وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار
علی خان نے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات پہلی ترجیح ہے، مذاکرات
کامیاب نہ ہوئے تو دوسرا راستہ اختیار کیا جائیگا جبکہ وزیر اعظم کے مشیر
خارجہ سرتاج وزیز کا کہنا ہے کہ مذاکرات فائدہ مند نہیں ، سرجیکل سٹرائیکس
کے مثبت نتائج برآمد ہوئے ، دوہفتوں میں دفاعی اور خارجہ پالیسی بھی پیش
کریں گے ۔وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ملک کے گلی کوچوں میں پرتشدد
کارروائیاں مزید برداشت نہیں کرینگے ، دہشتگردی جہاں سے ہو گی اس کا بھرپور
جواب وہیں سے دیا جائیگا، امن کی بحالی میں حائل ہر رکاوٹ کو ختم کر دینگے
، انہوں نے کہا کہ ہم مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں اور ہمیشہ اولین ترجیح
مذاکرات ہی رہی ہے ۔ بات چیت انہی سے ہو گی جو پاکستان کے مخالف نہیں، ایسے
لوگوں سے رابطے میں ہیں لیکن اب تشدد کی کارروائیاں قابل برداشت نہیں ہیں،
مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو دوسرا راستہ اختیار کیا جائے گا۔
وزیر داخلہ اور مشیر داخلہ کے یہ متضاد موقف اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں
کہ حکومتی ایوانوں میں سوچ کے زاویئے بدلتے اوربگڑتے ہیں ،یکسوئی اور
سنجیدگی کا بھی فقدان ہے وزیر اعظم کا موقف تو ٹھوس ہے اور وہ سپہ سالار کو
کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردوں کا صفایا کرکے حکومت کی رٹ کا بحال کیا جائے
جبکہ وزیر داخلہ اب بھی دہشت گردوں سے اس بات کی توقع کئے بیٹھے ہیں کہ وہ
ان کی بات مان لیں گے اور جس طرح حکومت چاہے گی اسی طرح ہوگا مگر زمینی
حقائق اس کے برعکس ہیں ۔ وزیر داخلہ کسا کہنا تھا کہ ملکی سلامتی کے بارے
میں اہم فیصلے کرلئے ہیں،فیصلوں کا باقاعدہ اعلان آئندہ چند روز میں کردیا
جائے گا ۔ وزیراعظم جلد چاروں وزرائے اعلی کا اجلاس بلائیں گے ، وفاق نے جو
کچھ کرنا ہے اس کا تعین کیا جائیگا اور قومی سلامتی پالیسی کے حوالے سے
صوبوں کا کردار بھی متعین کرینگے ۔ وہ پشاور میں ایف سی اہلکاروں کی شہادت
پر اظہار تعزیت کے بعد وزیراعلی خیبرپختونخوا پرویزخٹک اور گورنر انجینئر
شوکت اﷲ کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے ۔ وزیر داخلہ نے اس عزم کا
اظہار بھی کیا کہ اب امن وامان پر کوئی سیاست نہیں ہو گی، یہ پاکستان کے
مستقبل کی جدوجہد ہے ، حکومت پارٹی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی
مفادات کے تحت کام کر رہی ہے ۔ امن کی بحالی میں حائل ہر رکاوٹ ختم کرینگے
۔مذاکرات کے ساتھ دہشتگردی جاری رہنے پر یہ طے کیا ہے کہ جس گلی کوچے میں
پرتشدد کارروائیاں ہونگی اس کا جواب وہیں سے دیا جائے گا، حکومت ملک میں
سات سال سے جاری جنگ کا خاتمہ چاہتی ہے ، ہم ان گروپوں کے ساتھ رابطے میں
ہیں جو پاکستان مخالف نہیں اور کبھی پاکستان کے مفادات کو نقصان نہیں
پہنچایا۔ جو لوگ حکومت کے ساتھ خلوص دل سے بات کرینگے ان کے ساتھ ہم بھی
خلوص دل کے ساتھ بات چیت کرینگے ۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ملک میں 26
خفیہ ایجنسیاں ہیں لیکن ملٹری اور سول ایجنسیوں کی چین آف کمانڈ نہیں ہے
اسی لئے جوائنٹ انٹیلی جنس ایجنسی ڈائریکٹوریٹ قائم کرنے جا رہے ہیں۔ پنجاب
اور خیبر پختونخوا نے اس پر عمل کیا ہے ، بلوچستان اور سندھ کو بھی کام
کرنا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا اور سیاستدان ذاتی مفادات پس پشت رکھ
کر امن قائم کرنے کی کوششوں کا ساتھ دیں۔
وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی اور امور خارجہ سرتاج عزیز کا یہ کہنا
درست ہے کہ طالبان کے ساتھ اب تک کیے گئے مذاکرات زیادہ فائدہ مند ثابت
نہیں ہوئے تاہم ایسا نہیں کہ مذاکرات کا سلسلہ ختم ہو گیا ، مذاکرات جاری
ہیں لیکن مثبت نتائج برآمد نہیں ہو رہے ، شمالی وزیرستان میں دہشتگردوں کو
نشانہ بنایا جا رہا ہے اور سرجیکل سٹرائیکس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں۔
مقامی ہوٹل میں بین الاقوامی سیمینارسے خطاب اور بعدازاں میڈیا سے گفتگو
کرتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہا کہ قومی سلامتی نہیں داخلی سلامتی پالیسی پیش
کی ، ابھی پالیسی کا پہلا فیز آیا ہے ، آپریشنل حصہ انتہائی اہمیت کاحامل
ہے ، ملکی دفاع اور دیگر امور پر پالیسیوں کی تشکیل آخری مراحل میں ہے ،
اسی طرح آئندہ 2 ہفتوں میں دفاعی اور خارجہ پالیسی بھی پیش کرینگے ۔ سرتاج
عزیز نے کہا کہ شام پر پالیسی تبدیلی نہیں ہوئی، شامی باغیوں کو پاکستان سے
اسلحہ فراہم کرنے کی باتیں بالکل بے بنیاد ہیں، نہ ایسی کوئی تجویز آئی ہے
۔سعودی عرب ہم سے ہتھیار نہیں خریدتا ہم صرف ٹریننگ دیتے ہیں۔ سعودی عرب
دنیا بھر سے ہتھیار خرید رہا ہے اور وہ نہیں سمجھتے کہ سعودی حکام ہمارے
ہتھیار خریدیں گے کیونکہ ہمارے ہتھیار اتنے اچھے نہیں ہیں۔
مشیر داخلہ کا یہ کہنا کہ ہمارے ہتھیار اتنے اچھے نہیں ہیں اس اعتراف نے
اگر درست ہے تو ہماری دفاعی صلاحیت پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے ۔سوال یہ
ہے کہ کیا ہمارے ہتھیار تیار کرنے والے ادارے کم مویار کے ہتھیار تیار
کررہے ہیں اور کیا یہ عالمی معیار کے مطابق نہیں ہیں ۔دنیا کے کئی ممالک
پاکستانی ساختہ ہتھیاروں کے خریدار ہیں اور گولہ بارود بھی ایکسپورٹ کیا
جاتا ہے ۔کیا سا اعتراف ے ہماری دفاعی صلاحیت پر سالات کھڑے نہیں ہونگے
۔سوشنے کی بات یہ ہے کہ مشیر خارجہ نے یہ بات کی ہے تو اس کا کوئی پس منظر
بھی تو ہوگا اور ان کے علم میں کوئی ایسی بات ضرور آئی ہوگی جس کی بنیاد پر
انہوں نے یہ بات کہہ ڈالی ہے ۔
امیر جماعت اسلامی کے امیر کا یو ٹرن ،دیر آید درست آید۔۔۔ ا میر جماعت
اسلامی سیدمنورحسن کے گزشتہ چند ماہ سے فوج کے بارے میں بیانات پر پاک فوج
کے ترجمان سمیت قومی حلقوں کی طرف سے شدید ردعمل آیا تھا موصوف منور حسن نے
پاک فوج کے شہداء کی شہادت کو تسلیم کرنے سے انکار کا فتویٰ جڑ دیا تھا اور
کئی سوالات اتھائے تھے جب تر جمان پاک فوج نے ان کے بیان پر پریس ریلیز
جاری کیا اور ان کا محاسبہ کیا گیا تو جماست اسلامی کی طرف سے اپنے موقف پر
ڈٹ جانے کی پالیسی اختیا ر کی گئی تھی اب انہوں نے گزشتہ روز اپنی پالیسی
پر نظر ثانی کرتے ہوئے پاک فوج کے غق میں بیان دے کر چونکا دیا ہے ۔انہوں
نے کہاہے کہ قوم کو عسکری اور سیاسی اداروں پر مکمل اعتماد ہے،دہشت گردوں
کیخلاف کارروائی کی پوری قوم حمایت کرے گی، یہ ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے،
دیکھنا یہ ہے کہ دہشت گرد کون اور طالبان کون ہیں ، مذاکراتی کمیٹیاں اجلاس
بلا کر حکومت اور طالبان کو میز پر بٹھانے کی کوشش کریں ۔منصورہ میں جاری
تین روزہ کسان کنونشن کے دوسرے روز خطاب اور بعد ازاں میڈیا کے نمائندوں سے
گفتگو میں سید منورحسن نے کہا کہ عسکری قیادت کی طرف سے کچھ طالبان گروپوں
کو ’’را ‘‘اور سی آئی اے کی سرپرستی حاصل ہونے کا انکشاف کیا گیاہے ، اس سے
قبل بلوچستان کے حوالے سے بھی بھارتی و امریکی سازشیں بے نقاب ہو چکی ہیں
جس کی طرف جماعت اسلامی نے بھی بارہا توجہ دلائی ہے،حکومت کی طرف سے ان
گروپوں کیخلاف کارروائی کرنے اور دیگر طالبان گروپوں سے مذاکرات کرنے کی
پالیسی قومی امنگوں کی عکاس ہے ۔’’قوم کو اپنے عسکری اور سیاسی اداروں پر
مکمل اعتماد ہے‘‘دہشتگردوں کے خلاف جو بھی کارروائی کی جائے گی پوری قوم اس
کی حمایت کرے گی ، بے اختیار کمیٹیاں اچھے بیانات تو دے سکتی ہیں مگر مسائل
حل کرنے میں بھر پور کردار ادا نہیں کر سکتیں ،دونوں کمیٹیاں اپنا اجلاس
بلا کر حکومت اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے کی کوشش کریں۔
میری حقیر رائے میں امیر جماعت اسلامی نے دانشمندی کا ثبوت دیا ہے اور اس
سے قبل جماعت پاک فوج کی پشتیبانی کرتی رہی ہے اور اس نے پاک فوج کی
قربانیوں کا برملا اعتراف کیا ہے ۔اب انہوں نے مذاکرات کی شروعات کا پھر
مطالبہ کیا ہے ۔کون کس کو میز پر بٹھانے کی کوشش کرے اس سے قطع نظر اب پانی
پلوں کے نیچے سے بہت تیزی سے بہہ رہا ہے اب بند باندھنے کی کوششیں بے سود
ثابت ہونگی۔جب کالعدم تحریک طالبان کہہ چکی ہے کہ حکومت آپریشن کا شوق پورا
کرلے طالبان من مانی کرتے رہیں گے اس کے بدر کیا جواز رہ جاتا ہے مذاکرات
کا ۔
ا میر جماعت اسلامی سیدمنورحسن کے گزشتہ چند ماہ سے فوج کے بارے میں بیانات
پر پاک فوج کے ترجمان سمیت قومی حلقوں کی طرف سے شدید ردعمل آیا تھا موصوف
منور حسن نے پاک فوج کے شہداء کی شہادت کو تسلیم کرنے سے انکار کا فتویٰ جڑ
دیا تھا اور کئی سوالات اتھائے تھے جب تر جمان پاک فوج نے ان کے بیان پر
پریس ریلیز جاری کیا اور ان کا محاسبہ کیا گیا تو جماست اسلامی کی طرف سے
اپنے موقف پر ڈٹ جانے کی پالیسی اختیا ر کی گئی تھی اب انہوں نے گزشتہ روز
اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے پاک فوج کے غق میں بیان دے کر چونکا دیا
ہے ۔انہوں نے کہاہے کہ قوم کو عسکری اور سیاسی اداروں پر مکمل اعتماد
ہے،دہشت گردوں کیخلاف کارروائی کی پوری قوم حمایت کرے گی، یہ ایک فیصلہ کن
مرحلہ ہے، دیکھنا یہ ہے کہ دہشت گرد کون اور طالبان کون ہیں ، مذاکراتی
کمیٹیاں اجلاس بلا کر حکومت اور طالبان کو میز پر بٹھانے کی کوشش کریں ۔ |