روس یوکرائن میں سیاسی تبدیلی

گزشتہ جمعہ کو یوکرائن کے دارالحکومت کیف KIEV میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان پرتشدد ہنگاموں کے بعد ایک عبوری حکومت قائم کی گئی تھی۔ ان ہنگاموں میں ایک سو کے لگ بھگ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس سے قبل یورپین یونین کے تین ملکوں فرانس ، جرمنی اور پولینڈ کے وزرائے خارجہ نے کیف کا دورہ کیا تھا اور مغرب نواز مظاہرین اور روس نوازصدر صدر وکٹر یانوکووچ Victor Yanukouych کے درمیان شراکتِ اقتدار کے حوالے سے ایک معاہدہ کروانے مین خامیاب ہوگئے تھے۔ صدر یانوکووچ نئے انتخابات کروانے صدارتی اختیارات کم کرنے پر راضی ہو گئے تھے۔ تاہم اس معاہدے کے فوراً بعد خوں ریز ہنگامے شروع ہو گئے جس کے نتیجے میں یوکرائن میں ڈرامائی تبدیلیاں سامنے آئیں۔

روسی پارلیمنٹ کی طرف سے صدر ولادیمیر پیوٹن کو مشرقی یوکرائن میں فوج بھیجنے کی قرارداد منظور ہونے کے بعد اب اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ روس یوکرائن میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلی کے بعد اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ امریکہ اور نیٹو موجودہ حالات میں صرف اخلاقی اور سفارتی دباو ہی ڈال سکتے ہیں۔ان حالات میں صدر وکٹر یانوکووچ کو جان بچا کر روس جا کر پناہ لینا پڑی۔ چند روز روپوش رہنے کے بعد گزشتہ روز انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا ہے کہ وہ بدستور یوکرائن کے صدر ہیں اور وہاں پر حکومت پر ناجائز طور سے قبضہ کیا گیا ہے۔ اس اعلان سے قبل ماسکو کی طرف سے یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ وہ یوکرائن کی روسی نڑاد آبادی کے تحفظ کے لئے ہر ممکن اقدام کرے گا۔ اسی کے ساتھ ہی مشرقی یوکرائن کے صوبے کریمیا میں روس نواز مسلح دستوں نے سرکاری عمارتوں پر قبضہ کر لیا اور اطلاعات کے مطابق کریمیا کے دو ہوائی اڈے اس وقت روسی فوج کی نگرانی میں ہیں۔

یوکرائن کی عبوری حکومت نے فوج کو تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ نیٹو سے امداد کی اپیل بھی کی گئی ہے۔ قائم مقام وزیراعظم آرسینے یاتسے نک Arseny Yatseniuk نے دارالحکومت میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر روس نے یوکرائن میں فوجی مداخلت کی تو یہ اعلان جنگ ہو گا اور اس کا مقابلہ کیا جائے گا۔ اس قسم کی فوجی مداخلت سے یوکرائن اور روس کے درمیان تعلقات ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں گے۔اگرچہ یوکرائن کی عبوری حکومت کی طرف سے سخت الفاظ استعمال کئے جا رہے ہیں لیکن اس کے پاس روسی مداخلت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ ابھی تک روس نے باقاعدہ فوج کشی کا اعلان تو نہیں کیا لیکن اگر یوکرائن کی مرکزی حکومت نے روسی آبادی پر مشتمل مشرقی یوکرائن پر اپنی مرضی زبردستی ٹھونسنے کی کوشش کی تو روس فوج بھیجنے میں دیر نہیں کرے گا۔

گزشتہ روز امریکہ کے صدر باراک اوباما اور روسی صدر پیوٹن کے درمیان ٹیلی فون پر 90 منٹ طویل گفتگو ہوئی ہے۔ صدر اوباما نے یوکرائن میں روسی مداخلت کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ جبکہ روس کے صدر نے واضح کیا ہے کہ روس یوکرائن کی روسی نڑاد آبادی کے تحفظ کا ضامن ہے اور اس سے روگردانی نہیں کر سکتا۔ انہوں نے امریکی صدر کو بتا دیا ہے کہ روس یوکرائن میں روسی بولنے والے باشندوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے ہر ممکن اقدامات کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔اس دوران یورپ کے مختلف ملکوں کے روابط بھی جاری ہیں اور نیٹو کی طرف سے بھی نہایت تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ جلد ہی نیٹو یوکرائن کے حوالے سے ایک میٹنگ منعقد کرنے والا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے کئی اجلاس ہو چکے ہیں۔ تاہم نیٹو اور اقوام متحدہ اس معاملہ میں کوئی مؤثر کردار ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یوکرائن میں گو کہ مغرب نواز عبوری حکومت قائم ہے لیکن یہ ملک نیٹو اشتراک کا حصہ نہیں ہے۔ اس طرح نیٹو کے پاس یوکرائن کی فوجی امداد کا کوئی جواز موجود نہیں۔ جبکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس کو ویٹو کا اختیار حاصل ہے۔ وہ اپنے مفاد کے خلاف کسی قسم کی قرارداد کو منظور نہیں ہونے دے گا۔ ان حالات میں مغربی ممالک اور امریکہ یوکرائن کی صورتحال پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

روس میں صدر پیوٹن کے مؤقف کو اپنے عوام میں وسیع پذیرائی حاصل ہے۔ روس کے عوام محسوس کرتے ہیں کہ سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد دنیا میں ان کی عزت افزائی میں کمی واقع ہوئی تھی اس لئے موجودہ بحران میں روس اپنی فوجی قوت کا مظاہرہ کر کے اس وقار کو بحال کر سکتا ہے۔ اسی طرح مشرقی یوکرائن کی روسی نڑاد آبادی بھی روس کی مداخلت کا خیر مقدم کرے گی۔ان حالات میں یوکرائن کی حکومت اور مغربی ممالک کے پاس محض ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اخلاقی اور سفارتی دباو کے ذریعے روس کو اس بات پر قائل کرنے کی کوششیں کریں کہ وہ یوکرائن کے مزید ٹکڑے کرنے میں کردار ادا نہ کرے۔ اس وقت یوکرائن کی 46 ملین آبادی میں ایک تہائی روسی نڑاد ہیں جو زیادہ تر مشرق اور جنوب میں آباد ہے۔ ان علاقوں میں گزشتہ ہفتے کے دوران مسلسل روس کی حمایت میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اس طرح کسی کو اس بارے میں شبہ نہیں ہے کہ ان علاقوں کے عوام روس کی مداخلت اور حمایت کی توقع بھی کر رہے ہیں اور اس کا استقبال بھی کریں گے۔

یوکرائن نے 1991ء میں سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد خود مختار مملکت کی حیثیت اختیار کی تھی۔ اس کے بعد سے جرمنی کی سرکردگی میں یورپی یونین مسلسل یوکرائن کو اپنے زیر اثر لانے کے لئے کام کرتی رہی ہے۔ یوکرائن کے لیڈروں کی طرف سے بھی یورپین یونین میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے یوکرائن کی حکومت اور یورپی یونین کے درمیان چند معاہدوں کو حتمی شکل دی گئی تھی۔ نومبر میں صدر یانوکووچ نے ان معاہدوں پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ جس کے بعد یوکرائن میں دھرنے اور مظاہرے شروع ہوئے تھے۔

یوکرائن کی روسی آبادی اور روسی حکومت یوکرائن کے یورپی یونین کے حصہ بننے کے خلاف ہے۔ روس یوکرائن کو سابقہ سوویت ریاستوں کے اقتصادی اشتراک میں شامل رکھنا چاہتا ہے۔ ایک ہی ملک کے اندر اس قدر سنگین سیاسی اختلاف کی موجودگی میں مسئلہ حل کرنے کے لئے درمیانی راستہ تلاش کرنا ضروری تھا۔ لیکن یورپ کی طرف سے اس حقیقت کو نظر انداز کیا گیا۔ یورپی لیڈروں کو یوکرائن کی منڈی میں دلچسپی تھی اور وہ یہ سمجھتے رہے ہیں کہ ملک کی واضح اکثریت یورپ کی حامی ہے۔ اس لئے یوکرائن کو اپنے ساتھ ملانا مشکل نہیں ہو گا۔ اب عجلت میں اختیار کی گئی یہ حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے۔ اس کھینچا تانی میں یوکرائن کو خانہ جنگی اور روس کے ساتھ براہ راست تصادم کے قریب دھکیل دیا گیا ہے۔اقوام متحدہ ، امریکہ اور یورپ کی طرف سے اگرچہ اب یہ مؤقف سامنے آیا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے معاملات طے ہونے چاہئیں تاہم یہ بات بھی روس اور مشرقی یوکرائن کی روسی آبادی کے پیش نظر ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ان کے مفادات کے برعکس یوکرائن کو یکطرفہ طور پر یورپی یونین کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ان حالات میں یہ تنازعہ آسانی سے حل نہیں ہو گا۔

مبصر ین کا کہنا ہے کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ یوکرائن کے رہنما آپس میں مل کر ملک کی خود مختاری قائم رکھنے کے لئے غیر جانبدارانہ پالیسی اختیار کرنے کی کوشش کریں۔ تاہم گزشتہ چند دنوں میں حالات جس تیزی سے تبدیل ہوئے ہیں، ان کی روشنی میں اس بات کا امکان کم ہو گیا ہے۔ یوں لگتا ہے امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان جاری رہنے والی سرد جنگ کا دور واپس آ رہا ہے۔ اس سفارتی اور سیاسی تصادم کو بڑی طاقتوں کے لیڈر فراست اور مثبت عملی اقدامات سے ہی حل کر سکتے ہیں۔ فی الوقت یہ رویہ دکھائی نہیں دیتا۔

Arif Gillani
About the Author: Arif Gillani Read More Articles by Arif Gillani: 2 Articles with 1212 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.