جب مشرف نے دہشت گردوں کے خلاف
آپریشن کیا تھا تو اس وقت کہا جاتارہا کہ ظلم ہورہا ہے۔ طالبان اپنے ہی
شہری ہیں۔ ان کے ساتھ یہ سلوک اچھا نہیں ہے۔اس سے دہشت گردی میں اضافہ ہوگا۔
اورہوتا بھی یوں کہ جوں ہی آپریشن کیا جاتا ملک بھر میں خودکش حملوں کی نئی
لہر جاری ہوجاتی۔ پھر اشفاقن پرویزکیانی آئے تو انہوں نے حکمت عملی تبدیل
کرلی۔ آپریشن کیے مگر نئی حکمت عملی کے ساتھ۔ پھریہ سلسلہ منقطع کردیا
گیا۔امریکہ اورطالبان کے درمیان مذاکرات کی بات چلی توکہا گیا کہ امریکہ
طالبان کے ساتھ مذاکرات کرسکتاہے ہم کیوں نہیں۔ پاکستان کو دہشت گردی کی
دلدل سے نکالنے اورملک میں امن قائم کرنے کے لیے ان کیمرہ اجلاس بھی ہوئے۔
جس میں پہلا آپشن مذاکرات کا ہی رکھا گیا۔ جیسا کہ پہلے ہی کہا جاچکا ہے کہ
کچھ بیرونی عناصرنہیں چاہتے کہ پاکستان میں امن قائم ہو۔اس لیے جب بھی
مذاکرات ہونے لگتے ہیں کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونماہوجاتاہے کہ مذاکرات
زمین بوس ہوجاتے ہیں۔ پہلے مذاکرات ہونے لگے تو ڈرون حملے میں حکیم اﷲ
محسودکوماردیا گیا۔ اب پھر مذاکرات ہونے لگے پھر ڈرون آگئے۔مذاکراتی ٹیموں
کو بارباربیٹھنے کی جگہ تبدیل کرنی پڑی۔حالانکہ امریکی سفیر کہتے ہیں کہ
طالبان سے مذاکرات پاکستان کااندرونی معاملہ ہے ۔ ایسا ہی ہے اور اس سے
امریکہ کا کوئی واسطہ نہیں تو مذاکراتی ٹیموں کے اوپرڈرون کیوں پھرتے
رہے۔اب مذاکرات جاری تھے توالمناک سانحہ پیش آگیا۔وزیراعظم نوازشریف
اوردیگر حکومتی سیاسی شخصیات پرامید تھے کہ مذاکرات درست سمت جارہے ہیں۔یہ
درست راستے میں ہی گم ہوگئی۔حکومت اورقوم کی ساری امیدیں اورتوقعات ملیا
میٹ ہوگئیں۔خبرشائع ہوئی ہے کہ کالعدم تحریک طالبان نے اپنے ساتھیوں کے
ماورائے عدالت قتل کے جواب میں مہمندایجنسی سے اغواکیے گئے 23ایف سی
اہلکاروں کوقتل کرنے کادعوی کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمرخالدخراسانی کی سربراہی
میں اجلاس میں فیصلہ کیا جائے گا کہ تحریک طالبان مہمندایجنسی نے حکومت کے
ساتھ مذاکرات میں حکومت کے ساتھ شریک ہونا ہے یانہیں۔کالعدم تحریک طالبان
مہمندایجنسی کے سربراہ عمرخالدخراسانی کے ذاتی معاون عمرخراسانی کی طرف سے
میڈیاکوجاری کیے گئے ایک بیان اورسابق طالبان ترجمان احسان اﷲ احسان کے
ساتھ جاری ویڈیومیں کہا گیا ہے کہ حکومت نے ایک طرف مذاکرات کا سلسلہ شروع
کیا ہے دوسری طرف جیلوں سے ہمارے قیدی ساتھیوں کونکال کرمسلسل قتل کیا
جارہا ہے۔اٹھائیس جنوری کو مہمندایجنسی کی تحصیل صافی کے علاقے زیارت کلمے
سے تعلق رکھنے والے کفایت اوراس کے ساتھ گل رحمن کوخفیہ اداروں نے کراچی
میں قتل کیا۔چھ فروری کو خیبرایجنسی کے کوکی خیل قوم سے تعلق رکھنے والے
ہمارے دوساتھیوں نوید اورحمزہ کو جیل میں قتل کرنے کے بعدان کی لاشیں
یونیورسٹی ٹاؤن کے علاقے میں پھینک دی گئیں۔آٹھ فروری کو ملک دین خیل قوم
سے تعلق رکھنے والے دوساتھیوں امداداورقاری عمر کو قتل کرنے کے بعدلاشیں
پشاورکے علاقے ٹاؤن میں پھینک دی گئیں۔پندرہ فروری کو نوشہرہ کے علاقے میں
ہمارے سولہ ساتھیوں کی لاشیں پھینک دی گئیں۔چودہ فروری کوایک اورساتھی
حمیدکی لاش پشاورمیں سڑک پرپھینک دی گئی۔عمرخراسانی نے کہا کہ ان واقعات
پران کی تنظیم مسلسل حکومت کو میڈیا کے ذریعے متنبہ کررہی تھی کہ وہ اس طرح
کی کارروائیوں کا سلسلہ روک دیں۔کیونکہ قیدیوں کی رہائی ہمارابنیادی مطالبہ
ہے لیکن حکومت مذاکرات سے قبل موقع کو غنیمت جانتے ہوئے مسلسل ہمارے
ساتھیوں کو قتل کرتی رہی۔لہذاان ساتھیوں کے انتقام کی خاطرہم نے ایف سی کے
23اہلکاروں کو قتل کردیا ہے۔جنہیں جون 201کوشونکڑی پوسٹ پر حملہ کرکے
پکڑاتھا۔ہم ان کی ویڈیوبھی جلدجاری کردیں گے۔ہم حکومت پر واضح کردیناچاہتے
ہیں ہم ساتھیوں کا انتقام لینا جانتے ہیں اگرحکومت اپنی روش سے بازنہ آئی
تو مستقبل میں ہماراردعمل اس سے بھی سخت ہوسکتاہے۔حکومت مذاکرات کی خواہش
کو ہماری کمزوری سمجھ رہی تھی۔اسی خبرمیں لکھا ہے کہ جب طالبان کے اس دعوے
کے حوالے سے سیکیورٹی ذرائع سے پوچھا گیا توانہوں نے اس خبرکی تصدیق
یاتردید سے گریزکرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس ایسی کو اطلاع نہیں ہے۔تاہم
بظاہر ایسے ہی لگتاہے یہ دعوی جھوٹاہے۔مگرحتمی موقف تصدیق کے بعدہی
دیاجاسکے گا۔آئیے اب یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ حکومتی اورسیاسی شخصیات
اس بارے کیا کہتی ہیں۔ایف سی کے 23اہلکاروں کو طالبان کی طرف سے شہیدکیے
جانے کے باعث حکومتی اورطالبان کمیٹی کے درمیان ہونے والے مذاکرات تعطل کا
شکارہوگئے۔حکومتی کمیٹی نے رابطہ کمیٹی کے ساتھ بات کرنے سے
انکارکردیاہے۔جبکہ کمیٹی کے کوآرڈی نیٹر عرفان صدیقی اورایک رکن
میجر(ر)عامرنے وزیراعظم نوازشریف سے ہنگامی ملاقات کی۔جس میں وزیراعظم نے
کہا کہ مزیددہشت گردی برداشت نہیں کی جائے گی۔دریں اثناء حکومت اورپاک فوج
نے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف بھرپورکارروائی کا فیصلہ
کرلیاہے۔وزیراعظم نے فوج سے کہا ہے کہ وہ کسی بھی طرح کے احکام کے لیے
تیاررہے۔حکومتی کمیٹی کی جانب سے رابطہ توڑے جانے پرطالبان رابطہ کمیٹی کے
سربراہ مولانا سمیع الحق بہت پریشان ہیں۔جبکہ کمیٹی کے کوارڈی نیٹرمولانا
یوسف شاہ کا کہناہے کہ حکومتی کمیٹی نے ہمیں طالبان کہہ کر ملنے سے
انکارکردیاہے۔اسے رابطوں کا سلسلہ نہیں توڑنا چاہیے تھا۔مانیٹرنگ ڈیسک کے
مطابق تحریک طالبان مہمند ایجنسی کی جانب سے ایف سی کے اغواشدہ اہلکاروں کی
شہادت اورذمہ داری قبول کیے جانے کے بعدامن مذاکرات خطرناک موڑپر پہنچ گئے
ہیں۔دوسری طرف پاک فوج اورحکومت نے وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف
بھرپورآپریشن کا فیصلہ کرلیاہے۔فوج کو ضروری ہدایات جاری کرتے ہوئے
وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ کسی بھی طرح کے احکام کے لیے تیاررہے۔امن کو
یقینی بنانے کے لیے ہرقدم اٹھائیں گے۔اورقومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں
ہوگا۔طالبان کی رابطہ کمیٹی نے مہمند ایجنسی میں ہونے والے واقعے پرافسوس
کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ بندی کے قریب پہنچ گئے تھے۔موجودہ حالات
میں بہت سارے ہاتھ ملوث ہیں۔رابطوں کا سلسلہ توڑنا نہیں چاہیے کہا جارہاہے
ملٹری آپریشن کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔طالبان کا دفاع نہیں کررہے لیکن آپریشن
سے معاملات حل نہیں ہوتے۔وزیراعظم اورحکومتی کمیٹی کے اراکین نے ایف سی
اہلکاروں کی شہادت پرسخت دکھ اورافسوس کا اظہارکرتے ہوئے اسے مذاکراتی عمل
کو سبوتاژکرنے کی سازش قراردیا۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے کمیٹی کے ارکان
کو فوری طورپرطالبان کمیٹی سے جاری مذاکرات کوروکنے کی ہدایت کی۔انہوں نے
کہا کہ طالبان کمیٹی کی جانب سے یقین دہانیوں کے باوجودمسلسل منفی اقدامات
کیے جارہے ہیں۔سابق صدرآصف علی زرداری نے 23 مغوی ایف سی اہلکاروں کے قتل
کو نہایت بہیمانہ ،بزدلانہ اورغیرانسانی قراردیتے ہوئے سخت ترین الفاظ میں
مذمت کی ہے۔ایک بیان میں سابق صدرنے کہاکہ دہشت گردوں کے ایک گروپ کی جانب
سے اس مکروہ اورمذموم فعل کی ذمہ داری قبول کرلی گئی ہے۔جس سے ان درندوں کی
اصل نیت آشکارہوگئی ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایف سی
اہلکاروں کی شہادت پرافسوس کام اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ سفاک کارروائیاں
اسلامی تعلیمات کے خلاف اورقابل مذمت ہیں۔اپنے ایک بیان میں عمران خان نے
23 ایف سی اہلکاروں کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اشتعال انگیزواقعات
مذاکراتی عمل کومتاثرکریں گے۔مذاکرات کوبامعنی بنانا فریقین کی ذمہ داری
ہے۔انہوں نے کہا ملک کو جنگ کی آگ میں دھکیلنے کی کوشش کی جارہی
ہے۔فائربندی پرفوری عمل کیاجائے۔منصورہ سے جاری کردہ اپنے ایک بیان میں
امیرجماعت اسلامی منورحسن نے مہمندایجنسی میں ایف سی کے 23اہلکاروں کے قتل
پررنج وافسوس کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں کئی ایسی قوتیں سرگرم
ہیں جو مذاکراتی عمل کوکامیاب ہونا نہیں دیکھنا چاہتیں۔اوران کی پوری کوشش
ہے کہ فوج اورطالبان کو آپس میں لڑایاجائے۔اوراس کے نتیجے میں ملک بھرمیں
خون ریزی کا بازارگرم ہو۔انہوں نے کہا خدانخواستہ فوجی آپریشن کیا گیا تواس
کے ہولناک نتائج نکلیں گے۔انہوں نے کہاوزیراعظم خودیہ بات کہہ رہے ہیں کہ
جب بھی مذاکرات کسی اہم موڑپرپہنچتے ہیں کسی نادیدہ قوت کی طرف سے ایسے
واقعات رونما ہوجاتے ہیں جس سے مذاکرات تعطل کا شکارہوجاتے ہیں۔حکومتی
مذاکراتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس ہوا۔ جس میں کمیٹی کے رابطہ کاراوروزیراعظم
کے معاون خصوصی عرفان صدیقی،میجر(ر) محمدعامر، رحیم اﷲ یوسف زئی اوررستم
شاہ مہمندنے شرکت کی۔اجلاس کے بعد کمیٹی کی طرف سے جاری اعلامیہ میں کہا
گیا ہے کہ کمیٹی نے اپنے مذاکراتی عمل کاتفصیلی جائزہ لیااس کی رائے میں
کراچی اورمہمندکے پرتشددواقعات نے قیام امن کی کوششوں پرانتہائی منفی
اثرڈالاہے۔کمیٹی نے اپنے گذشتہ اجلاس کے اعلامیہ کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ
طالبان ہرقسم کی کارروائیاں غیر مشروط طورپربلاتاخیر بندکردیں۔اوراس اعلان
پر عملدرآمدبھی یقینی بنائیں۔اعلامیہ میں کہاگیااس ٹھوس اقدام کے
بغیربامقصداورنتیجہ خیزمذاکراتی عمل جاری نہیں رکھاجاسکتا۔کمیٹی صورتحال کا
مکمل جائزہ اس نتیجے پرپہنچی ہے کہ قیام امن کی سنجیدہ کوششوں کی کامیابی
کا انحصارپرتشدد کارروائیوں کے فوری خاتمے پرہے۔قوم امن کی آرزومندہے اورہم
غیر معینہ وقت کے لیے قوم کے اعصاب سے نہیں کھیل سکتے۔اجلاس کے بعد کمیٹی
کے اراکین نے وزیراعظم سے ملاقات کی اورانہیں مذاکراتی عمل کے بارے میں
تفصیل سے آگاہ کیا۔کمیٹی نے بتایا تیرہ روزہ مذاکراتی عمل کے دوران دہشت
گردی کے متعدد واقعات ہوئے۔جن میں درجنوں افرادزندگی سے محروم کردیے
گئے۔دونوں کمیٹیوں کے مشترکہ اجلاس تک معاملات تسلی بخش طورپر آگے بڑھ رہے
تھے کہ اس دوران کراچی کا سانحہ پیش آگیاجس میں تیرہ پولیس اہلکارقتل کردیے
گئے۔اس واقعہ کے بعد ہونے والے مشترکہ اجلاس کے اعلامیہ میں ہم نے یہ بات
شامل کی تھی کہ طالبان کی طرف سے پرتشدد کارروائیاں فوری طورپرختم کرنے کا
اعلان کیا جائے اوراس پر عمل درآمدبھی یقینی بنایا جائے۔ہم اس کے جواب
کاانتظارکررہے تھے کہ مہمندمیں خون ریزی کا اندوہناک واقعہ پیش آگیا۔کمیٹی
نے وزیراعظم کوبتایا کہ اس واقعے کے بعد کمیٹی نے متفقہ طورپر فیصلہ کیا ہے
کہ طالبان کمیٹی سے طے شدہ اجلاس میں شرکت بے معنی ہوگی۔کمیٹی نے سارے
مذاکراتی عمل کے دوران انتہائی صبر کامظاہرہ کیااورقیام امن کی
بھرپورکوششیں کی گئیں۔افسوسناک امریہ ہے کہ دوسری طرف سے حوصلہ شکن ردعمل
سامنے آیا۔اورپرتشددکارروائیاں بھی جاری رہیں۔کمیٹی نے وزیراعظم کوبتایا کہ
مہمندواقعے کے بعد صورت حال یکسرتبدیل ہوگئی ہے۔طالبان کی طرف سے پرتشدد
کارروائیوں کی بندش اورموثرعمل درآمداعلان کے بغیریہ کمیٹی مذاکراتی عمل
کوآگے بڑھانے سے قاصرہے۔تاہم ملک اورقوم کی خاطرکسی بھی مشاورت یا معاونت
کے لیے ہماری خدمات وزیراعظم کو دستیاب رہیں گی۔کمیٹی سے ملاقات کے دوران
وزیراعظم نے کہا کہ حکومت نے سنجیدگی اورنیک نیتی سے مذاکراتی عمل شرو ع
کیاتھا۔تاکہ ملک میں دہشت گردی کا خاتمہ اورامن کی راہ ہموارہوسکے۔مثبت
حکومتی کوششوں کا منفی کارروائیوں سے جواب دیاگیا۔طالبان کی طرف سے کراچی
میں پولیس اورمہمندمیں ایف سی اہلکاروں کے قتل کے بعد واقعات کا تفصیل سے
جائزہ لے رہے ہیں۔حکومت ہرفیصلہ سوچ سمجھ کرکرے گی۔دوسری طرف طالبان
مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسرابراہیم نے کہا کہ ایف سی اہلکاروں کے قتل
پرمیڈیا اورعوام کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کاجوابب طالبان سے طلب کیا
جائے گا۔طالبان سے پوچھیں گے شہداء کی لاشیں کہاں ہیں۔اورایف سی اہلکاروں
کے قتل کی وجہ کیاہے۔ایک ماہ قبل قتل کیے گئے ایف سی اہلکاروں کاواقعہ عین
مذاکرات کے دوران کیوں منظرعام پرلایاگیا۔اسلام آبادمیں میڈیاسے بات چیت
کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم طالبان سے رابطہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔لیکن
مشکلات کا شکارہیں۔ طالبان سے رابطہ ہوتے ہی ایف سی اہلکاروں کے قتل
پراٹھائے گئے سوالات کا جواب طلب کیا جائے گا۔امن مذاکرات میں خلل ڈالنے
والے پس پردہ عناصرکو بھی منطرعام پرلانے کی کوشش کی جائے
گی۔پروفیسرابراہیم نے کہا کہ حکومتی کمیٹی نے اب ہم سے کوئی رابطہ نہیں
کیا۔ہم ان کا انتظارکررہے ہیں۔جیسے ہی رابطہ ہواآئندہ کا لائحہ عمل تیارکیا
جائے گا۔وزیراعظم نوازشریف حکومتی اورطالبان مذاکراتی کمیٹی سے ملاقات کرکے
ان کا موقف معلوم کریں تاکہ ملک بھرمیں جاری فسادکی آگ کوٹھنڈاکرکے امن
قائم کیا جاسکے۔کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان شاہداﷲ شاہد نے کہا ہے جنگ
بندی کے معاملے پرطالبان کے تمام گروپوں سے رابطہ ہوچکاجلدکسی فیصلے پر
پہنچ جائیں گے۔ملافضل اﷲ کی توثیق کے بعدتمام گروپ فیصلے کے پابندہوں
گے۔ہمیں کسی مشکل کاسامنا نہیں ہوگا۔ایف سی اہلکاروں کے قتل سے متعلق
مہمندایجنسی کے طالبان کی وضاحت اہم ہے جس کا شوری اجلاس میں جائزہ لیا
جائے گا۔مذاکراتی عمل کی کامیابی کے لیے ایسے واقعات کی روک تھام ضروری ہے۔
محب دطن طبقات مسئلے کوسنجیدہ بنیادوں پر حل کرنے میں کرداراداکریں۔وفاقی
وزیر اطلاعات ونشریات پرویزرشید نے راولپنڈی آرٹس کونسل کے میں بزم احباب
قلم راولپنڈی کے زیراہتمام منعقدہ تقریب کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے
کہا کہ تحریک طالبان کی جانب سے تین شرائط کے نئے بیان کے حوالے سے نئے
بیان کے حوالے سے تفصیلات کاعلم نہیں ہے۔حکومت کی جانب سے مذاکراتی کمیٹی
کا قیام اس اخلاص کا اظہارہے کہ خون خرابے کے بغیرامن کی منزل تک پہنچنا
چاہتے ہیں۔بھارت کے ساتھ جنگیں ہوئیں نوے ہزارجنگی قیدی بھارت میں
تھے۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان نے دشمن ملک ہونے کے باوجودقیدیوں کے حوالے
سے بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کی اوران کی گردنیں نہیں کاٹیں۔ہمارے
بھی بھارت کے قیدی تھے وہ غیرمسلم تھے پھر بھی ان کے ساتھ پاکستان نے بین
الاقوامی قوانین کے مطابق سلوک کیا۔یہاں پر شریعت کے نعرے لگانے والے یہ
بتادیں کس قانون کے تحت پاکستانیوں کی گردنیں کاٹی گئیں۔تین سال تک ایف سی
اہلکاروں کو اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔ان کے خاندانوں کو غمزدہ
کیاگیا۔پھرتین سال بعد طالبان بڑے فخرسے کہہ رہے ہیں ان کی گردنیں کاٹ دی
ہیں۔وزیراطلاعات پرویزرشیدنے کہا کہ شریعت کی بات کرنے والے بتائیں کیا
انہوں نے ہمارے قیدیوں کے ساتھ شریعت کے مطابق سلوک کیا۔ہماری بھی شکایات
ہیں۔ ایسی خبرملتی ہے توقوم کودکھ ہوتاہے۔کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی
چاہیے۔پاکستان کے دفاعی اداروں کی صلاحیتیں کسی بھی طرح کم نہیں ہیں۔وہ
ہرمعاملے سے نمٹنے کے لیے تیارہیں۔طالبان نے جنگ بندی کے لیے تین شرائط پیش
کردی ہیں۔کہ ہمارے کارکنوں کی بوری بندلاشیں نہ پھینکی جائیں۔گرفتاریاں
بندکی جائیں۔پولیس مقابلے میں نہ ماراجائے۔پروفیسرابراہیم کہتے ہیں کہ کچھ
نہیں کہاجاسکتامعاملات بہتری کی طرف کیسے جائیں گے۔حکومتی کمیٹی کے رستم
شاہ مہمندکہتے ہیں کہ جب تک طالبان جنگ بندی کا اعلان اوراس پرعمل
درآمدنہیں کرتے تب تک مذاکراتی عمل معطل رہے گا۔رحیم اﷲ یوسف زئی کہتے ہیں
کہ دہشت گردی کوئی بھی گروپ کرے ہم وضاحت طالبان شوری سے مانگیں گے۔منورحسن
دورکی کوڑی لائے ہیں کہتے ہیں کہ کسی بھی جگہ ہونے والی دہشت گردی کاالزام
طالبان پرتھوپ دینا درست نہیں۔ اورجس دہشت گردی کا وہ خود اعلان کریں اس کے
بارے میں امیرجماعت اسلامی کیا کہتے ہیں۔ایف سی اہلکاروں کے ساتھ اس
غیرانسانی سلوک کے بعد طالبان کے مخالفین میں اضافہ ہوگیا ہے۔سابق آرمی چیف
جنرل (ر) ضیاء الدین بٹ کا کہنا ہے کہ جنوبی وزیرستان میں حقیقی امن بات
چیت کے ذریعے ہی قائم ہوگا۔تاہم ابات چیت جاری رہنی چاہیے ساتھ ساتھ آپریشن
بھی ضروری ہے۔پہلے علاقے میں انٹیلی جنس آپریشن شروع کیاجائے جو کامیاب
ہونا چاہیے۔جس کے ساتھ ساتھ ملٹری آپریشن بھی ضروری ہے۔جومحدودپیمانے
پرہوانہوں نے کہا اگر طالبان مذاکرات کی طرف نہیں آتے تولوگوں کی قتل وغارت
گری کو روکنے کے لیے آپریشن ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیرستان کے حالات
خراب کرنے میں بیرنی طاقتیں بھی ملوث ہیں۔ 23فوجیوں کی شہادت افغانستان میں
ہوئی جس کی ذمہ داری افغانستان حکومت پر بھین عائد ہوتی ہے۔مسلم لیگ ق کے
کامل علی آغا کہتے ہیں کہ ق لیگ بات چیت کی حامی ہے مگراگر کوئی مذاکرات کی
طرف نہیں آتا اورقتل وغارت کرتاہے تو پھر آپریشن ہونا چاہیے۔وہ کہتے ہیں کہ
حکومت کے پاس اس وقت بہترین موقع ہے وزیرستان میں امن قائم کرنے کے لیے
جوبھی ایکشن لینا ہے لے تمام سیاسی جماعتیں ساتھ دیں گی۔اس کے علاوہ دیگر
سیاسی شخصیات نے بھی آپریشن کی حمایت اورمخالفت کی ہے۔ حکومت نے توکوشش کی
کہ بات چیت اورافہام وتفہیم کے ساتھ ملک میں امن قائم کیاجائے۔ آپریشن کی
ضرورت نہ پڑے شاید یہ عمل کسی کو پسند نہیں اوروہ نہیں چاہتے کہ ملک میں
امن قائم ہو۔جس وقت یہ سطورلکھی جارہی ہیں کہ شمالی وزیرستان میں شدت
پسندوں کے ٹھکانوں پر غیر ملکیوں سمیت چالیس دہشت گردوں کو ہلاک کیاگیا
اوراسلحہ کے ذخائر بھی تباہ کیے گئے ہیں ۔ اب یہ کچھ نہیں کہا جاسکتاکہ
حکومت نے آپریشن شروع کردیا ہے یا یہ کوئی معمول کی کارروائی تھی۔مذاکرات
کی بحالی یا آپریشن فیصلہ حکومت کو ہی کرنا ہے۔قوم اس کا انتظارکررہی ہے
اوروہ ہرصورت ملک میں دہشت گردی کا خاتمہ اورامن چاہتی ہے۔
ایف سی اہلکاروں کے قتل پر قوم صدمے سے دوچارہے ۔ اورآئندہ ایسے واقعات کا
تدارک چاہتی ہے۔
|