مسئلہ دوہری شہریت کا

سپریم کورٹ آف پاکستان نے دوہری شہریت کیس کا تفصیلی فیصلہ سناتے ہوئے، دوہری شہریت کے حامل افراد کو پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی رکنیت کے لیے نااہل قرار دے دیا ہے اورکہا ہے کہ دوہری شہریت رکھنا بذات خود پاکستان کے قانون کی خلاف ورزی نہیں ۔ البتہ ایسا امر ضرور ہے جس میں شہری کی وفاداری بھی اس کی شہریت کی مانند، دوہری ہونے کا خدشہ ہے۔ جس سے مفادات کے ٹکراؤ کا امکان ہو سکتا ہے۔قبل ازیں مختصر فیصلے کے نتیجے میں تقریبا ایک درجن اراکین قومی و صوبائی اسمبلی ا ور سینٹ کو نااہل قرار دیا گیا تو کچھ سیاسی حلقوں کی جانب سے سپریم کورٹ کو ہدف تنقید بنایا گیا۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے محض اس آئینی نقطے کے اطلاق کے احکامات جاری کیے ہیں۔ دوہری شہریت کے حامل افرادپر یہ پابندی 1973کے متفقہ آئین میں روز اول سے عیاں ہے۔ آئین کی شق 63 (1) (C) میں واضح ہے کہ ـ’’اگر کوئی شخص پاکستان کا شہری نہ رہے یا کسی غیر ملک کی شہریت حاصل کرلے تو وہ پارلیمنٹ کا رکن بننے یا رہنے کا اہل نہیں‘‘ ۔

طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہ شق جوں کی توں آئین کا حصہ رہی۔ نہ تو اس پر عمل کیا گیا اور نہ ہی تر میم ۔ حکومت، اپوزیشن، الیکشن کمیشن اور دیگر متعلقہ حلقے اس حوالے سے چشم پوشی کیے رہے اور دوہری شہریت کے حامل افراد نہ صرف پارلیمنٹ میں موجود رہے بلکہ فیصلہ سازی سے متعلق اعلٰی مناصب پر فائز بھی رہے۔ بے نیازی ملاحظہ ہوکہ2008 کے انتخابات تک الیکشن کمیشن کے فارم میں امیدواروں کی دوہری شہریت جانچنے کے لیے کوئی شق یا خانہ ہی نہیں تھا۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستانی شہریوں کے لیے دوہری شہریت کا حصول ہر گز غیر آئینی عمل نہیں ہے اور دیگر تمام حقوق کے ساتھ انہیں ووٹ ڈالنے کا حق بھی حاصل ہے۔ عدالت عظمیٰ نے بھی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی حب الوطنی اور زر مبادلہ کے ذریعے ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کے کردار کو سراہا ہے۔ لہذا بعض سیاسی شعبدہ بازوں کی جانب سے اس فیصلے کو بیرون ملک پاکستانیوں کی حب الوطنی پر شک اور ان کے حق پر ڈاکہ ڈالنے کا تاثر دینا غلط ہے۔

اراکین اسمبلی اور سینٹ پراس پابندی کے حوالے سے آئین سازوں کے پیش نظر یقینا مفادات کا ٹکراؤ اور وفاداریوں کی تقسیم تھی۔ بعض ممالک کی شہریت کے حصول کے لیے اس ریاست سے وفاداری کے ساتھ دیگر تمام ممالک سے ترک وفا کا حلف بھی اٹھانا لازمی ہے ۔ جیسا کہ امریکی شہریت کے حصول کے لیے ــ ’’ امریکہ سے وفادار رہنے ، اس کے لیے ہتھیار اٹھانے، اور دیگر تمام ریاستوں سے وفاداری ترک کرنے ــ"کا حلف لیا جاتا ہے۔ اسی طرح برطانوی شہریت کے حامل افراد ــ’’ملکہ برطانیہ اور اس کی آئندہ نسلوں سے وفاداری اور اپنی تمام وفاداریاں برطانوی سلطنت سے وابستہ کرنے کا اقرار "کیے ہوتے ہیں ۔ عدالت عظمیٰ نے بھی اپنے فیصلے میں اس حکمت و دانش پر روشنی ڈالی ہے ۔ مثال کے طور پر ڈرون کا معاملہ جس پر امریکہ میں یہ بحث شروع ہو چکی ہے کہ امریکی شہریت کے حامل پاکستانی کیونکر ڈرون حملوں کی مخالفت کرتے ہیں ۔ یہی وہ مفاد اور وفاداریوں کا ٹکراؤ ہے جو پیچیدہ صورتحال اختیار کر سکتا ہے۔

یوں تو ہمارے ہاں امراء اور با اختیار افراد کو قانونی شکنجے میں کسنا ہی مشکل امر ہے ۔ مگردوہری شہریت کے حامل ہونے کی صورت میں ایک محفوظ راہ داری ان کے پیش نظررہتی ہے۔ اور کروڑوں عوام کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والے افراد اپنی کسی بھی بد عنوانی کی جوابدہی کے بغیر بڑے آرام سے اپنا ٹھکانا بدل لیتے ہیں۔ ایک جانب تو وہ عدلیہ یا کسی ادارے کے بلاوے پر واپسی یا جواب دہی کے پابندنہیں ہوتے ۔ دوسری طرف انہیں بیرون ملک جانے سے روکنا یا ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنا بھی امر محال ہے۔ ایسی کسی صورت میں متعلقہ ملک کی جانب سے اپنے شہری کے انسانی حقوق غصب ہونے کا واویلا پیش نظر رہتاہے۔ عدالت عظمی کے اس فیصلے سے ایک طرف آئین اور قانون کی بالادستی قائم ہو گی اور دوسری طرف امراء، وزرااور مقتدر افراد کی قانون سے ماٰوری ہونے کا اثر زائل ہو گا۔

اس معاملے کے سامنے آتے ہی آئی ۔ ایس۔ پی۔ آرنے باقاعدہ اعلان کیاہے کہ فوج میں دوہری شہریت کا حامل کوئی فرد نہیں۔ غالبا فوج نے اس حوالے سے کوئی داخلی نظام وضح کر رکھا ہے جو کہ خوش آئند امر ہے۔ دوہری شہریت کا اطلاق فقط اراکین اسمبلی اور سینٹ پر ہی نہیں ہونا چاہیے۔ اصولا سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو بھی اس قانون کا پابند کیا جانا چاہئیے۔ایک نکتہ نگاہ یہ ہے کہ فیصلہ سازی میں ملوث تمام افراد پریہ پابندی عائد کی جانی چاہیئے خواہ انکا تعلق عدلیہ سے ہو، بیوروکریسی ، سفارت کاری یا دیگر شعبہ جات سے ۔

صورتحال یہ ہے کہ دوہری شہریت کے حوالے سے سیاسی جماعتوں میں رسہ کشی جاری ہے۔ حکومت اور اس کے بیشتر اتحادی یہ پابندی ختم کرنے کے لیے ۲۲ ویں آئینی ترمیم کے خواہشمندہیں۔ اس حوالے سے ایم۔ کیو۔ ایم حکومت کی سب سے بڑی اتحادی ہے۔ اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) ،ہم خیال اور مذہبی جماعتوں کے علاوہ حکومتی اتحاد میں شامل اے۔ این ۔ پی اور فنکشنل لیگ بھی اس پابندی کے خاتمہ کے حق میں نہیں۔ حکومت کو اس ترمیم کی منظوری کے لیے سینٹ اور قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے۔سو مطلوبہ اکثریت نہ ہونے پر حکومت کو ناکامی کا سامنا ہے۔

یہ معاملہ بے حد اہمیت اور حساسیت کا حامل ہے۔ اسے حسب روایت سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا ذریعہ بنانا قطعا درست نہیں۔ کسی ایک رائے یا نقطہ نگاہ کو حتمی اور حرف آخرقرار دینا بھی غلط ہے۔ خوش آئندامر یہ ہے کہ حریف سیاسی جماعتوں کے نقطہ ہائے نگاہ میں یکسانیت نہ سہی قربت ضرور پائی جاتی ہے اور کچھ اچھی تجاویز بھی سامنے آئیں ہیں۔ اے۔ این ۔ پی کا موقف ہے کہ اراکین اسمبلی کو دوہری شہریت کی اجازت دے دی جائے مگر وزارتوں یا فیصلہ سازی سے متعلق اہم عہدوں پر تعینات کرنے کی پابندی نافذ ہونی چاہیئے۔ مسلم لیگ (ن)نے دو قدم مزید آگے بڑھ کرتجویز کیا ہے کہ ان افراد کو الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی جائے مگر اسمبلی یا سینٹ کا رکن بننے سے پہلے دیگر شہریتوں کو ترک کرنا لازم قرار دیا جائے۔ یہ تجاویز قابل غور ہیں۔

گزشتہ دنوں پنجاب حکومت کی جانب سے ایک سرکاری اعلامیے کے ذریعے تمام سرکاری ملازمین کو دوہری شہریت سے متعلق بیان حلفی جمع کرانے کا حکم جاری کیا گیا۔یہ اقدام سمجھ سے بالاتر ہے ۔اول تو آئین پاکستان عوام پر دوہری شہریت کی پابندی عائدنہیں کرتا۔ دوئم افسران کی حد تک تو ٹھیک ، مگر چپراسیوں، مالیوں اور جمعداروں سے بیان حلفی لینا مضحکہ خیز ہے ۔ اگر نچلے درجے کے یہ ملازم دوسرے ممالک کی شہریت رکھتے ہوں تو انہیں پاکستان میں یہ کام کرنے کی کیا ضرورت۔

بنیادی نقطہ یہی ہے کہ اس معاملے کو مخالفین کو نیچا دکھانے اور خود کو قانون سے بڑھ کر قانون کا حامی ظاہر کرنے کا ذریعہ بنانے کی بجائے اس آئینی نقطے کی روح اور مقاصد کو سمجھ کر عمل کیا جائے۔ اور افہام و تفہیم سے اس معاملے کا حل نکال کر معاملہ سلجھایاجائے۔ اپنی تمام تر تقدیس کے با وجود آئین کو ئی ایسا صحیفہ نہیں جسے تبدیل یا ترمیم نہ کیا جا سکے۔ گزشتہ ۲۱ ترامیم کی طرح ۲۲ ویں ترمیم بھی منظورکی جا سکتی ہے مگراس حوالے سے ملک و قوم کا وسیع تر مفاد پیش نظرہونا چاہئیے نہ کہ سیاسی جماعتوں یا چندافراد کا ذاتی فائدہ۔
Lubna Zaheer
About the Author: Lubna Zaheer Read More Articles by Lubna Zaheer: 40 Articles with 25522 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.