خبرہے کہ گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ
کالج کوٹ سلطان میں منعقدہ محفل مشاعرہ میں صوبائی پارلیمانی سیکرٹری برائے
داخلہ اورایم پی اے کی موجودگی میں نظریہ پاکستان ، افواج پاکستان کے خلاف
ہرزہ سرائی اورسقوط ڈھاکہ کے ذمہ داران کوہیروقراردینے پرطلباء ، والدین
اورشہریوں کا شدید ردعمل ، پرنسپل اورنام نہاد دانشورکے خلاف کارروائی کا
مطالبہ۔ اس خبر کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ گورنمنٹ بوائز کالج کوٹ سلطان میں
منعقدہ محفل مشاعرہ کے دوران مہمانان گرامی مسلم لیگ نوازکے صوبائی
پارلیمانی سیکرٹری برائے داخلہ مہر اعجازاحمد اچلانہ اورایم پی اے چوہدری
اشفاق احمد کی موجودگی میں نام نہاد دانشور مزارخان نے طلباء وطالبات
اورسینکڑوں حاضرین کی موجودگی میں نظریہ پاکستان ، افواج پاکستان
اورپاکستان مسلم لیگ کے خلاف شدید ہرزہ سرائی کی۔انہوں نے سقوط ڈھاکہ کے
ذمہ داران شیخ مجیب الرحمن اوردیگر علیحدگی پسندوں کی حمایت میں باتیں کرکے
طلباء ، طالبات اورخواتین وحضرات کی موجودگی میں انتہائی نازیبا الفاظ کہے
جس پر پرنسپل پروفیسرمزمل حسین نے اسے روکنے کی بجائے دادتحسین پیش
کیا۔طلباء اورطالبات ، والدین ، شہریوں عطاء محمد عطاء، صدرہیومن رائٹس
منشی منظورحسین، صدرسانول سنگت عمران زکی، جنرل سیکرٹری تعمیر فاؤنڈیشن
ندیم اختر، صدرکاروان ادب لیہ ڈاکٹرخلیل احمد،جام باسط الرحمن مکی، سابق
ممبرضلع کونسل دریزدانی خان، ڈاکٹر محمد یوسف، مہر شاہد اقبال میلوانہ،
قاری عبدالغفور رہنما جمیعت علماء اسلام ،ڈاکٹرظفراقبال امیرجماعت اسلامی
اوردیگر نے اس کی بھرپورمذمت کرتے ہوئے اسے اسلام ، پاکستان دشمنی قراردیتے
ہوئے کہا کہ ہم ایسے عناصرکوان کے مذموم مقاصد میں ہرگزکامیاب نہیں ہونے
دیں گے۔انہوں نے کالج کے ذمہ داران کے خلاف ڈی سی اولیہ، ڈی پی اولیہ،
ڈائریکٹرکالجز ڈیرہ غازیخان، کمشنر ڈیرہ غازیخان سے تحقیقات کا مطالبہ
کیاہے۔ڈپٹی ڈائریکٹرکالجزحافظ محمد اسحاق نے رابطہ پرکہا کہ تعلیمی اداروں
میں اس نوعیت کی گفتگوکی ہرگزاجازت نہیں دی جاسکتی، اگر ایسا ہواہے تونہ
صرف قابل مذمت ہے۔بلکہ اس کی تحقیقات اورانکوائری کرائی جائے گی۔رابطہ کرنے
پر پرنسپل گورنمٹ کالج کوٹ سلطان پروفیسر مزمل حسین نے کہا جوں ہی متنازعہ
بات ہوئی توکالج انتظامیہ نے مزارخان کوسٹیج سے اتارکر کالج سے نکال
دیا۔انہوں نے کہا کالج انتظامیہ مزارخان کے خیالات کی بھرپورمذمت کرتی ہے ۔
علاوہ ازیں ایم پی اے مہراعجازاچلانہ نے بھی مزارخان کے خیالات کی مذمت
کی۔انہوں نے کہا تقریب میں ناخوشگواربات ہوئی اس وقت بھی مذمت کی اوراب بھی
مذمت کرتاہوں۔
دوسرے دن اخبارات میں اس سلسلہ میں جو خبرشائع ہوئی ۔ وہ کچھ یوں ہے کہ
چارروزگزرگئے پاکستان ، افواج پاکستان، نظریہ پاکستان کے خلاف متنازعہ قابل
گرفت خیالات کا اظہارکرنے پرلیہ میں ریاستی مشینری، اداروں اورکالجز
انتظامیہ نے کھلی چھٹی دے دی۔اورشہریوں نے سارا کچھ ہضم کرلیا۔مسجد سے خطبہ
جمعہ کی لاؤڈ سپیکرسے ادائیگی اوررکشہ پرٹیپ ریکارڈرکی آوازپر مقدمہ درج
کرنے والی ضلعی انتظامیہ لیہ کے کان پرجوں تک نہ رینگی۔ ماں بولی کے عالمی
دن کے موقع پرگورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج کوٹ سلطان میں پرنسپل ادارہ
پروفیسرمزمل حسین کی زیرصدارت اورمہمان شخصیات ایم پی اے مہراعجازاچلانہ ،
ایم پی اے چوہدری اشفاق کی موجودگی میں کالج انتظامیہ کوٹ سلطان کی جانب سے
مدعو کیے گئے مزارخان کی جانب سے قومی سلامتی اورقومی سلامتی سے متعلقہ
اداروں اوردیگر حساس اداروں کے حوالے سے اخباری رپوٹس کے مطابق نازیبا قابل
اعتراض اورقابل گرفت بلکہ بنگلہ دیش نامنظوری کی تحریک چلانے والے
پاکستانیوں کے خلاف بانی بنگلہ دیش شیخ مجیب الرحمن کے حوالے سے خیال آرائی
سمیت دیگر متنازعہ خطاب پر مقدمہ کو سٹیج سے اتاردیا بلکہ کالج سے نکال
دیا۔مگریہ سوال اپنی جگہ موجودہے کہ جس ضلعی انتظامیہ کوکسی بھی اپوزیشن
سیاسی جماعت کے جلسہ ، مسجد مارکیٹ روڈ پرلاؤڈسپیکرکے غیرقانونی استعمال
پربھی قانون حرکت میں آجاتاہے۔توایسے ماحول میں یہ امرحیران کن ہے کہ
چارروزگزرجانے کے بعد بھی گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج کوٹ سلطان کی
انتظامیہ دفترڈپٹی ڈائریکٹرکالجز لیہ ، ڈی سی اولیہ ،ڈی پی اولیہ ، ایم پی
ایزکے بااختیارعہدے ، شخصیات وادارے پاکستان اوراداروں کا مذاق اڑانے کے
مکروہ فعل کوپورے صبرواستقامت کے ساتھ برداشت کرچکے ہیں۔ضلع لیہ کے سرکاری
،عوامی اداروں شخصیات کی پراسرارخاموشی وطن عزیزکا مذاق اڑانے والوں کے لیے
حوصلہ افزائی کا پیغام اورمحب وطن حلقوں کے لیے مایوس کن ہے۔کہ پاکستان کو
گالی دینا فیشن بن گیا ہے محب وطن پاکستانی منتظرہیں کہ لیہ کے سرکاری
ادارے صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے پوزیشن کلچراورباضابطہ وضاحت جاری کریں
گے۔
یہ ہیں وہ دانشورجن کو دانشورکہنا بھی دانشورکی توہین ہے۔ ایسا پہلی
بارنہیں ہوا کہ نظریہ پاکستان ، افواج پاکستان اورپاکستان مسلم لیگ کے خلاف
کسی انسان نے ہرزہ سرائی کی ہے۔مزارخان نے خبرکے مطابق نظریہ پاکستان ،
افواج پاکستان اورپاکستان مسلم لیگ کے خلاف ہرزہ سرائی کی اورنازیبا الفاظ
استعمال کیے۔ اورسقوط ڈھاکہ کے ذمہ داران کی حمایت کی۔یہ تینوں عوامل
پاکستان کے ساتھ محبت کی اساس ہیں۔ ان تینوں میں سے کسی ایک کونکال دیں ۔
پاکستان کی عمارت منہدم ہونے کا خطرہ پیداہوجاتاہے۔نظریہ پاکستان پاکستان
کی اساس بھی ہے۔ یہ پاکستان کی عمارت کی بنیادبھی ہے۔ مزارخان کے نظریہ
پاکستان کے بارے میں مذموم خیالات اورالفاظ تو ایسے ہیں جیسے کوئی شخص کسی
مکان میں رہ رہا ہو۔اس کی ہرچیز استعمال بھی کررہا ہو۔ اس کا سامان اس مکان
کے کمروں میں محفوظ بھی ہواوروہ موسم کے مطابق اپنا بچاؤ بھی اسی سے
کررہاہو۔ اوروہ کہے کہ یہ مکان اچھا نہیں۔ وہ مکان بنانے والے مستری
کوگالیاں دیتا رہے۔ مکان کی تعمیر کے لیے جس بٹھہ خشت سے اینٹیں آئی ہوں اس
کے مالک اورلانے والوں کو کوسنا معمول بنالے۔ اس طرح افراد بھی کیا کیا
شگوفے چھوڑتے رہتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ دونوں طرف کے انسانوں میں رشتہ
داریاں تھیں یہ تھا وہ تھا۔ پھر بٹوارہ ہوگیا۔ سال ہا سال سے ایک ساتھ رہنے
والوں کو جدائی برداشت کرناپڑی۔ پاکستان سے جانے والوں کو اپنا
گھربارچھوڑنا پڑا۔ ایسے افرادکو یہ اب تک برداشت نہیں ہورہا کہ ان کے دلوں
میں رہنے والے یہاں سے کیوں چلے گئے ۔انہیں ہندوستان سے آنے والے مہاجرین
کی تکالیف اورمصیبتیں تو یاد نہیں رہتیں۔یہ کہتے ہیں کہ درمیان میں جولکیر
ہے نا وہ کسی نہ کسی طرح مٹادی جائے۔ ہم پھرسے ایک ہوجائیں۔ یہ لکیر مٹانے
کی آڑ میں بھی نظریہ پاکستان پر حملہ کرتے رہتے ہیں۔ اس لکیر کی اساس نظریہ
پاکستان ہی ہے۔ یہ تو محب وطن پاکستانیوں کوشکرانے کے نوافل ادا کرنے
چاہییں کہ اﷲ پاک نے ایسے افرادکو اس وقت پیدانہیں کیا جب نظریہ پاکستان
پیش کیا گیا۔ اس وقت ایسے افرادکو اﷲ پاک نے پیدانہیں کیا جب شاعر مشرق
ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال نے خطبہ الہ آباد میں پاکستان کا تصورپیش کیاتھا۔
محب وطن پاکستانیوں کو اس پر بھی اﷲ پاک کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ایسے
افراداس وقت بھی اس دنیا میں نہیں تھے جب آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں
قراردادپاکستان منظورکی گئی۔ یہ اس وقت بھی نہیں تھے ۔ جب تحریک پاکستان
اپنے عروج پرتھی۔ ورنہ یہ اس وقت نہ جانے کیا کیاکرتے۔ لوگوں کو ادب
اورمشاعروں کے نام پرملک کے خلاف اکساتے۔ یہ قائداعظم ، علامہ اقبال
اوردیگر قائدین کے خلاف شاعری کرتے۔ یہ تقسیم برصغیرکے خلاف وہ پراپیگنڈہ
کرتے کہ تحریک پاکستان اورقیام پاکستان تاریخ کی سب سے بڑی غلطیاں
مشہورہوجاتیں۔ یہ بات نہیں کہ اس وقت مخالفین نہیں تھے۔ اس وقت بھی مخالفین
تھے جو نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان معرض وجود میں آجائے۔اس سے یہ ہوتاکہ
تحریک پاکستان کے مخالفین میں اضافہ ہوتا۔ فرض کریں ایسے افراداس وقت
موجودبھی ہوتے تو کیا کرلیتے۔ پاکستان تو بننا تھا جو بن گیا۔ ایسے افراد
ایسی باتیں کرکے کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ کیا انہیں اس بات کا ادراک
ہوتاہے کہ وہ ایسی باتیں کرکے کس کی وفاداری کا ثبوت دے رہے ہوتے
ہیں۔مزارخان نے طلباء وطالبات کے سامنے متنازعہ باتیں کی ہیں۔ طلباء
وطالبات کے سامنے کی جانے والی ہربات ان کے لیے درس کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ
بھی ان کی تربیت کا حصہ ہوتا ہے۔ تو کیا ایسی باتیں کرنے والوں نے سوچاکہ
وہ ایسی باتیں کرکے ان طلباء وطالبات کوکیا سبق دے رہے ہیں۔ جو طلباء و
طالبات اپنے نصابوں میں نظریہ پاکستان کے بارے میں پڑھ چکے ہیں۔ ایسے
افرادکے اس بارے خیالات سن کر وہ کیا سوچتے ہوں گے کہ جو کچھ ہم نے اب تک
اس سلسلہ میں پڑھا ہے وہ درست ہے یا جو موصوف کہہ گئے ہیں وہ درست ہے۔ اس
کی سوچ اورملالہ سوچ میں مجھے کوئی فرق نظرنہیں آتا۔ اس نے بھی اپنی کتاب
میں پاکستان کے خلاف جوکچھ لکھا وہ پڑھنے والے پڑھ چکے ہیں۔ اس نے نظریہ
پاکستان، افواج پاکستان اورپاکستان مسلم لیگ کے خلاف باتیں کرکے بتادیا کہ
اس کا ذہنی معیارکیا ہے۔ ان سب میں نظریہ پاکستان کو فوقیت حاصل ہے۔ ایف اے
کے مطالعہ پاکستان میں نظریہ پاکستان کے بارے میں کچھ یوں لکھا ہواہے۔ کہ
پاکستان ، مملکت خداداد، ایک ٹھوس نظریے کی بنیادپر وجود میں آئی ۔ پاکستان
کے نظریے کی اساس دین اسلام ہے۔ مزارخان نے گویا نظریہ پاکستان کے خلاف
باتیں کرکے اسلام کے خلاف باتیں کی ہیں۔ ایف اے کے مطالعہ پاکستان میں
نظریہ پاکستان بارے اس سے آگے لکھا ہے کہ جو مسلمانوں کی زندگی کے تمام
شعبوں میں رہنمائی کرتاہے ۔ اسلامی نظام حیات انسانی زندگی کے تما م پہلوؤں
کا احاطہ کرتاہے۔ یہ معاشرتی ، اخلاقی، سیاسی، مذہبی اورمعاشی شعبوں کے
حوالے سے بنیادی اصولوں کا حامل ہے۔ اسلامی نظام قرآن پاک اورحضورنبی اکرم
صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی سنت اوراحادیث مبارکہ پراستوارہے۔ یہی نظام ہمارے
پیارے وطن پاکستان کی بنیادقرارپایا۔ برصغیر کے مسلمان انگریز دورحکومت میں
دوسری اقوام کے ساتھ غلامی کی زندگی بسرکررہے تھے۔ وہ
آزاداورخودمختیارریاست چاہتے تھے لیکن انگریزوں کی غلامی سے چھٹکاراپالینے
کے بعد بھی انہیں اپنے مقصدمیں کامیابی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ ہندواکثریت
کا غلبہ صاف نظرآرہا تھا۔ بڑے غوروفکر کے بعد مسلمانوں نے یہ فیصلہ کیا کہ
انگریزوں کی حکومت کے خاتمے کے بعدایسے علاقوں میں ایک مسلم مملکت قائم
ہوجائے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں یوں مسلمان دائمی غلامی سے بھی چھٹکارا
پالیں گے اورایک مخصوص خطہ ء زمین پردین اسلام کے اصولوں کے مطابق نظام
رائج کرنے میں بھی کامیاب ہوجائیں گے ۔یہ سوچ رفتہ رفتہ مضبوط ہوئی اوربالا
ٓخرمسلمانوں کا نصب العین بن گئی ۔ منزل مقصودپانے کے لیے مسلمانوں نے ایک
عظیم تحریک کا آغازکیا۔ علیحدہ اسلامی مملکت کا قیام ایک مقصدبنا اوریہی
مقصدنظریہ پاکستان کی تخلیق کا باعث بنا۔ مزیدلکھا ہے کہ نظریہ اسلام ہی
نظریہ پاکستان ہے۔ حضرت مجددالف ثانی رحمۃ اﷲ علیہ، حضرت شاہ ولی اﷲ، رحمۃ
اﷲ علیہ، سرسید احمدخان، سید احمدشہید، علامہ محمد اقبال اورقائداعظم رحمۃ
اﷲ علیہ جیسی عظیم ہستیوں نے اس پودے کی آبیاری کی ۔ ان کاخواب تھا کہ
مسلمان اسلامی معاشرت، ثقافت، معیشت اوراخلاقیات پر مبنی نظام رائج کریں۔
اوریہ خواب سال ہاسال کی کا وشوں اورقربانیوں کے بعدشرمندہ ء تعبیرہوا۔
بانی ء پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح رحمۃ اﷲ علیہ نے نظریہ پاکستان کی
وضاحت ان الفاظ میں کی ہے پاکستان تو اسی روزہی وجودمیں آگیا تھا جبب
پہلاہندومسلمان ہوا تھا۔ ( پہلا ہندوکب مسلمان ہوا تھا یہ بھی آپ کو بتائے
دیتے ہیں۔ جب سرکاردوعالم صلی اﷲ علیہ والہ واصحابہ وسلم نے اپنی مبارک
انگلی کے اشارے سے حبیب یمنی کے مطالبے پر آسمان پر چاند کو دوٹکڑے کیا۔
ہندوستان میں اپنے گھر میں بیٹھا ہوا یہ منظردیکھ رہا تھا۔ اس نے پنڈت سے
جاکر پوچھا ۔ عرب سے آنے والے تجارتی قافلوں سے تصدیق کی۔ پھر وہ مدینہ
منورہ جاکر رحمت دوجہاں صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے دست مبارک پر مشرف بہ
اسلام ہوگیا۔ قائداعظم رحمۃ اﷲ علیہ کے اس فرمان کی رشنی میں ہم کہہ سکتے
ہیں کہ پاکستان نبی کریم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی ظاہری زندگی میں ہی وجود
میں آگیا تھا) وہ فرماتے ہیں کہ وہ کون سارشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام
مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں۔؟ وہ کون سی چٹان ہے جس پر اس امت کی عمارت
استوارہے ؟ وہ کون سالنگر ہے جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کردی گئی ہے۔وہ
رشتہ ، وہ چٹان، وہ لنگرخداتعالیٰ کی کتاب قرآن مجیدہے۔ طلباء سے مخاطب
ہوتے ہوئے فرمایا ہماراراہنما اسلام ہے اوریہی ہماری زندگی کا مکمل ضابطہ
ہے۔ اسی کتاب میں لکھا ہے کہ علامہ قبال رحمۃاﷲ علیہ نے نظریہ پاکستان کے
حوالے سے دعویٰ کیا کہ ہندواورمسلمان ایک مملکت میں اکٹھے نہیں رہ سکتے
اورمسلمان جلد یا بدیر اپنی جدگانہ مملکت بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
علامہ اقبال رحمۃ اﷲ علیہ نے برصغیر میں واحدقوم کے
وجودکومستردکردیااورمسلم قوم کی جداگانہ حیثیت پرزوردیا( آج کا
دانشورہوتاتو علامہ اقبال رحمۃ اﷲ علیہ کے اس نظریہ کو مستردکردیتا اورکہتا
کہ یہ ہندوستانیوں میں تفرقہ پیداکرنے کی کوشش ہے۔ یہاں کوئی مسلمان کوئی
ہندونہیں ۔ وہ کہتا کہ مذہب کے نام پرانسانوں کو تقسیم کیا جارہا ہے۔ وہ
اپنی دانشوری کا ثبوت دیتے ہوئے کہتاکہ مذہب اورقوم کی کوئی اہمیت نہیں ہے
سب انسان ہیں اورسب انسان برابر ہیں) اسلام کو ایک مکمل نظام مانتے ہوئے
علامہ محمداقبال رحمۃ اﷲ علیہ نے اسی بنیادپر برصغیرکے شمال مغرب میں
علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کا تصورآل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ 1930ء
میں پیش کیا۔انہوں نے واضح کہاکہ ’’انڈیا ایک برصغیرہے ملک نہیں، یہاں
مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے اورمختلف زبانیں بولنے والے لوگ رہتے ہیں ۔مسلم
قوم اپنی جداگانہ مذہبی اورثقافتی پہچان رکھتی ہے۔اخبارات میں اس سلسلہ میں
ایک اورخبر اس طرح شائع ہوئی ہے کہ ماں بولی کے عالمی دن کے موقع پرآوازاین
جی اورصوفی سنگت کے تعاون اوراشتراک سے گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج کوٹ
سلطان میں منعقدہونے والی تقریب میں سینکڑوں طلباء کے جذبات اس وقت مشتعل
ہوگئے جب تقریب کے میزبانوں کے نامزدکردہ مقررمزارخان نے یکسرموضوع سے ہٹتے
ہوئے نظریہ پاکستان، افواج پاکستان اورمسلم لیگ پر شدیدترین قابل گرفت قابل
مذمت الفاظ استعمال کرتے ہوئے غداروطن شیخ مجیب الرحمن کوسیلوٹ پیش کرنے کا
اعلان کیا۔ مقررکے خیالات کاسلسلہ یہیں تک محدودنہ رہا بلکہ مقامی ایم اپی
اے چوہدری اشفاق احمد کوبھی ہدف تنقیدبناتے ہوئے کہا کہ آپ ووٹ سے ایم پی
اے بنے ہیں یا نوٹ سے ہمارے ایم پی اے ہیں۔ مزارخان کے قابل گرفت خیالات
دیکھ سن کرشرکاء محفل کالج انتظامیہ نے روکنے کی کوشش کی مگراس وقت تک
مقرراپناکام کرچکاتھا۔ اسی رپورٹ میں اس سے آگے خوبصورت بات لکھی ہے کہ
اوریہ قابل توجہ اورلمحہ فکریہ بھی ہے کہ پاکستان دشمن کے نظریات وخیالات
کے تائیداورسیلوٹ کرنے اورملک وقوم کی سلامتی سے متعلقہ اہم حساس ترین
اداروں پرکڑی تنقیدکوکسی خطیب کے ذاتی خیالات سمجھ کرنظراندازکردیے جانے کی
روایت اپنالی توکبھی کسی قومی ہیروکی عزت سلامت رہے گی نہ ہی ملک کی شان ۔مزارخان
کے نظریات اورآن دی ریکارڈ گفتگوکے بعدبھی حکمران جماعت کے دوایم پی
ایزپرنسپل کوٹ سلطان سمیت درجنوں گزیٹڈ اساتذہ ، پروفیسرصاحبان سینکڑوں کی
موجودگی میں قابل گرفت خیالات پرسرکاری اداروں حکومتی شخصیات مسلم لیگ
اوردیگر جماعتوں کے قائدین محکمہ کالجزکے ذمہ داران کی خاموشی نسل نوکوکیا
پیغام دے رہی ہے۔ ڈاکٹرجاویداقبال کنجال کہتے ہیں کہ پروفیسرمزمل حسین
کیخلاف پروپیگنڈہ مہم تعصبات اورجھوٹ پرمبنی ہے۔ یہ ڈاکٹرصاحب کے اپنے
خیالات ہیں تاہم عینی شاہدین نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مزارخان نے
متنازعہ تقریرکی ہے۔ مزارخان نے جو کہنا تھاکہہ دیا ۔ پرنسپل بھی خاموش رہے
کہ ان کے بلائے ہوئے تھے۔ وہاں پرموجودمسلم لیگ کے دوممبران اسمبلی بھی
موجودتھے ان کی خاموشی کا کیا مطلب لیاجائے۔ فرض کریں اگر ان کی موجودہ
سیاسی قیادت کے خلاف اس طرح کی گفتگو کی جاتی تو کیا وہ خاموش رہتے اوراسی
طرح کا کرداراداکرتے ۔ وہ تو اسی وقت اس کے خلاف کارروائی کراتے۔ اس جرم
میں مزارخان ہی نہیں اس کے جرم پر خاموش رہنے والے اورنظراندازکرنے والے سب
برابرکے ذمہ دارہیں۔اس طرح کی گفتگو کالج اورسکول میں تو ویسے ہی نہیں کرنی
چاہیے۔ اوربھی کسی فورم پر نہیں کرنی چاہیے۔ نظریہ پاکستان کے خلاف گفتگو
دراصل پاکستان کے خلاف گفتگوہے ۔ اورجو پاکستان کے بارے میں ایسے خیالات
رکھتے ہیں اوران کا پرچاربھی کرتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو پاکستان میں رہنے
کاکوئی حق نہیں ہے۔ وہ یہاں سے چلے جائیں۔ نمک حرام ایسے ہی لوگوں کو کہتے
ہیں۔ وزیراعظم وزیراعلیٰ کو اس کا نوٹس لے کر ڈائریکٹرکالجز سے جواب طلب
کرلیناچاہیے۔ آخری اطلاعات کے مطابق ڈائریکٹرکالجز الطاف حسین بھٹی نے دپٹی
ڈائریکٹرکالجز حافظ محمد اسحاق کو سنیئر پرفیسرزپرمشتمل انکوائری کمیٹی
بنانے کا حکم دے دیا ہے۔اس تحریرکی اشاعت تک انکوائری شروع ہونے کے امکانات
ہیں۔ |