سیدعارف نوناری
طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا اگرچہ ملک کے استحکام اورخوشحالی کیلئے بہت
ضروری ہے۔لیکن حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود طالبان حکومت کی پہنچ سے
باہر نظرآرہاہے ہیں اور مذاکرات کا عمل شروع ہونے کے باوجود نتائج صفراور
بے نتیجہ لگتے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ طالبان کی چھتری کو کیسے سر سے ہٹایا
جاسکتاہے۔
طالبان کے خلاف فوجی کارروائی شروع ہوتے ہی ایک بار پھر ملٹری ایکشن کے
حوالے سے بے یقینی کی فضا پیدا کی جا رہی ہے۔ ایک طرف طالبان فضائی حملوں
میں نقصان اٹھانے کے باوجود بم دھماکے کر رہے ہیں لیکن ان کے ہمدرد اس جنگ
کو پاکستان کی تباہی قرار دینے سے گریز نہیں کرتے۔ آج طالبان لیڈر عصت اﷲ
شاہین کی ہلاکت کے بعد یہ بحث مزید الجھائی جائے گی۔اس دوران تحریک انصاف
نے فوجی کارروائی کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اس حوالے سے عمران
خان کا یہ بیان بھی نہایت مناسب ہے کہ طالبان مذاکرات کو کامیاب کروانے کے
لئے فوری طور پر جنگ بندی کا اعلان کریں۔ عمران خان کا یہ بیان مولانا سمیع
الحق اور دیگر طالبان نواز عناصر کے اس مؤقف سے بالکل مختلف ہے کہ حکومت
پاکستان اور طالبان مشترکہ طور پر جنگ بندی کا اعلان کریں۔ یہ عناصر حکومت
کے ہاتھ باندھ کر یہ تماشہ دیکھنے میں کوئی ہرج محسوس نہیں کرتے کہ طالبان
سکیورٹی فورسز پر حملے کرتے رہیں اور ان کے اہلکاروں کو نشانہ بناتے رہے
ہیں۔ یہ بات پاکستان کی سیاسی تاریخ میں المناک باب کا اضافہ ہے کہ جماعت
اسلامی اور مولانا سمیع الحق کا گروہ طالبان کی چیرہ دستیوں کے باوجود ان
کے لئے ہمدردی کے جذبات ابھارنے کی کوششوں میں لگا ہے۔
اس صورتحال میں عمران خان کا دو ٹوک مؤقف مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے
درمیان ہم آہنگی کا سبب بن سکتا ہے۔ عمران خان نے ایک طرف فوجی کارروائی کو
مسترد کرنے سے گریز کیا ہے تو دوسری طرف انہوں نے طالبان پر زور دیا ہے کہ
وہ فوری جنگ بندی کا اعلان کریں۔ اس طرح انہوں نے اس اصول کو تسلیم کیا ہے
کہ سرکش عناصر طالبان ہی ہیں جو ملک کے آئین اور قوانین کو روندتے ہوئے
پاکستان کے عوام اور افواج کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ اس طرح انہوں نے اس
دلیل کو مسترد کر دیا ہے کہ جنگ کا آغاز حکومت پاکستان کی طرف سے کیا گیا
تھا اس لئے جنگ بندی میں بھی اسے ہی پہل کرنا ہو گی۔
عمران خان کا یہ مؤقف طالبان کے لئے حالیہ ہفتوں میں سب سے بڑا سیاسی دھچکہ
ثابت ہو سکتا ہے۔ تحریک انصاف نے ڈرون حملوں کے خلاف سخت گیر مؤقف اختیار
کرتے ہوئے مسلسل طالبان کی حمایت کی تھی۔ تاہم طالبان کے کوتاہ نظر قائدین
اس غیر متوقع سیاسی حمایت کی اہمیت اور قدر و قیمت کا اندازہ نہیں کر سکے
اور انہوں نے مذاکرات کو مذاق بنا لیا اور اس دوران دہشت گرد حملے بھی جاری
رکھے۔ اسی رویہ کی وجہ سے تحریک انصاف کی قیادت کو طالبان کے لئے اپنی غیر
مشروط حمایت پر نظر ثانی کرنا پڑی ہے۔اس کے ساتھ ہی متحدہ قومی موومنٹ نے
کل کراچی میں افواج پاکستان اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے
ریلی کا اہتمام کیا۔ تحریک کے قائد الطاف حسین نے اس ریلی سے خطاب کرتے
ہوئے قبائلی علاقوں میں افواج پاکستان کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کرتے
ہوئے کہا کہ پاکستان کا بچہ بچہ اس جنگ میں فوج کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔
انہوں نے طالبان کے خطرہ سے آگاہ کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اس مرحلہ پر جو
عناصر طالبان کی حمایت کر رہے ہیں وہ دراصل ملک سے غداری کے مرتکب ہو رہے
ہیں۔
اس دوران طالبان کی طرف سے مذاکرات کے لئے دباؤ ڈالنے کی کوششیں بھی دیکھنے
میں آئی ہیں۔ ان کے نمائندے مولانا سمیع الحق اور پروفیسر ابراہیم خان
مسلسل فوجی کارروائی بند کرنے اور مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی صدا بلند کر
رہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس دوران طالبان کی طرف سے جو بم دھماکے ہو
رہے ہیں طالبان کے نمائندے انہیں اہمیت دینے یا مسترد کرنے کے لئے تیار
نہیں ہیں۔ طالبان نے کل کوہاٹ میں پولیس لائنز کے قریب دھماکہ کیا جس میں
درجن بھر سے زائد لوگ جاں بحق ہوئے۔ آج بھی پشاور میں ایرانی قونصلیٹ کے
قریب ایف سی چیک پوسٹ پر خود کش حملہ کیا گیا جس میں دو ایف سی اہلکار جاں
بحق ہوئے۔تاہم آج کا سب سے اہم واقعہ طالبان کے اہم رہنما عصمت اﷲ شاہین کی
ہلاکت ہے۔ ان پر میران شاہ کے قریب درگاہ منڈی میں نامعلوم افراد نے حملہ
کیا اور فائرنگ کر کے عصمت اﷲ اور اس کے تین ساتھیوں کو ہلاک کر دیا۔ ابھی
یہ طے نہیں ہو سکا کہ یہ حملہ کن لوگوں نے کیا ہے۔ تاہم طالبان کے ساتھ
مذاکرات کے حوالے سے موجودہ غیر یقینی میں اس حملہ کو ان عناصر سے جوڑنے کی
کوشش کی جائے گی جو طالبان کے ہمدردوں کے بقول مذاکرات کی کوشش ناکام بنانا
چاہتے ہیں۔ یوں تو مولانا سمیع الحق جیسے لوگ اس کا الزام امریکہ و بھارت
پر عائد کرنے کی سعی کرتے ہیں لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ طالبان کے اندر
بعض انتہا پسند دھڑے بھی مذاکرات کے خلاف سرگرم ہیں۔ ان میں شمالی وزیرستان
میں آباد ازبک انتہا پسند بھی شامل ہیں۔
ان حالات میں جبکہ فوج کی کارروائی سے طالبان کی صفوں میں کھلبلی مچی ہوئی
ہے ، حکومت کی طرف سے ایک بار پھر مذاکرات کے مردہ بدن میں جان ڈالنے کی
کوشش کی جا رہی ہے۔ اصولی طور پر یہ بات قابل قبول ہے کہ طالبان جب جنگ
بندی پر آمادہ ہو جائیں تو مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کرنا ہی بہتر ہو گا۔
تاہم ایک ایسی صورتحال میں جبکہ حکومت مذاکرات کے لئے کئی ہفتے ضائع کر چکی
ہے اور اس کی بار بار کوششوں کے باوجود طالبان نے سنجیدگی سے مذاکرات کی
میز پر بیٹھنے اور بات چیت کے ذریعے معاملات طے کرنے کے جذبہ کو قبول نہیں
کیا۔ ایک طرف ان کے نمائندے پاکستانی آئین اور شرعی قوانین کے حوالے سے غیر
ضروری مباحث کو شروع کر رہے تھے تو دوسری طرف طالبان مسلسل حملے کرنے میں
مشغول رہے۔ ایک ہفتہ قبل طالبان کے ایک گروہ نے تین سال قبل اغوا کئے گئے
ایف سی کے 23 اہلکاروں کو اس وقت قتل کرنے کا اعلان کیا جب حکومت طالبان کے
مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے متبادل تجاویز لانے والی تھی۔
اس طرح حکومت کو فوج کے ساتھ مشورہ کے بعد مذاکرات کو معطل کر کے فوج کو
دفاعی کارروائی کا اختیار دینا پڑا۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ حکومت فوج کو اپنی
حکمت عملی کے مطابق کارروائی کرنے دے۔ اس معاملہ پر مختلف وزیروں اور
مذاکراتی کمیٹی کے ارکان کی طرف سے غیر ضروری بیانات کی وجہ سے ایک بار پھر
الجھنوں اور پیچیدگی میں اضافہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ حکومت اب ایک سیاسی
فیصلہ کر چکی ہے۔ اب اسے قوت ارادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوج کو اپنا ایکشن
مکمل کرنے کا موقع دینا چاہئے۔ اس دوران مضحکہ خیز سیاسی بیانات اور
مذاکرات کے دعووں پر مبنی خواہشات کا اظہار بے وقت کی راگنی کے مترادف ہے۔
اس سے حکومت کی کمزوری کا اندازہ ہوتا ہے اور یہ پتہ چلتا ہے کہ معاملات پر
اس کی گرفت مضبوط نہیں ہے۔ ماضی کی طرح اب بھی حکومت کا یہ رویہ شرپسند
عناصر کے لئے حوصلہ افزائی کا سبب بنے گا۔سیاسی طور پر ایم کیو ایم اور
تحریک انصاف جیسی دو مختلف الخیال جماعتیں فوجی ایکشن کے حوالے سے ایک ہی
رویہ کا اظہار کر رہی ہیں۔ اس لئے حکومت کو بھی مضبوط سیاسی مؤقف اختیار
کرتے ہوئے یہ واضح کرنا چاہئے کہ مذاکرات کے لئے ضروری ہے کہ طالبان مکمل
جنگ بندی کا اعلان کریں اور اپنے کئے پر شرمندہ ہوں۔ حکومت اگر ایسا دو ٹوک
مؤقف اختیار نہ کر سکی تو فوج کی کوششیں اور قربانیاں ضائع ہو سکتی ہیں۔ |