موجودہ صدی مذاکرات کی ناکامی کی صدی ہے

جنگ رہے اور امن بھی ہو۔ کیا ممکن ہے تم ہی کہو

جنگ رہے اور امن بھی ہو ، کیا ممکن ہے تم ہی کہو ۔ امن کی خواہش ازل سے انسان کی فطرترہی ہے۔ لیکن ام ہی کے نام پر انسان جنگ کے شعلے بھڑکاتا ہر ہے۔ انسانی تاریخ ، جنگ اور امن کے معاہدوں سے بھری پڑی ہے۔ لیکن یہ بھی شہادت تاریخ ہی دیتی ہے کہ دنیا میں امن مذاکرات اور بات چیت ہی سے ممکن ہوا ہے۔ جنگ کے بعد بھی امن کے لئے مذاکرات ہی کی میز بچھانا پڑتی ہے۔۵۶ ، اور ۱۷ کی جنگوں کے بعد بھی ہمیں بھارت کے سامنے شملہ اور اندرا گاندھی سے مزاکرات ہی کرنے پڑے تھے۔ پھر آج ہم بلوچستان اور سرحد کے متحارب گروہوں سے مذاکرات کیوں نہیں کر پاتے۔ امن، سماج کی اس کیفیت کا نام ہے جہاں تمام معاملات معمول کے ساتھ بغیر کسی پر تشدد اختلافات کے چل رہے ہوں۔ امن کا تصور کسی بھی معاشرے میں تشدد کی غیر موجودگی یا پھر صحت مند، مثبت بین الاقوامی یا بین انسانی تعلقات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کیفیت میں معاشرے کے تمام افراد کو سماجی، معاشی، مساوت، اور سیاسی حقوق و تحفظ حاصل ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات میں، امن کا دور اختلافات یا جنگ کی صورتحال کی غیر موجودگی سے تعبیر ہے۔ امن بارے تحقیق اس کی غیر موجودگی یا تشدد کی وجوہات کا احاطہ بھی کرتی ہے۔ عمومی طور پر امن تباہ کرنے میں عدم تحفظ، سماجی بگاڑ، معاشی عدم مساوات، غیر متوازن سیاسی حالت، قوم پرستی، نسل پرستی اور مذہبی بنیاد پرستی جیسے عوامل شامل ہوتے ہیں۔امن کی عمومی تعریف میں کئی معنی شامل ہوتے ہیں۔ ان میں مجموعی طور پر امن کو تحفظ، بہتری، آزادی، دفاع، قسمت اور فلاح کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ انفرادی طور پر امن سے مراد تشدد سے خالی ایک ایسی طرز زندگی کا تصور لیا جاتا ہے جس کی خصوصیات میں افراد کا ادب، انصاف اور عمدہ نیت مراد لی جاتی ہے۔معاشرے میں انفرادی طور پر امن کی حالت ہر فرد پر یکساں لاگو ہوتی ہے، جبکہ مجموعی طور پر کسی بھی خطے کا پورا معاشرہ مراد لیا جاتا ہے۔دنیا کی مختلف زبانوں میں لفظ امن یا سلامتی کو خوش آمدید یا الوداعی کلمات کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ہوائی زبان کا لفظ Aloha یا پھر عربی زبان کا لفظ سلام، امن یا سلامتی کے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہ الفاظ الوداعی یا خوش آمدیدی کلمات کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ انگریزی زبان میں PEACE کا لفظ الوداعی کلمات میں استعمال ہوتا ہے، خاص طور پر مردہ افراد کے لیے ایک فقرہ استعمال ہوتا ہے جیسے، Rest in Peace۔گزشتہ ایک صدی کے دوران دنیا بھر میں 85 سے زائد ممالک یا علاقوں میں جاری 750 اندرونی اور بین الریاستی تنازعات کی تاریخ یہ ظاہر کرتی ہے کہ ان علاقوں میں ہونے والے فائر بندی کے معاہدے مطلوبہ ہم آہنگی اور امن وسکون لانے میں ناکام رہے۔ ہو سکتا ہے ان ناکام معاہدوں کی تاریخ ان لوگوں کے لئے زیادہ خوش کن نہ ہو جو نوزا شریف حکومت اور طالبان نمائندوں کے درمیان جاری حالیہ مذاکرات یا بات چیت کے بعد پاکستان میں پائیدار امن دیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ایک ریسرچ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مذکورہ بالا 750 معاہدوں میں سے زیادہ تر حکومت یا اس کی افواج اور عسکریت پسند گوریلا گروپوں کے درمیان ہوئے تھے تاہم ان معاہدوں کا احترام شاذونادر ہی ہوا۔ چند ایک کیسز میں عارضی سکون یا وقفہ ملا لیکن یہ اس لمحاتی وقفہ میں بھی انسانی خون کا بہنا نہ رک سکا۔ اقوام متحدہ‘ سویڈن کی یونیورسٹی‘ نیویارک کی تنظیم آئی سی آئی جے‘آئرش یونیورسٹی‘ برطانوی یونیورسٹی اور امریکا کے امن انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے گزشتہ چند دہائیوں میں تیار کردہ ان 750 معاہدوں کی تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مراعاتیں دینے اور وعدوں کے باوجود امن کے قیام کا مقصد حاصل نہ ہو سکا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنے قیام کے وقت سے اقوام متحدہ عالمی تنازعات کے حل کیلئے کوشاں ہے۔ اگرچہ اقوام متحدہ کے تحت متحارب فریقین میں بہت سے معاہدے ہوئے تاہم ان میں اکثر ناکام ہوئے اورشدید تنازع کی صورت اختیار کرگئے جبکہ کچھ معاہدوں کے بعد تعطل کی صورتحال پیدا ہوئی ، معاشی کشمکش اور جرائم کی بڑھے تاہم چند ایک معاہدوں کے بعد ہی پائیدار امن قائم ہوا۔ مثال کے طور پر 29 جولائی 2013کی برطانوی ریڈیو کی رپورٹ میں 46 سالہ اسرائیل عرب جنگ کے بارے میں بتایا گیا۔ جون1967 میں ہونے والی مشرق وسطیٰ جنگ کے بعد سے بہت سے امن منصوبے اور بے شمار مذاکرات ہوئے۔ ان معاہدوں میں کچھ کامیاب ہوئے جن میں مصر اور اسرائیل اور اردن اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے معاہدے شامل ہیں لیکن اہم فریقین یعنی اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان معاہدہ ہونا ابھی باقی ہے۔ ان معاہدوں میں سے چند ایک قصر ایبض کے سرسبز صحنوں میں طے پائے تھے اور ان کے ثالث امریکی صدر تھے۔ اس حوالے سے کچھ خفیہ بات چیت ناروے، روس، سعودی عرب اور یورپی یونین کی حکومتوں کی سرپرستی میں ہوئی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ 1978 ، میڈرڈکانفرنس1991 کیمپ ڈیوڈ معاہدہ 2000، طابا معاہدہ 2001 عرب امن اقدام 2002 ، بیروت کی عرب سربراہ کانفرنس 2002 ، 2003کا جنیوا معاہدہ، 2007 کا اناپولس معاہدہ اور 2010ء کی واشنگٹن کانفرنس کا مقصد امن عمل کا دوبارہ ا?غاز اور اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تمام حل طلب تنازعات کو طے کرنا تھا لیکن ہر مرتبہ سفارتکاری ناکام ہوئی اور ڈیڈ لاک قائم رہا۔ان امن معاہدوں کے تفصیلی جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں طویل عرصے سے جاری جنگ سے متاثرہ افغانستان کی بہتری کیلئے ثالثی کا کردار کرتا رہا ہے۔ جس کی مثال 1992 کا پشاور امن معاہدہ ہے جس کی ایران اور سعودی عرب نے بھی حمایت کی تھی۔ اس پر مختلف افغان سیاسی گروپوں نے دستخط کئے تھے۔ 1992 میں 51 رکنی کمیٹی بنائی گئی تھی جس نے اس وقت کے کابل کے حکمرانوں سے دو ماہ میں اقتدار حاصل کرنا تھا۔ ایک کونسل کا عرصہ چار ماہ مقرر کیا گیا تھا اور متعلقہ فریقین کو 2 سال کیلئے وزارتیں دی گئی تھیں۔ مذاکرات میں شامل تمام جماعتوں نے اختلافات ختم کرنے کا عہد کیا تھا۔1993 میں بھی اس مقصد کیلئے اسلام آباد میں ایک معاہدہ ہوا تھا۔ اس پر حکومت افغانستان اور دوسری سیاسی جماعتیں جن میں جماعت اسلامی ‘ حزب اسلامی ‘ حرکت انقلاب اسلامی ‘ نجات ملی ‘ محاذ ملی ‘ احمد زئی اتحاد ملی ‘ حرکت اسلامی اور حزب وحدت اسلامی نے دستخط کئے تھے۔افغانستان سے متعلق اسی قسم کے معاہدے جلال آباد ( 1993 ) ‘ ماہی پار ( 1996 ) تاشقند ( 1999 ) اور بون ( 2001 ) میں بھی ہوئے لیکن یہ بھی سارے کاغذی ثابت ہوئے۔ ریسرچ سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں شاید ہی کوئی ملک ہو جو اپنی تاریخ میں کسی براہ راست یا بالواسطہ فائر بندی میں شامل یا شریک نہ رہا ہو۔ اندرونی خلفشار ، خانہ جنگی یا دوسری قوتوں کے ساتھ تنازعات کے باعث جن ملکوں نے امن معاہدے کئے، ان میں الجیریا، تنزانیہ، البانیہ، نیشنل لبریشن آرمی /مقدونیہ، انگولا،آرمینیا، سلطنت عثمانیہ، ارجنٹینا/برطانیہ، آذربائیجان، بنگلہ دیش، بوسنیا، ہرزیگووینیا، برونڈی، کمبوڈیا، کیمرون/نائیجیریا، سنٹرل افریقن ری پبلک، چاڈ، چاڈ/لیبیا، چین/بھارت، کولمبیا،آئیوری کوسٹ ، کروشیا، کانگو، مشرقی تیمور، ڈجیوٹی، کانگو/یوگنڈا، ایکوا ڈور/پیرو، قبرص،آسٹریا، جیکو سلواکیہ، کانگو/روانڈا، کروشیا/سربیا، ایل سلواڈور، ایتھو پیا/ارٹیریا، فجی، جارجیا/الجیزیا،گیبون، گوئٹے مالا، ہیٹی، بھارت/پاکستان، انڈونیشیا/اچے، عراق/اقوام متحدہ، اسرائیل /اردن، اسرائیل/اردن/فلسطین، ایکوا ڈور، پیرو، ڈجبوٹی، اریٹیریا، اسرائیل/اردن/شام/لبنان/پی ایل او، اسرائیل /لبنان، مالے/ایزاواد، ائبریا، مقدونیہ، کوسوو، میکسیکو، مراکش/مغربی صحارا، موزمبیق، جنوبی افریقہ، جنوبی افریقہ/نمیبیا، روس/چیچنیا،جاپان/چین، فلپائن، نکاراگوا، کانگو برازیل، نیپال، نائیجیریا، رومانیہ، یوکرین،سربیا، مونٹیگرو، سری لیون، پاپوا نیو گنی، روانڈا، روس/جارجیا، روس/اسٹونیا، روس/لٹویا، روس/پولینڈ، ترکی/آرمینیا۔یونان‘ سالومن آئی لینڈز‘ کولمبیا/ پانامہ‘ سوڈان/ چاڈا‘ سوڈان‘ سلووینیا‘ صومالیہ‘ جرمنی/ روس‘ تاجکستان‘ روس اور اتحادی قوتوں کے درمیان 1918 کا معاہدہ جس کے بعد روس پہلی جنگ عظیم سے علیحدہ ہوگیا تھا۔ 1918 میں فرانس‘ برطانیہ اور جرمنی کے درمیان معاہدہ جس سے پہلی جنگ عظیم ختم ہوگئی۔ 1919 کے معاہدے جرمنی اور تجارتی فورسز کے درمیان جنگ ختم ہوگئی۔ 1920 میں اٹلی‘ سلطنت‘ سرب‘ کروشیا اور سلووینز کے درمیان معاہدہ ہوا۔ برطانیہ/ شمالی آئر لینڈ‘ یوگنڈا‘ یوگوسلاویہ‘ برطانیہ/ افغانستان‘ اٹلی / ایتھوپیا‘ اٹلی اور ویٹی کن سٹی‘ یوگنڈا / روانڈا‘ یوگنڈا/ سوڈان‘ امریکا / شمالی کوریا‘ امریکا جاپان‘ امریکا میکسیکو‘ ترکی‘ یونان‘ رومانیہ اور یوگوسلاویہ‘ جرمنی / اٹلی‘ رومانیہ / بلغاریہ‘ امریکا/ جرمنی‘ یمن عرب ری پبلک / عوامی جمہوریہ چین‘ سعودی عرب / برطانیہ اور یمن اور سعودی عرب کے معاہدے شامل ہیں۔ آج کی صورتحال میں مختلف معاہدوں پر دستخطوں اور 3 کروڑ کولمبیائی شہریوں کے ایک غیر معمولی مظاہرے کے بعد بھی FARC نامی عسکریت پسند تنظیم ابھی تک اغوا برائے تاوان اور ڈرگ کے غیر قانونی دھندے میں ملوث ہیں۔ کولمبیا کی حکومت کیخلاف 1964 سے برسرپیکار تنظیم FARC کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ 6 لاکھ لوگوں کی موت کا ذمہ دار ہے اور 45 لوگوں کی نقل مکانی اس کے علاوہ ہے۔ کولمبیا‘ امریکا‘ کینیڈا‘ چلی‘ نیوزی لینڈ اور یورپی یونین کی طرف سے دہشت گرد قرار دی جانے والی تنظیم FARC کی وینزویلا کے سابق صدر ہوگوشاویز نے کئی فورسز پر حمایت کی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ اس قسم کی سیاسی حمایت اس تنظیم کو اغوا اور دہشت گردی کے اقدامات سے دور رہنے پر مجبور کردے گی۔ 2012 میں اس تنظیم نے اعلان کیا تھا کہ وہ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث نہیں ہوگی اور اغوا کئے گئے 10 فوجیوں اور سپاہیوں کو رہا کردے گی لیکن اس نے یرغمال بنائے گئے سیکڑوں شہریوں کے بارے میں کوئی بات نہ کی۔ 2012 میں اس تنظیم نے کولمبیا کے انرجی سیکٹر پر 239 حملے کئے اور یوں اس جنگ زدہ ملک میں امن کے امکانات کو ختم کردیا۔ پاکستان آج اپنی تاریخ کے اہم دور سے گذر رہا ہے، مذاکرات ہونے اور نہ ہونے کے بیچ میں اب مہمند ایجنسی میں ایف سی کے 23 مغوی اہلکاروں کو قتل کرنے کی خبر اور اس حواے سے کالعدم تحریک طالبان مہمند ایجنسی کی جانب سے ویڈیو جاری ہونے کے بعد اب آپریشن بھی شروع ہوچکا ہے، بمباری ہورہی ہے، زمینی فوجیں بھی اس آپرشن میں شامل ہورہی ہیں۔ طالبان کے ایک رہنما نے ان اہلکاروں کو قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ہم نے اپنے ساتھیوں کے قتل کا انتقام لینے کیلئے ایف سی اہلکاروں کو قتل کیا ہے۔ دوسری جانب ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مہمند ایجنسی میں طالبان کی نعشیں مختلف مقامات سے ملی ہیں۔ حکومت کو متنبہ کررہے تھے کہ وہ ہمارے ساتھیوں کی نعشیں گرانے سے باز رہے۔ حکومت ہمارے اخلاص کو کمزوری نہ سمجھے۔ ہم اپنے ساتھیوں کا انتقام لینا جانتے ہیں۔ ہم مسلسل حکومت کو میڈیا کے توسط سے متنبہ کررہے تھے کہ وہ اس طرح کی کارروائیوں سے باز رہے، ہمارے ساتھیوں کے قتل کا یہ سلسلہ روک دے کیونکہ قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ ہمارا بنیادی ممکنہ مطالبہ ہے۔ حکومت گویا مذاکرات سے قبل موقع کوغنیمت سمجھ کر ہمارے ساتھیوں کومسلسل مار رہی تھی۔ حکومت پر یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ہم اپنے ساتھیوں کا انتقام لینا جانتے ہیں۔پہلے بھی جب مذاکرات کامیابی سے آگے بڑھ رہے تھے تو سوات میں ایک سترہ سالہ لڑکی کو سرعام "کوڑے" مارے کی ویڈیو سامنے آئی تھی۔ تمام دنیا کا میڈیا اس واقعے کو بار بار نشر کرتا رہا۔اور دنیا بھر میں اسلام دشمن جذبات کو اس واقعے کی بنیاد پر ہوا دی جا تی رہی ، ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے "کچھ" لوگ اس پر شرمناک قسم کے تبصروں میں مصروف رہے۔اس واقعے پر جہاں "باشعور" کہلانے والوں نے اپنے "شعور' کا دل کھول کر مظاہرہ کیا ہے وہیں مذاکرات ختم ہوئے اور سوات میں آپریشن شروع ہوا۔ لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، ہزاروں قتل ہوئے، لیکن اس واقعے کا سب سے افسوسناک پہلو یہ تھا کہ وہ ویڈیو جعلی نکلی۔اس واقعے کو ایک "مذہبی جذباتی" رنگ دے کر اچھالا گیا ہے اس لئے عوام کی جانب سے اس پر "حسب توقع" ردِ عمل دیکھنے کو ملا اور جہاں جہاں بھی کسی لحاظ سے کمی نظرآئی تو اسے ہمارے سیاسی موقع پرستوں نے پورا کر دیا۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ ایک طویل خوں ریزی کے بعد بالاخر سوات سمیت تمام مالاکنڈ میں فریقین ایک امن معاہدے پر راضی ہوچکے تھے جس پر امریکہ اور اسکی حواریوں نے کھلے عام تنقید کی اور اس پر برہمی کا اظہار کیا،اس امن معاہدے کے نتیجے میں تمام دنیا نے دیکھا کہ سوات سمیت تمام مالاکنڈ میں تیزی سے امن و امان کی صورتحال بہتر ہوتی چلی جارہی تھی اور وہ علاقے جو چند ہفتوں پیشتر تباہ حالی کا شکار تھے اب وہاں زندگی کی چل پہل پھر سے بیدار ہوچلی تھی، دوسری جانب امن معاہدے کا ایک اہم حصہ اسلامی قانون کا نفاذ تھا جس پر فریقین راضی تھے اور اس کا عملی سلسلہ بھی شروع ہوچکا تھا مگر صدر پاکستان کی منظوری اور دستخط کے بغیر اس کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہ تھی اور یہ معاملہ کئی روز سے ایوان صدر میں التواء کا شکار تھا اور اس التواء کی وجہ سے اس معاہدے کے ذمہ دار افراد نے ڈیڈ لائن بھی دے رکھی تھی کہ اگر مقررہ وقت تک اس معاہدے کو آئینی اور قانونی حیثیت نہ ملی تو وہ اپنی ذمہ داری سے دستبردار ہو جائیں گے اور اس کے بعد امن و امان کی خرابی کی ذمہ دار ی حکومت پر عائد ہوگی، دوسری جانب اس التواء کی سب سے بڑی وجہ اس امن معاہدے پر امریکہ کی برہمی تھی، اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ معاہدہ پاکستان اور پاکستانی عوام کے لئے ایک طویل عرصے سے جاری خوں ریزی کا ایک بہت مناسب انجام تھا، لیکن اس کو ایک جعلی ویڈیو نے سبوتاژ کرکے رکھ دیا۔امریکہ اور اس کے ایجنٹوں نے اس معاہدے کو سبوتاژ کرنے کا منصوبہ تیار تھااور اس گھناؤنے مقصد کے حصول کے لئے جو گھٹیا اقدامات طے ہوئے ہیں ان میں سے ایک یہ تھا کہ مالاکنڈ اور سوات کے علاقوں میں شریعت کے نفاذ کے حوالے سے جو معاہدہ طے پایا ہے کسی طرح اسے ختم کیا جاسکے تاکہ امن و امان کی بحالی کا یہ سلسلہ نہ صرف رک جائے بلکہ حالات دوبارہ اسی بد ترین صورت پر لوٹ جائیں جس میں امریکہ کو اپنے مفادات کے حصول میں کسی قسم کی کوئی پریشانی نہ ہو۔آج بھی حکومتی اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹی بڑے اخلاص اور ہمت سے مذاکرات کو ڈول ڈالا تھا۔ لیکن اس بار بھی مذاکرات کے حامی ناکام اور آپریشن کے حامی کامیاب ہوگئے، نہ جانے یہ جنگ کیا رخ اختیار کرے گی۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 419411 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More