بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اسلامی نظام حیات نے ایسی جامع اقدارمتعارف کرائی ہیں جو اس پورے نظام کا
خاصہ ہیں اور اس میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔اسلامی تصورزندگی کا
وہ سیاسی نظام ہو کہ اقتصادی ڈھانچہ،مذہبی رسومات ہوں یا پھر معاشرتی
روایات کا مجموعہ یا مجرد انفرادی و اجتماعی شخصیت کی تعمیر کے منفرد زاویے
ہوں یا پھر تعلیمی سرگرمیوں کامرکزومحور ہو،غرض یہ اقدارایسے شاہ کلید ہیں
جن سے پورے نظام کے مسائل حل ہوتے چلے جاتے ہیں اور انہیں جن جن مسائل کے
بڑے بڑے سے تالوں کے سوراخ میں گھماتے رہیں وہ تالے چشم زدن میں کھلتے
نظرآتے ہیں۔انسانی زندگی کی بے پناہ الجھی ہوئی معاشی واقتصادی ڈورکا بھی
ایک سرا اگر ان گرانقدراقدارکے ہاتھ میں تھما دیا جائے تووہ سارے گنجل ایک
ایک کر کے کھلتے اور سلجھتے چلے جائیں جنہیں صدیوں سے انسانی عقل نے
سلجھانے کی فکر میں اس قدر الجھادیاہے کہ بظاہر ان کا کوئی حل نظر ہی نہیں
آتااور اگرایک طرف سے کوئی سلجھاؤ کی صورت بنتی ہے تو چاروں دیگراطراف اسے
مزید گنجلک تر کر دیتے ہیں اور اس دلدل میں انسان ناک تک اتر کر قبر میں
سدھارجاتاہے اور منوں مٹی اگلی نسل کے کندھوں پر آن پڑتی ہے۔
اخوت ایک رشتہ کانام ہے،یہ لفظ عربی میں’’اخی‘‘سے ماخوذہے جس کامطلب ’’بھائی‘‘ہے۔’’بھائی‘‘اگرچہ
ایک رشتہ داری تعلق ہے لیکن یہ لفظ پیار سے مستعار ہے۔بھائی بھائی کا
سانھجاہوتاہے،بھائی باہمی طور پر اپنے ماں باپ میں مشترک ہوتے ہیں ،خاندان
اور نسل میں مشترک ہوتے ہیں اور ایک ہی تاریخ،تہذیب و ثقافت اور ایک ہی طرح
کی روایات کے وارث و امین ہوتے ہیں۔’’اخوت‘‘سے مرادایساماحول پیداکرنا جس
میں سب لوگ ایک دوسرے کو اپنا بھائی سمجھنے لگیں۔دنیامیں بہت سے تعلق
انسانوں کو جوڑنے کے لیے استعمال کیے جاتے
ہیں،مثلاََزبان،نسل،رنگ،علاقہ،تہذیب و تاریخ اور ملک و قوم وغیرہ وہ ناطے
ہیں جو کوئی سے دوانسانوں کوکسی ایک لڑی میں پرو سکتے ہیں۔اسلام نے ان سب
سے بالاتر ہوکر اور تمام تعصبات کے بت توڑ کر سب انسانوں کوایک عقیدے کے
رشتے میں پروکر ایک تسبیح بنادیاہے۔اب پوری دنیاکے اہل ایمان اس عقیدے کے
رشتے سے بہن بھائی بن گئے ہیں اور نبی علیہ السلام نے انہیں اس طرح کابھائی
بنایاہے کہ سگے اور اصل بھائیوں کی محبت اس کے سامنے ماندپڑ کر چندھیاگئی
ہے۔
آپ ﷺ نے اپنے آخری خطبہ میں حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہونے کے ناطے سے
سب انسانوں کو برابر قرار دیا۔اﷲ تعالی نے انسانوں کی پہچان کے لیے ان کے
قبائل بنائے جبکہ رنگ،نسل،علاقے،زبان اور ملک و قوم کا رشتہ مجبوری کارشتہ
ہے،کیونکہ کوئی بھی شخص اپنی مرضی سے اپنے رنگ،نسل،علاقے،زبان اور ملک و
قوم کا انتخاب نہیں کرتا،بلکہ فطرت وقدرت اسے جہاں چاہتی پیداکرتی ہے ،تب
صرف ایمان ایسا امر ہے جو اپنی مرضی سے انسان کو کسی برادری میں داخل ہونے
کاباعث بنتاہے۔دنیابھرمیں کسی بھی قوم ،ملک،علاقے یازبان وغیرہ کاحامل کوئی
بھی شخص ایک کلمہ پڑھ کر امت مسلمہ کارکن ہوکراس عالمی اخوت و برادری کاحصہ
بن سکتاہے۔آپ ﷺ نے کل مسلمانوں کو ایک جسم قرار دیااور فرمایا کہ جسم کاجب
ایک حصہ بیمار ہو تو پورا جسم درداوربے خوابی کا شکار ہوجاتاہے۔تاسیس امت
مسلمہ کے بعد سے سینکڑوں سال گزرگئے کل امت ایک رشتے میں پروئی ہوئی عالمی
اخوت کی بہترین مثال پیش کررہی ہے۔
’’مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں،لہذااپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو
درست کرواوراﷲ تعالی سے ڈرو،امیدہے کہ تم پر رحم کیاجائے گا۔‘‘49سورۃ
حجرات،آیت10
’’اے لوگوجوایمان لائے ہو، بہت گمان کرنے سے پرہیزکروکہ بعض گمان گناہ ہوتے
ہیں،تجسس نہ کیاکرواور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے کیاتمہارے
اندرکوئی ایساہے جو مرے ہوئے بھائی کاگوشت کھانا پسندکریگاَ؟؟دیکھوتم خود
اس سے گھن کھاتے ہو،اﷲ تعالی سے ڈرووہ بڑاتوبہ قبول کرنے والااور رحیم ہے۔‘‘49سورۃ
حجرات آیت12
’’سب مل کراﷲ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لواور تفرقہ میں نہ پڑو۔اﷲ
تعالی کے اس احسان کو یاد رکھو جواس نے تم پرکیا،تم ایک دوسرے کے دشمن تھے
اس نے تمہارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی گئے،تم آگ
کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے اﷲ تعالی نے تمہیں بچالیا۔‘‘3سورۃ آل عمران
آیت103
’’بے شک متقی لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے اور ان سے کہاجائے گاداخل
ہوجاؤ امن و سلامتی کے ساتھ بے خوف و خطر،ان کے دلوں میں جو تھوڑی بہت کھوٹ
کھپٹ ہوگی وہ ہم نکال دیں گے ،وہ آپس میں بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے
تختوں پربیٹھیں گے۔‘‘15سورۃ حجرآیت47
’’پوچھتے ہیں :یتیموں کے ساتھ کیامعاملہ کیاجائے ؟؟کہ دیجئے جس طرزعمل میں
ان کے لیے بلائی ہو وہی اختیارکرنا بہتر ہے ،اگرتم اپنااور ان کاخرچ اور
رہناسہنا مشترک رکھوتواس میں کوئی مضائقہ نہیں آخروہ تمہارے بھائی بندہی تو
ہیں ،برائی کرنے والے اور بھلائی کرنے والے دونوں کاحال اﷲ تعالی پر روشن
ہے۔‘‘2سورۃ البقرہ آیت220
’’پس اگروہ توبہ کرلیں اورنمازقائم کریں اور زکوۃ دیں توتمہارے دینی بھائی
ہیں اورجاننے والوں کے لیے ہم اپنے دینی احکام واضع کیے دیتے ہیں۔‘‘9سورۃ
توبہ آیت11
’’جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے
پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لیے کوئی بغض نہ رکنا
اے ہمارے رب تو بڑا مہربان اور رحیم ہے۔‘‘59سورۃ حشرآیت10
یہ انسانی فطرت ہے کہ جتناقریبی رشتہ ہوگا انسان اتناہی اس رشتے کے لیے
اپنی جیب کا منہ خوشی سے کھولے گا۔اولادانسان کو بہت عزیزہوتی ہے ،اولاد کے
بعد بہن بھائی انسان کو عزیزترہوتے ہیں۔اسلام نے کل مسلمانوں کو باہمی طور
پر اخوت کے رشتے میں پروکر اس بات کی آسانی پیداکردی ہے کہ وہ ایک دوسرے پر
کھل کر خرچ کر سکیں۔جب کوئی کسی کو غیرسمجھے گا تو اس پر کیونکر خرچ کرے گا
جبکہ اس کے مقابلے میں جب کوئی انجانا،اوپرااورپرایاشخص بھی سڑک کے کنارے
پانی مانگ رہاہوگا اور سننے والا اسے ایمان کے رشتے سے اپنا بھائی گردانے
گاتو لپک کر اپنے بھائی کی مددکرے گا،اسکے منہ میں پانی ٹپکائے گااور ضروری
ہواتواسے شفاخانے تک بھی پہنچائے گااور اسکے دل میں یہ جذبہ موجزن ہوگا کہ
اس نے اپنے بھائی کی مدد کی ہے۔بھائی بھائی کو بھوکا نہیں دیکھ سکتا،بھائی
بھائی کو تنگ دست نہیں دیکھ سکتا،بھائی نہیں دیکھ سکتا کہ خود تو پیٹ بھرکے
سوئے اور دوسرابھائی اور اسکے بچے بھوکے سو رہے ہوں،بھائی بھائی سے رشوت
نہیں لے سکتا،بھائی بھائی سے سودنہیں لے سکتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بھائی
بھائی کا استحصال نہیں کرسکتا۔
مواخات مدینہ سے ماضی قریب تک اور حال تک بھی جب بھی امت کے کسی گروہ پر
مشکل وقت آیاتو دوسرے گروہوں نے اپنی تجوریاں اپنے بھائیوں کے لیے کھول دیں
اور انہیں ہر ممکن آسودگی کے وسائل مہیاکیے۔اسلامی اخوت کی شاندار مثالوں
سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں جب معاش سے بڑھ کر اپنی جان بھی بھائی
پرنچھاورکر دی،لیکن ان کے ذکر کا یہ موقع نہیں ہے لیکن اتنی بات ضرور سمجھ
لینی چاہیے کہ اخوت کاعنصر اسلامی معاشیات میں وہی کام کرتاہے جس طرح ایک
جسم کے اندر روح کارفرماہوتی ہے۔کانٹا کابل میں چبھتاہے اور ہندوستان کاہر
پیروجوان بے تاب ہوتاہے،زلزلہ کشمیرمیں آتا ہے اور پوری دنیاکے مسلمان عام
طور پراورپاکستان کے مسلمان خاص طورپراپنی جیبیں خالی کرنے لگتے ہیں،حادثے
کے باعث ٹرینیں پہروں تک جنگلوں میں رکی رہتی ہیں اور جب شہری اسٹیشنوں پر
پہنچتی ہیں تو لوگ کھانوں کی دیگیں اور بچوں کے لیے دودھ کے بھرے ہوئے ڈبے
لیے کھڑے ہوتے ہیں اور مفت تقسیم کرتے ہیں اور لینے والے کے مشکور بھی ہوتے
ہیں اور رمضان تو اخوت کے معاشی پہلوسے سارامہینہ بھرارہتاہے کہ مساجد میں
ہر خواص وعام کے لیے دسترخوان منتظر رحمت رہتے ہیں۔
|