آہنی ہاتھ کا نپا تلا استعمال

تحریر: کامرا ن رانا

طالبان سے مذاکرات میں تعطل کے بعد گو ایک مکتبہ فکر آج بھی مذاکرات کا حامی رہا ہے لیکن آجکل وہ بھی ملکی سالمیت، امن و امان کادشمن گردانتے ہوئے ان کی بیخ کنی کے لئے آہنی ہتھیار استعمال کرنے کی ضرورت پر زور دے رہاہے ۔ کہا جاتا رہا ہے کہ آگے چل کر ملک میں مذاکرات و مذاکرات اور جنگ وجنگ کا ماحول رہے گا۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ مذاکرات اور جنگ ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے، اس لئے قوم کو یکجاہو کر طالبان پر اسی شدت کے ساتھ چڑھائی کر دینا چاہیے اور ان کا پیدا کردہ کوف انہی کو لوٹا دینا چاہیے۔ طالبان کے خلاف بدلتے اس منظرکا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے ناسور سے تنگ آچکی قوم چاہتی ہے کہ اس ناسور سے گلو خلاصی ہو جائے ۔ دوسری جانب باوجود اپنی صفوں میں انتشار محسوس کرنے ، شدید نا اتفاقی و ناچا کی کی بنا اور شک کی بنا پر طالبان ایک دوسرے کو قتل کررہے ہیں۔ نقل مکانی کرنے والے بے گھر ہو رہے لوگ ان طالبان کو بد عائیں دے رہے ہیں جنہوں نے مذاکرات کا آگے بڑھتا عمل ناکام بنا دیا ہے۔ ماضی میں طالبان کے لئے کچھ نرم گوشہ رکھنے والے بھی ان کی خونریزی کی نا ختم ہونے والی خواہش کی بنا ان سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اس وقت ملک میں تمام سیاسی پارٹیاں، علماء و مشائخ اب شدت پسندوں کو راہ راست پر لانے کے لئے کلام نرم و نازک کی بجائے طالبان سے ان کی زبان میں نمٹنے پر زور دے رہے ہیں۔ جن حلقوں کو امید تھی کہ شاید طالبان کی طرف سے اپنی کمیٹی کے توسط مسائل کاحل تلاش کرلیں گے ،یا اپنی سوچ تبدیل کر لیں گے اور مذاکرات کی میز پر آکر حکومت کو اپنے مطالبات پیش کریں گے اوراپنے مسائل حل کر لیں گے یاقومی دھارے میں آکر اس ملک کی بہتری وترقی کے لئے کام کرنے پر آ مادگی کا اظہار کریں گے وہ بھی طالبان سے متنفر ہو چکے ہیں۔ ملک میں تبدیل ہوتے اس منظر کو چین، افغانستان،بھارت اور امریکہ سمیت دیگر بیرون ممالک میں امید کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے ۔حیرت اس بات پر ہے کہ یہ سب دیکھتے ہوئے کہ طالبان ملک میں امن اور امان بحال کرنے کے لئے مذاکرات کی پیش کش کوٹھکرا کر اپنی ضد پر قائم ہیں۔افواج نے جوابی حکمت عملی تحت شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کی بیخ کنی کے لئے بھی آہنی ہاتھ کا نپا تلا استعمال بھی شروع کر دیاہے ۔حکومت عندیہ دے رہی کہ اگر طالبان اپنی بہیمانہ اور قابل نفرت کارروائیوں سے باز نہ آئے تو ان تمام علاقوں میں بھی آپریشن شروع کیا جائے گا جن میں یہ گروہ چھپے بیٹھے ہیں اور جب موقع ملتا ہے معصوم پاکستانیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔لیکن طالبان اپنی کمزوری اور اکھڑتے پاؤں اور بری طرح مسخ شناخت اور ساکھ کے باوجود اب بھی پاکستانی قوم سے زور آزمائی کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ البتہ اپنی متوقع ناکامی اور بربادی پر جس طرح یہ گروہ سٹپٹا رہے ہیں وہ ان کے چہروں سے خوف، نفرت اور بربریت سے عیاں ہے۔ کہتے ہیں اگر آپ کے ساتھ مخلص لوگ ہوں تو مشکل حالات میں گھرا خوف ذدہ شخص بھی کچھ دیر بعدا پنا کھویا ذہنی برقرار رکھ لیتا ہے۔ لیکن اگر کسی ٹولے میں حواس باختہ اور ناقابل اعتماد لوگوں کی تعداد وافر ہوجائے تو اس گروہ کی عمومی سو چیں بے ہنگم ہو جایا کرتی ہیں کیونکہ ان مجموعی طور پر ڈر ہوتا ہے کہ انکی جاسوسی کرنے والے ہر سمت موجو د ہیں ۔ انکے پاس عوام کی قتل وغارت کا کوئی اخلاقی جواز تو پہلے بھی نہیں تھا لیکن آج کل خوف و ہراس کا شکار ہو کر طالبان اپنے ساتھیوں کوقتل کررہے ہیں۔ پاکستانی معاشرے کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کامنصبوبہ بنا یاتھا جو اس وقت مکمل طور پر ناکام ہوتا نظر آرہا ہے۔لیکن اس وقت بھی شدت پسندوں کے کئی نظریہ ساز سیاسی و مذہبی رہنما ؤں اور عوام کو مغالطوں اور جذباتی کشمکش میں پھنسانے کے لئے ہر قسم کا پراپیگنڈہ کرنے پر تلے ہیں،لیکن انہیں معلوم ہو چکا ہے کہ اب انکو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑیگا۔ اب ان کی دھمکیوں اور ان کے پھیلائے دام میں پاکستانی قوم نہیں آنے والی۔ لیکن یہ لوگ دھمکیاں اورایسے بیانات رہے ہیں جو ان کے جارحانہ اور مذموم عزائم کے حصول کی ناکام کوشش ہے۔ یقینا اب ان ظالمان کو اپنی نیت کے تنائج بھگتنے پڑرہے ہیں۔جس طرح کسی جنگی یاہنگامی حالت یا دھمکی آمیزصورتحال میں دوسرے ملک سے سفارت کار واپس بلا لئے جاتے ہیں، فوجوں کو چوکس کیا جاتا ہے یا کارروائی کیلئے روانہ کیا جاتا ہے ۔تعلقات توڑ لئے جاتے ہیں۔ خطرناک صورت کا مقابلہ کرنے کے لئے عسکری قوت کا اظہار کیا جاتا ہے اور عوام میں دشمن سے لڑنے کا جذبہ موجزن ہو جاتا ہے اسی طرح آج یہ قوم اندرونی دشمن سے نبرد آزما ہونے کے لئے تیار نظر آتی ہے۔ آج پاکستان کی سیاسی قیادت وعسکری قوت، میڈیا، مشائخ اور سماجی رہنما طالبان کی پیدا کردہ دھمکی آمیز صورت حال کا سامنا کرنے کے لئے ایک ہو چکے ہیں۔اب عوام نے فیصلہ کر لیا ہے کہ لاتوں کے بھوتوں کو باتوں سے راہ راست پر نہیں لایا جا سکتا۔ لوگوں کی تائید و حمایت کے محروم شدت پسند اب لوگوں کو کسی جال میں نہیں پھنسا سکتے۔ طالبان کی حرکتوں پر پر نظر رکھنے والے کسی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ انکے اندر ٹوٹ پھوٹ اور اپنی اخلاقی کمزور یوں و ذہنی انحطاط کی بنا پر یہ گروہ اپنی شناخت کو برقرار رکھنے کی آخری کوششیں کررہا ہے لیکن اب کی بار انہیں ناکامی ہی ہوگی ۔کہتے ہیں کچھ لوگ لڑنے مرنے کے بعد ہی مذاکرات کی طرف آتے ہیں۔ لیکن مذاکرات کا اونٹ کسی کروٹ نہ بیٹھ رہا ہو تو اس کو بٹھانے کا عمل ایک مربوط حکمت عملی کے تحت ہوتا ہے۔ لیکن ماضی میں مذاکرات کے لئے جس طرح کی حکمت عملی اپنائی گئی ہے اور جس طرح مذاکرات ناکام ہوئے یا کسی نے ناکام کر دئے یہ ہمارے ارباب ِ ختیار کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ہمارے پاس ایسے زیرک لوگوں کی کمی نہیں ہے جو مذاکرات کو پایا تکمیل تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ ایسی بھر پور حکمت عملی تیار کی جا سکتی جس سے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لایا جا سکتا ہو۔دہشت گردی کے اس عفریت کو دوبارہ بوتل میں بند کرنے لے لئے ہمیں ان عوامل اور حالات کو سمجھنے کی ضرورت ہے جن میں جنگ اور مذاکرات کا ماحول بنتایاخراب ہوتا ہے ۔ اس وقت آہنی ہاتھ کا نپا تلا استعمال ضروری ہے تاکہ طالبان کو نانی یاد آجائے۔
Muhammad Amjad
About the Author: Muhammad Amjad Read More Articles by Muhammad Amjad: 17 Articles with 15478 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.