خوارج کی ابتداء دورِ نبوی میں
ہی ہوگئی تھی۔ بعد ازاں دورِ عثمانی میں ان کی فکر پروان چڑھی اور پھر دورِ
مرتضوی میں ان کا عملی ظہور منظم صورت میں سامنے آیا۔ اﷲ تبارک و تعاليٰ نے
قرآن حکیم میں کئی مقامات پر ان خوارج کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی کثیر احادیث مبارکہ میں ان کی واضح
علامات اور عقائد و نظریات بالصراحت بیان فرمائے ہیں۔ خوارج دراصل اسلام کے
نام پر دہشت گردی اور قتل و غارت گری کرتے تھے اور مسلمانوں کے خون کو اپنے
انتہاء پسندانہ اور خود ساختہ نظریات و دلائل کی بناء پر مباح قرار دیتے
تھے۔ امام محمد بن عبد الکریم شہرستانی، خوارج کی تعریف میں لکھتے ہیں کل
من خرج عن الإمام الحق الذي اتفقت الجماعة عليه يسمی خارجيًا سواءً کان
الخروج في أيام الصحابة علی الأئمة الراشدين أو کان بعدهم علی التابعين
بإحسان والأئمة في کل زمان. ’’ہر وہ شخص جو عوام کی متفقہ مسلمان حکومتِ
وقت کے خلاف مسلح بغاوت کرے اسے خارجی کہا جائے گا؛ خواہ یہ خروج و بغاوت
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں خلفاے راشدین کے خلاف ہو یا تابعین
اور بعد کے کسی بھی زمانہ کی مسلمان حکومت کے خلاف ہو۔‘‘ ۔ علامہ ابنِ نجیم
حنفی، خوارج کی تعریف یوں کرتے ہیں : الخوارج : قومٌ لَهم منعة وحمية خرجوا
عليه بتأويل يرون أنه علی باطل کفر أو معصية توجب قتاله بتأويلهم يستحلون
دماء المسلمين وأموالهم. ’’خوارج سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے پاس طاقت اور
(نام نہاد دینی) حمیت ہو اور وہ حکومت کے خلاف بغاوت کریں۔ یہ خیال کرتے
ہوئے کہ وہ کفر یا نافرمانی کے ایسے باطل طریق پر ہے جو ان کی خود ساختہ
تاویل کی بنا پر حکومت کے ساتھ قتال کو واجب کرتی ہے۔ وہ مسلمانوں کے قتل
اور ان کے اموال کو لوٹنا جائز سمجھتے ہیں۔‘‘ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ
سے مروی ہے۔ من شهر السلاح في فئة الإسلام، وأخاف السبيل ثم ظفر به، وقدر
عليه فإمام المسلمين فيه بالخيار، إن شاء قتله وإن شاء صلبه وإن شاء قطع
يده ورجله. ’’جس نے مسلم آبادی پر ہتھیار اٹھائے اور راستے کو اپنی دہشت
گردی کے ذریعے غیر محفوظ بنایا اور اس پر کنٹرول حاصل کرکے لوگوں کا پر امن
طریقے سے گزرنا دشوار کر دیا، تو مسلمانوں کے حاکم کو اختیار ہے چاہے تو
اسے قتل کرے، چاہے تو پھانسی دے اور چاہے تو حسبِ قانون کوئی اذیت ناک سزا
دے۔‘‘’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ۔ ’’اگر تم
انہیں ملو تو ان کے خلاف کارروائی کرکے انہیں قتل کر دو کہ یقینا ان کو قتل
کرنے میں اجر ہے‘‘ ۔ خوارج اور باغی دہشت گردوں کے ساتھ جنگ کے واجب ہونے
پر صراحت ہے اور اسی پر علماء کا اجماع ہے۔ قاضی ابو بکر بن عربی نے فرمایا
: تمام علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ خوارج اور ان جیسے دیگر اہلِ بدعت
دہشت گرد، اگر حکومت وقت کے خلاف خروج کریں، اجتماعی رائے کی مخالفت کریں
اور ہتھیار اٹھا لیں تو ان کو ڈرانے اور راہ راست پر لانے کے لئے سمجھانے
کے بعد ان سے قتال واجب ہے۔ نووی، شرح صحيح مسلم، 7 : 169، آج مجھے سمجھ
نہیں آتی کہ نام نہاد دانشور کیوں قوم کو گمراہ کررہے ہیں اور قرآن و حدیث
سے غلط استدلال کر کے دہشت گردوں کو ہمارے بھائی اور بیٹے ثابت کرنے پر
توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔ میری رائے میں یا انھوں نے قرآن و حدیث کو سمجھا
ہی نہیں یا بددیانتی سے کام لیتے ہیں۔ وائے ناکامی مسلمانوں میں غیرت نہ
رہی۔ پاس مذہب نہ رہا دین سے الفت نہ رہی |