صوبہ بہار کی سیا ست اور پھر مو جودہ دور کی سیا ست میں
ایک بڑانام رام و لاس پاسوان کا بھی ہے کہنے کو تو پا سوان مدبر اور دو
راندیش ہے تاہم ان کی سیا سی زندگی کے تمام شعبہ ہائے زریں ا س امر کی
تصویب کر رہے ہیں کہ پاسوان نے اپنی تبدیلی مذاق کا ہی اظہار کیا ہے اور
محض جاہ ومنصب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنی پالیسیوں کو آخری شکل دی ہے
اور کچھ ایسا ہی انھوں نے بی جے پی کیساتھ اپنے اتحاد کو پیش کرکے کیا ہے
پاسوان ملک کیلئے ایک با اصول اور دو راندیش سیا سی لیڈر تصور کیے جاتے ہیں
اور جب بھی پا سوان نے کو ئی وزارت سنبھالی ہے اس کو ہمہ جہت ترقی سے
ہمکنار کیا ہے لیکن محتر م کا یہ اقدام جس امر کی طرف اشارہ کر رہاہے وہ ان
کیلئے عمر بھر کی پارسائی اور نیک نامی پر بدنما داغ کہا جاسکتا ہے ۔بی جے
پی سے اتحادکے تئیں ان کے دلائل بزعم خویش قوی ہیں لیکن قوی ہونے کے با و
جود اپنی نقاہت اورضعف کا سر اپا اعلان کر رہے ہیں پاسوان کے اس اقدام
یاپھرکھلی منا فقت کو کیا کہیں ؟
ملک کی سا لمیت و بقا اور تحفظ اگر فرقہ و اریت کی تعلیم دینے و الی جماعت
کی پالیسیوں میں مضمر ہے تو بصد شوق ملک کی عوام کو اس اقدام کاخیر مقدم کر
ناچاہیے اوراپنی تائید کی مہر بھی ثبت کرنی چاہیے لیکن اگر شوق کی یہ
سرگرانی ہے تو خدارا اس نقطہ فکر پر قدم روک کر غو رکیا جانا چاہیے کہ بی
جے پی نے اپنے روز اول سے کیا کیا ہے کس امرکو ملحوظ خاطر رکھ کر اپنی
سیاسی پالیسیوں کااظہا رکیا ہے اور کس نقطہ فکر کاایجاد کیا ہے ؟ سیکولرزم
اورمثبت فکر و خیال کے حامل افراد بخوبی بی جے پی کی مکروہ پالیسیوں کو
سمجھ رہے ہیں اور اس کی تغلیط و تر دید بھی کو اپنا ایمان تصور کر رہے ہیں
کہ اگر یہ پا لیسیا ں کارفر ما ہوئیں تو ہندو ستان اپنی تارتار جمہوریت پر
ماتم کناں ہو گا اور جس ہندوستان کا خواب دیکھنے و الوں نے دیکھا تھا و ہ
ہر گز شرمندہ تعبیر نہ ہو گا بلکہ ایک ایسا ملک ہو گا جس کی تصویر بڑی
ہولناک ہوگی مگر مذکو رہ پا رٹی تمام منفی نتا ئج سے بے پر و ا ہ ہو کر
بھارت کی جاذب او ردلکش تصویر دیکھنے کی متمنی ہے او راپنی اس تمنائے
ناتمام کو تشنہ چھوڑناگوارہ نہیں کر تی اسی تمنائے ناتمام کی تکمیل کاشوق
فراواں مو دی کو وزیر اعظم کیلئے منتخب کر نا ہے ۔مودی کی ذہنیت او رفکر نہ
تو سیکولرزم سے نیک رشتہ استواررکھتی ہے او رنہ ہی امن و سکون کی پاسباں ہے
بلکہ سرتاسر ان امور دلنشیں او ربنائے سکون و آشتی سے متحارب و منحرف ہے
اور جہاں تک ممکن ہو سکا ہے منا فرت ،قتل و فساد کا ہی اظہارکیا ہے الغرض
مو دی کی ذات قابل اطمینان نہیں ہے اور بی جے پی کو اپنے وزیر اعظم کیلئے
اس کو منتخب کرناصریح غلطی ہے کیوں کہ بی جے پی آج تک کسی تنگ نظر اورفرقہ
پرست او رداغدار شخص کو وزیر اعظم کی کر سی پر بٹھانہ سکی ہے الہذا اس
انتخاب پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اور پھر مودی کادامن تو معصوم او ربے
گناہوں کے خون سے لت پت ہے او روہ مو جو دہ دورکاقاتل اعظم ہے ۔پاسوان نے
جب کانگریس سے قبل بی جے پی اقتدار پر قابض تھی او راٹل بہاری و اجپئی وزیر
اعظم تھے تو یہ صاحب وزارت تھے لیکن جب گجرات کا سانحہ عظیم پیش آیا تو یہ
کہہ کر اپنی حمایت و اپس لے لی او روزارت سے مستعفی بھی ہو گئے کہ ہم اس
جماعت سے رشتہ ارادت نہیں رکھتے کہ جس کی نگرانی میں قتل و خون کی ہولی
کھیلی گئی2000کے اوائل میں بہار کے رحمانیہ سپول کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب
کر تے ہوئے راقم نے انکے اس قول کو بغو رسناتھاکہ ہم گنہ گار جماعت او
رفرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والی جما عت کا بائیکاٹ کر تے ہیں اور گجرات
میں انسانوں کے بہتے ہوئے خون نے ہمیں مستعفی ہو نے پر مجبور کیا ہے یاد
رہے کہ اس وقت گجرا ت کے سیا ہ و سفید کامالک مو دی ہی تھا اور اسی کے سایہ
عاطفت میں گجرات کو قتل و خون کی آماجگا ہ بناگیا تھا ،کل و ہی پا سوان تھے
جنھوں نے خون او ربے گو ر و کفن لاش کے باعث اس جماعت سے اپنارشتہ توڑ لیا
تھالیکن آج و ہی پاسوان ہیں جو کل کے قاتل اعظم کے ہاتھو ں پر بیعت کو
فریضہ گمان کر رہے ہیں او رساتھ ہی اس امر کابھی بخوبی ادراک ہے کہ گجرات
میں قتل و خون او ر انسانیت کی بے حر متی اسی کے باعث ہوئی تھی آخرش یہ
فساد مذاق کیو ں ہے؟خیالات جو کل تک درست راہ کی سمت تھے آج کیو ں صریح
گمراہی کے شکار ہیں ؟ مذاق ،فکر اور تصور راست جو کل تھے ا سکا تقاضا تو یہ
نہ تھایہی چند سوالات ہیں جو ہمیں بھی او رہر مثبت او رصحیح الفکر
ہندوستانی کے دل و دماغ میں گردش کر رہے ہیں کہ کیا ہو ا ان دعو ی اتحاد و
سلامتی کا کس کی نظر لگ گئی یا پھر جو کل سیکولرزم کے علمبردار تھے ان کی
نظر میں سیکو لرزم کے کچھ او رہی معنی ہو گئے ہیں ؟؟
رام ولاس پاسوان ہندو ستانی سیا ست بالخصوص بہار کی سیا ست کے اہم ستون تصو
رکیے جاتے ہیں او رتادم تحریر سیاست کے تمام محاذات پر کبھی کامیابی تو
کبھی ناکامی ہاتھ لگی ہے ،کہنے کو تو یہ لمبی ریس کے گھوڑے ہیں او رتمام
سیاسی نشیب و فراز سے و اقف ہیں لیکن اتنی ہو شیا ری او ر زیر کی کے با و
جو د ایسی حرکت کا صدور کو ئی نیک فال نہیں بلکہ یہ اس امر کا عندیہ ہے کہ
ہند وستانی سیاست اب مزید ہلاکت آفرینی کی طرف قدم بڑھارہی ہے ۔ذرا اس
ہلاکت اولین کاتصور کیجئے کہ بی جے پی کیطرف سے ایک ایساآدمی وزیر اعظم
کیلئے منتخب ہو ا ہے جو کہ گنا ہوں میں لت پت ہے او رملک کو مزید آتش نمرود
میں جھونکنے کو تیار ہے کہنے کو تو یہ ہر دیہ سمراٹ ہے لیکن اپنے افعال و
کر دار سے خود اپنے دیئے گئے لقب کی تو ہین کر رہا ہے جگہ جگہ منافرت آمیز
او ر اشتعال انگیز بھا شن ہیں او راس کے ذریعہ منافرت کی عا لمگیر تخم ریزی
ہو رہی ہے جو کل کے بھارت کو غارت کر دینے والی ہے پھر رشتہ سخن کی گر ہیں
یہیں نہیں رکتی بلکہ گرہ در گرہ کھلتی جا رہی ہیں او را س کی مثال پاسوان
ہیں جو کل تک تو یزید وقت کے آگے سر تسلیم خم کر نا گناہ تصور کر تے تھے
لیکن نہ جانے کیوں کیا سو جھی کہ سر خم کرنا تو دور ہے اس کے ہاتھو ں پر
بیعت کر کے مر نے او ر جینے کی قسم کھار ہے ہیں ان کے اس رویہ سے ہر طر ف
او رہر شخص نالا ں او ر سکتے میں ہے کہ یہ فکر و خیال میں فساد کیو ں بر پا
ہو ا دو نو ں قسم کے افراد بے چینی میں ہیں یہ کیا ہو رہا ہے کسی نہ کسی مو
قعہ پر مر حوم مر زا غالب یاد آجاتے ہیں ان کایہ شعر اس جگہ کام کر گیا
بسکہ ویرانی سے کفر و دیں ہو ئے زیر وزبر
گرد صحرائے حرم تا کو چہ زنار ہے
پا سوان بہار کے ایک قد آور سیا سی رہنما ہیں او رکبھی اقتدار میں تو کبھی
اپوزیشن میں ہو تے ہوئے اپنی خداداد صلاحیتو ں کا مظا ہر ہ کیا ہے او رایسی
بے جگری دکھائی ہے کہ حکومت کو اپنے فیصلہ او ررائے پر نظر ثانی کر نا پڑی
ہے او ربغض دفعہ تو اپنے فیصلہ کو تر ک کر ناپڑ ا ہے ۔پا سوان بہار کی سیا
ست کی ریڑھ کی ہڈی ہیں مگر ان کیلئے او ر ان کے حامیوں کیلئے یہ تلخ حقیقت
ہے کہ و ہ قومی ،ملکی او رعوامی فلاح کو خاطر میں لائے بغیر محض اپنے سیا
سی او رذاتی مفاد کی حصو لیابی کو سہل الحصول بنانے کی غر ض سے کبھی
کانگریس کے در کی جبیں سائی کی تو کبھی لا لو پر ساد کے آگے بھیگی بلی بنے
رہے راز و نیاز او رتعبد کا سلسلہ یہیں رک جا تا تو غنیمت تھی مگر ان کی سر
گرانی یزید وقت کی بیعت پر جاکر رکتی ہے یہ کیو ں ہے او رکیو نکر ہے ؟کیا
ہو ا کہ سیکو لرزم کادم بھرنے والا او راکھنڈتا کی نغمہ سرائی کرنے و الا
کھنڈتا کی مکروہ ریں ریں کو اپنی آواز کا ساز دے رہا ہے ؟پا سوان کے اس
اقدام اور اس زیبا یا نازیبا حر کت سے دو چیز مترشح ہو تی ہیں اول یہ کہ و
ہ محض اپنے سیا سی اغراض و مقا صد کے تحت سیا ست سے رشتہ رکھتے ہیں یا پھر
و ہ خو د فرقہ و اریت کے اس بلا خیز تند طو فان کے آگے سپر ڈال دیئے ہیں
اور علی الا علان اس امر کو ثابت کر رہے ہیں کہ جگر میں اتنی تا ب نہیں رہی
کہ اب مستقل سیکو لرزم کا علم بلند کر یں ذرا اس جانب غو رکر تے ہیں تو دو
شق سامنے آتی ہیں ،شق اول شق ثانی سے مضبو ط ہے کہ کیو نکہ مو صوف کی پو ری
سیا سی زندگی تادم تحریر سیا سی اغراض و مقا صد کے تحت سیا ست کر نا ،سامنے
آتی ہے ،شق ثانی کو اگر مضبوط مانتے ہیں تو پھر پاسوان کیلئے ضروری ہے کہ
سیا ست کو خیر آباد کہہ کر اپنی زندگی سنیا سیو ں کی طرح گذر بسر کریں کیو
نکہ بھا رت اکھنڈتا کا متلاشی ہے جو کہ اس کیلئے جام جاں ہے تو جام حیات
بھی ،یزید وقت کے ہاتھو ں بیعت کے ضمن میں ان کے جو دلائل ہیں تو ا ن کو یہ
بھی یاد رکھنا ہو گا کہ جب و ہ 2000ء میں جس نکتہ کی بنیاد پر و زارت سے
الگ ہوئے تھے و ہی نکتہ مو دی کو یزید و قت ثابت کر رہا ہے لہذا یہ بیعت
محض سیا سی اغراض کو پیش نظر رکھتے ہو ئے کی گئی ہے او رپا سوان جیسے سیکو
لرقائد کیلئے زیب نہیں ۔ہند وستانی سیا ست کی شفافیت تو یہ کہلاتی ہے کہ
آدمی اپنے مفادات او رمو قعہ پر ستی کو با لائے طاق رکھ کر صر ف ملک کی
خدمت کو یقینی بنائے مگر پا سوان نے اس دیہاتی محاورہ پر عمل کیا ہے کہ
جہاں دیکھے کھیر و ہیں لگائے بھیڑ او ران کی پوری سیا سی زندگی اسی کی
عکاسی کر تی ہے ۔ہندو ستانی عوام بالخصوص بہار کے لوگ آئندہ عام انتخاب میں
پاسوان کو آئینہ دکھا ئیں گے جیسا کہ گذشتہ بہار اسمبلی او رلو ک سبھا
الیکشن میں دکھایا تھا کہ فضائے بہا راو رہندو ستان کے سیا سی فلک پر ان کا
بنگلہ ہو اووں کے دوش پر اڑتا ہو انظر آیا تھا یقین نہ ہو تو پھر اپنی سر
شت کا مظا ہر ہ کر کے دیکھ لیں اب عوام جا گ چکی ہے ۔ |