لا اکراہ فی الدین

پاکستانی آئین میں ایک بھی جز اسلامی نہیں ۔کوئی مانے یا نہ مانے قرآن وحدیث ہی مکمل آئین ہے حکومت مذاکرات کے ذریعے ہم سے آئین منوانا چاہتی ہے۔جبکہ ہم شریعت کے نفاد کی بات کرتے ہیں پہلے حکومت جنگ بندی کرے ۔ہم مذاکرات سے مسائل کاحل چاہتے ہیں یہ بیان ہے کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان شاہداﷲ شاہدکا۔ جبکہ انہی کی طرف سے نامزد کردہ پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ آئین غیر اسلامی نہیں ہے اسے بھی جید علما کرام کی مشاورت سے تشکیل دیا گیا۔ اسی طرح طالبان القاعدہ گروپ نے باقاعدہ جنگ بندی کا اعلان کردیا ہے اور کہا ہے کہ 28فروری تک جنگ بند رہے گی۔ بڑی عجیب سی کھچڑی پکی ہوئی ہے آئین پاکستا ن کو خلاف شریعت قرار دیا جارہے ہے ملک میں شریعت کے نفاذ کی بات کی جارہی ہے۔ ہر ملک میں چند دھٹرے ایسے ہوتے ہیں جو کسی بھی حالت میں حکومت کو سکھ سے کام کرنے نہیں دیتے اور عوام کو اذیت و پریشانی میں مبتلا رکھتے ہیں۔انہوں نے اپنا وطیرہ بنایا ہوتا ہے کہ ہمیشہ گورنمنٹ کے اینٹی چلنا ہے اس کا مقصد صرف اورصرف اپنی اہمیت کو جتانا ہوتا ہے یا پھر وہ احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں ۔وہ احساس انہیں منفی رویے اپنانے پر اکساتا رہتا ہے۔

کوئی ان بے چاروں کو سمجھائے کہ پیارے بھائیو! کیا شریعت یہی ہے کہ جوآپ کی بات نہ مانے،داڑھی نہ رکھے، بچوں کو پولیو کے قطرے پلوائے، بچیوں کی تعلیم دلوائے، میوزک سنے، تفریحی گاہوں کی سیر کرے، کسی دوسرے کو اچھا خیال کرے تواسے ذبح کردیا جائے ،جو شخص آپ کے بے سروپا احکامات کی پاسداری نہ کرے اسے موت کے منہ میں دھکیل دیا جائے۔ کیا یہ محمد عربی ﷺ کی شریعت ہے؟ کیا آپ کو یاد نہیں کہ محمدؐ کی شریعت تویہ ہے کہ جب طائف والے آپ کو لہو لہان کر دیتے ہیں تو آپؐ قوت وطاقت رکھنے کے باوجود ان کیلئے نرم گوشہ اختیار فرماتے ہیں صرف اس لیے کہ شاید ان کی اگلی نسل اسلام کی روح کو سمجھ لے۔ فتح مکہ کی تاریخی مثال کا مطالعہ بھی آپ لوگوں نے ضرور کیا ہوگا کہ تمام غیر مسلم اور دشمنان اسلام کو ایک ہی دفعہ میں معاف فرما دیا۔حتی کہ ان کے گھروں کو عافیت گاہ کا درجہ دے دیا۔لا اکراہ فی الدین کا سبق کیوں بھول جاتے ہو۔کیا اسلام یا شریعت اتنا ہی محدود ہے کہ ہمارافوکس صرف اسی پر ہو کہ زنا کرنے والے کو سنگسار کردیاجائے ۔چوری کرے والے کے ہاتھ قلم کردیئے جائیں۔قتل کرنے والے کو قتل کردیا جائے۔ یہ تو انفرادی مسائل ہیں جو کہ رفتہ رفتہ حل ہو سکتے ہیں اور ان شاء اﷲ حل ہوجائیں گے ۔پہلے اجتماعی مسائل کوتودیکھ لو ۔کیا شریعت یہ نہیں کہتی کہ اپنے فرائض تندہی اور ذمہ داری سے انجام دیئے جائیں۔ سکول وکالجز اور مدارس میں طلباء طالبات کوبہتر انداز میں پڑھایا جائے۔دینی و دنیاوی تعلیم سے بہرہ مندکیا جائے۔ ہسپتالوں میں مریضوں کو ان کی ضرورت وحاجت کے مطابق جائز اور بنیادی سہولیات مہیا کی جائیں۔لاعلاج بیماری کیلئے پہلے سے احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں ۔ ملک میں ہر شخص کو آزادی، تحفظ اور سکون سے کاروبار کرنے دیا جائے ۔بین الصوبائی تجارت کو فروغ دیا جائے۔بین المذاہب ہم آہنگی اور مسالک کے درمیان مثبت اقدار کو پروان چڑھایا جائے ۔ایک دوسرے کو برداشت کرنے ،سمجھنے اور سننے کا مادہ پیداکیاجائے۔شریعت تو یہ بھی بتاتی ہے کہ وقت پڑنے پرغیر مسلموں سے بھی علوم وفنون سیکھے جائیں اور ان کے بدلے میں قیدیوں کو رہا کردیاجائے شریعت تو اس بات کی پاسداری بھی کرتی ہے کہ اگرکسی انسان کا ناحق خون بہا دیا جائے تو پوری انسانیت کے قتل کرنے کے مترادف گردانا جائے۔

پیارے بھائیو! آئین کو بھی شریعت میں سے ہی اخذ کیا گیا ہے۔ جس میں واضح طور پر کہاگیا ہے کہ ملک کا صدر اوروزیر اعظم کا مسلمان ہونا ضروری ہے ملک میں اسلامی قوانین کی پاسداری ہوگی۔ حاکمیت اعلی اﷲ کی ذات ہوگی حکمران اقتدار کو بطور امانت وذمہ داری سمجھ کر پورا کریں گے۔ مذہبی تعلیم کو فروغ دیاجائے گا ۔انسانیت وآدمیت کا اکرام و احترام کیا جائے گا ۔اقلیتوں کو آزادی سے اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت ہوگی۔ وغیرہ وغیرہ ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن وحدیث مکمل ضابطہ اخلاق ہے مگر اس کو سمجھنے اور سمجھانے کیلئے مذہبی سکالر، علماکرام، مفتیان کرام کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہوگا ۔مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ ذہنی ترتیب بھی اس میں شامل کرنا ہوگی ۔ان کو جسمانی طور پر مضبوط وتوانا بنانے کیلئے کھیل کے میدان بھی سجانا ہونگے ان کو دنیا کے مقابلے پر لانے کیلئے انگریزی تعلیم بھی دلوانا ہوگی۔ان کو صحت مند رکھنے کیلئے پولیو کے قطرے بھی پلوانا ہونگے ۔ صحت کی جدید سہولیات اور ترجیحات کو اپنانا ہوگا۔دنیائے کفر کوزیر نگوں کرنے کیلئے جدید علوم اور کمپیوٹر کی تعلیم بھی ضروری ہوگی۔غزوات کی مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے خواتین کو بھی میدان عمل میں لانا ہوگا ۔ان کی تعلیم وتربیت سے نو نہال اسلام وپاکستان کو پروان چڑھانا ہوگا۔کیونکہ یہ ایک عالمگیر حقیقت ہے کہ ایک ماں کی بہتر تربیت پورے معاشرے کی تربیت کرنے کے مترادف ہے۔اولین درسگاہ ماں کی گود اور گھر کا ماحول ہے۔اسی طرح عوام میں ملکی و ملی جذبہ پیدا کرنے کیلئے سکول و کالجز اور مدارس کی سطح پر تقریبات سجانا ہونگی۔ہمارے مذہبی و قومی ہیروز کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کیلئے انکی تعلیمات کو اپنے روزمرہ کے معمولات کا حصہ بنانا ہوگا۔یہ تمام افعال حکومت کو کرنا ہونگے اور ہم سب ان کے ساتھ مل کر ان کوپایہ تکمیل تک پہنچانے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں توپھر ہم سب طالبان شریعت ہونگے ہم سب مسلمان ہونگے۔ ہم سب پاکستانی ہونگے ۔یہیں سے شریعت کا نفاذ ہوگا اور اسی سے آئین کی پاسداری ہوگی اور اس پر implement کیا اور کرایا جاسکے گا۔تو براہ مہربانی ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر حقائق کو مان کر اچھے مسلمان، اچھے پاکستانی اور اچھے شہری ہونے کا ثبوت دیجئے۔اور دین اسلام کا نام مثبت انداز میں سربلند کرنے کا عزم کیجئے۔ سب کی بھلائی اسی میں ہے-
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211760 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More