا مثال یا کوئی ایک
ایسا کارنامہ وفاق المدارس پیش کرے کہ جس سے اس کی خدمات کو تسلیم کیا
جائے،یہ حقیقت ہے کہ ان دینی مدارس نے اگر کوئی علمی ،تاریخی و ادبی شخصیت
معاشرے کو دی ہے تو وہ فقط ان مدارس کی اپنے تئی محنت و مشقت ہے یا اسی طرح
اگر آج کچھ جدید تعلیم سے آراستہ بڑے دینی مدارس ہیں تو وہ اپنے تئی ہیں نہ
کہ وفاق المدارس کے کسی کردار یا افادیت سے۔وفاق المدارس کے تحت پڑھائے
جانے والے نصاب کا تعلیم یافتہ طالب علم تو فقط امام و مدرس تک ہی محدود رہ
چکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ان دینی مدارس میں نا امیدی کی لہر پھیل
چکی ہے، چند ایک بڑے مدارس کے ذمہ داران نے اس ناامیدی کو محسوس کرتے ہوئے
اپنے اپنے مدارس کے نصاب تعلیم و نظام تعلیم میں جدید رد بدل کے ذریعے
سرکاری یونیورسٹیوں سے الحاق کروانے پر مجبور ہیں، جن میں سرفہرست
دارالعلوم کراچی، جامعۃ الرشید کراچی، جامعہ بنوریہ کراچی، جامعہ اشرفیہ
لاہور اور اسی طرح کے دیگر مدارس ہیں جو کہ جدید علوم و جدید نظام پر
استوار رہے ہیں،حالانکہ یہ ذمہ داری وفاق المدارس کی ہونی چاہئیے تھی کہ
2199863طلباء وطالبات کے مستقبل کی فکر کرتے ہوئے وقتاً فوقتاً وفاق
المدارس کے نصاب و نظام تعلیم کی منصوبہ بندی کرتے،مگر ایسا نہیں ہوا اور
نہ ہی ایسا ہورہا ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں ایسا ہوتا نظر آتا ہے۔ اور
اگر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو کوئی بعید نہیں کہ مستقبل قریب میں وفاق
المدارس کے بالمقابل جدید دینی مدارس کا ایک الگ ہی بورڈ کھڑا ہوجائے، یہ
حقیقت ہے جسے ہرگز جھٹلایا نہیں جاسکتا ، اور اگر ایسا ہوگیا تو یقین کیجئے
پاکستان کے یہ 17684مدارس و جامعات ایک ایک کرکے وفاق المدارس کو الوداع
کرتے جائیں گے۔
بہرحال حقیقت تو یہی ہے کہ بالائی سطور کی ضبط کردہ تحریر دینی مدارس کے
اکثر و بیشتر ان طالب علموں کے ذہنوں کی عکاسی کرتی ہے جو کہ دینی و شرعی
علوم کے ساتھ ساتھ تاریخ و جغرافیا کا ماہر بننا چاہتا ہے، یا کوئی ایک
عالم یا مفتی ہونے کے ساتھ ابلاغ عامہ کی اونچائی کو سر کرنا چاہتا ہے۔بہر
کیف وفاق المدارس کے چند پہلوؤں کو گھیرے ہوئے یہ تحریر وفاق المدارس کے
نصاب تعلیم و نظام تعلیم میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کے ساتھ ساتھ تنقید
برائے اصلاح کی متقاضی ہے۔
|