امریکی عدالت نے بدھ کے روز گوگل کمپنی کی اپنی ویڈیو
شیئرنگ ویب سائٹ یوٹیوب سے اسلام مخالف فلم ' انوسینس آف مسلمز' نہ ہٹانے
کی اپیل مسترد کردی ہے جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ یہ اظہار کی آزادی
کے خلاف ہے اور یوں امریکی آئین سے متصادم ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق کورٹ نے گوگل سے کہا ہے کہ وہ اس فلم کو یوٹیوب سے ہٹا
دے۔
|
|
درخواست گزار سنڈی لی گارشیا نے کہا کہ فلم کے ایک منظر میں ان کا ایک جملہ
شامل کیا گیا ہے وہ انہوں نے کسی اور جگہ کیلئے کہا تھا اور اسے ڈبنگ کے
ساتھ اس فلم میں شامل کیا گیا ہے۔ گوگل فوری طور اس پر ردِ عمل ظاہر کرنے
لئے دستیاب نہ ہوسکا۔
واضح رہے کہ اس جملے سے پیغمبرِ اسلام حضرت محمد ﷺ کی توہین ہوتی ہے۔
گارشیا نے اگرچہ اس فلم میں کام تو کیا ہے لیکن ان کےمطابق اس فلم میں ان
سے منسوب گستاخانہ جملہ ان سے وابستہ نہیں اور اس سلسلے میں وہ پہلے بھی
ایک مقدمہ دائر کرچکی ہے۔
گارشیا کے وکیل، کرس آرمینٹا نے عدالت کے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا
ہے۔
' گوگل اور یوٹیوب کو فلم ہٹانے کا حکم دینا ایک درست امر ہے،' انہوں نے
ایک ای میل میں کہا۔
|
|
کرس نے اس فلم کو ایک پروپیگنڈا فلم قرار دیا ۔ اس فلم کے بعد پاکستان سمیت
دنیا کے کئی اسلامی ممالک میں شدید غم و غصے اور احتجاج کی لہر پھوٹ پڑی
تھی جس میں درجنوں لوگ ہلاک ہوئے تھے۔
اس کے بعد بن غازی لیبیا پر ایک امریکی سفارتکار کو حملے میں قتل بھی کردیا
گیا تھا۔
گوگل نے اس سے قبل وائٹ ہاؤس، مصر، لیبیا اور پاکستان وغیرہ کی درخواستوں
کے باوجود بھی فلم کو ہٹانے سے انکار کردیا تھا۔
بدھ کو یہ کورٹ کے مطابق گارشیا کی جان کو شدید خطرات لاحق ہیں اور وہ کاپی
رائٹ کے تحت فلم میں اپنی پرفارمنس کا دفاع چاہتی ہیں۔
جج الیکس کوزنسکی کے مطابق یہ ایک انوکھا اور متنازعہ کیس ہے جس میں گارشیا
کو بے وقوف بنایا گیا ہے اور وہ ' اپنے حقوق اور اپنی جان کے تحفظ کیلئے
خود فلمساز پر مقدمہ کرنے کا سوچ رہی تھیں۔ |