پاکستانی حکمرانوں کو ہمیشہ سے
غیر ضروری مسائل میں الجھنے کا شوق رہا ہے یہاں کے سیاستدان بھی غیر اہم
اور غیر منطقی امور میں اپنا وقت برباد کرنا ہی عبادت سمجھتے ہیں یہاں
قیادت قوم کو ایسے مسائل سے روشناس کرواتی ہے کہ جن کے حل ہونے کے کوئی
امکانات نہیں ہوتے ہیں اور اگر ایسے مسائل حل بھی ہو جائیں تو قوم کو ان کا
کوئی خاطر خواہ فائدہ بھی نہیں ہو تا ہے اب ہمیں یہ بات تسلیم کر لینی
چاہیے کہ ہم کوئی مثالی ملک نہیں ہے اور کسی بھی مثالی ملک کی روایات ہم پر
لاگو نہیں ہوتی ہیں قانون ،آئین اور اقدار کا درس دینے والوں کو اب اس قوم
پر رحم کرنا چاہیے غیر ضروری مسائل کو اہم نوعیت کے قومی مسائل بنا کر قوم
کے سامنے پیش کرنے کی اب روایت ختم ہونی چاہیے ۔ برقی اور اخباری ذرائع
ابلاغ کو بھی ذمہ داری کا ثبوت دینا ہو گا اورقوم کو اسے درپیش حقیقی مسائل
سے روشناس کروانا ہو گا اور ان مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کرنا ہو گی ۔ملک
میں آج کل مشرف کا ہی چرچہ ہے اور یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہی شخص اس وقت
سب سے اہم ہے قوم کے سامنے اس سے ہی متعلق سوالات رکھے گئے ہیں ان سولات کے
جوابات کے ملنے یا نہ ملنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔مشرف کو سزا ہوتی ہے یا
وہ ملک سے باہر جاتے ہیں اس سے قوم کی تقدیر کا کیا لینا دینا ہے اس حقیقت
سے کون انکار کر سکتا ہے کہ پاکستان میں دو متوازی قوتیں نظام مملکت چلاتی
رہی ہیں سیاسی اور فوجی قوت نے اس ملک پر خوب حکمرانی کی ہے جب سیاسی حکومت
کرپشن کی حدیں پار کرنے لگتی ہے تو فوجی حکومت قائم ہو جاتی ہے کچھ سال وہ
ملک کو ترقی کی راہ پر لانے کے لیے اقدامات کرتے ہیں پھر جب وہ بھی ملک کے
لیے باعث نقصان بننا شروع ہوتے ہیں تو سیاستدان آگے بڑھ کر باگ دوڑ سنبھال
لیتے ہیں کچھ عرصہ وہ قوم کے لیے کام کرتے ہیں پھر وہ راستے سے بھٹک جاتے
ہیں پھر فوج کو آنا پڑتا ہے اس کھیل تماشے میں بیرونی دوست بھی سرگرم ہوتے
ہیں ان کی اپنی دوستیاں اور مفادات یہاں موجود ہیں اس بات کا فیصلہ تاریخ
پر چھوڑ دینا چاہیے کہ کس نے بہتر انداز میں ملک کی خدمت کی ہے ماضی میں جو
کچھ ہو چکا ہے اس کو اب ہم بدل نہیں سکتے ہیں ہاں البتہ ماضی سے سبق ضرور
سیکھنا چاہیے اور ایسے اقدامات سے پرہیز کرنا چاہیے جو ہمارے لیے مشکلات کا
سبب بن سکتے ہیں ہمیں اپنے حافظے کو بھی مضبوط بنانا ہو گا ابھی کل ہی کی
بات ہے کہ جب فوج نے اپنے تین ریٹائرڈ جنریلوں کو دوبارہ یونیفارم پہنا کر
اپنے مرکزی دفتر میں بیٹھا رکھا ہے سول تحقیقاتی ادارے ان سے این ایل سی
میں کرپشن کے کسی مقدمے میں ملوث ہونے پر سوالات کرنا چاہتے تھے اب ان کا
کیا ہوا کسی کو معلوم نہیں ہے آئین اور قانون کی بالادستی کی بات کرنے
والوں کو اس سمیت تمام دیگر امور بھی ذہین میں رکھنے چاہیے ہمارے ہاں بہت
سے امور پر صرف نگاہ برتی جاتی رہی ہے اور اسی فارمولے کے تحت آگے کی طرف
کا سفر جاری رہا ہے لہذا مشرف کے مسلے پر اتنا واویلا کیسا ہے ؟ماضی کے
واقعات سب کچھ بتاتے ہیں تاریخ میں اس مقدمے کا فیصلہ بھی موجود ہے ذرا
دھیان دینے کی ضرورت ہے اور تاریخ یہاں بھی اپنے آپ کو دہرائی گی کیونکہ اب
تک اس مقدمے کے تفتیش کار سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت کے بیان کو اس مقدمے
کا حصہ نہیں بنا رہے ہیں اس بیان کے مطابق تین نومبر کے مشرف کے فیصلے میں
پوری کابینہ کی مشاورت شامل تھی یہ کیسے ممکن ہے کہ ایسے مقدمے میں
سیاستدان تو صاف بچ جائیں اور ایک یونیفارم پرسن پھانسی پر لٹک جائے کیا
ایسا کوئی ہونے دے گا؟آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اپنی قوم اور ملک کے
مستقبل کی فکر کرنی چاہیے اور ان کے بارے میں سوچنا چاہیے جمہوریت ہی
بہترین انتقام ہے ہمیں اس فلسفے کو سمجھنے کی ضرورت ہے ہمیں حقیقی معنوں
میں جمہوری سوچ اپنانے کی ضرورت ہے ہماری 66سالہ تاریخ میں سیاستدانوں کی
کارکردگی کو بھی پرکھنا ہو گا اگر ان کا کردار مثالی ہوتا تو آج ملک میں
آئین اور قانون کی یوں پامالی نہ ہوتی ۔سیاستدان اپنے عوام کے لیے کچھ غیر
معمولی کام کر ہی نہیں سکے جس کی بدولت غیر سیاسی قوت کا خوف ان پر بھاری
ہے اگر ہمارے ملک کی سول قیادت آج بھی پاکستان کے عوام کے لیے دل و جان سے
خدمت کا عہد کرے تو یقینا ان کے لیے آسانیاں پید اہوں گی۔جب سیاسی دور میں
عوام غربت ،افلاس ،مہنگائی،لاقانونیت،دہشت گردی کی چکی میں پستے ہیں تو وہ
دوسری قوت کی طرف دیکھتے ہیں آج ملک میں توانائی کا ایک بحران موجود ہے
بجلی اور گیس مکمل غائب ہے عوام بھوک اور غربت سے نڈھال ہیں نئی حکومت بھی
اب تک ان کے لیے کچھ نہیں کر سکی ادھر اُدھر کی باتوں کے سوا انہیں نے دیا
ہی کیا ہے لہذا آج حکومت اور سول قیادت کو چاہیے کہ وہ آرٹیکل 6کی بجاے
عوام کی حالت ذار پر توجہ دیں اگر سیاست دان عوام کی خلوص نیت کے ساتھ خدمت
کریں گے تو پھر کسی کو جمہوریت پر شب خون مارنے کی ہمت نہ ہو گی اور اگر وہ
یوں ہی مایوس کرتے رہے تو آرٹیکل 6کل بھی موجود تھا اورکل بھی یہ مارشل لاء
کا راستہ نہیں روک سکے گا۔ |