میرا ایک غیر ملکی مسلمان صحافی دوست ہے جس سے اکثر مختلف
موضوعات پر بات چیت ہوتی رہتی ہے۔وہ جس ادارے کیلئے خدمات دے رہا ہے اس
ادارے نے اسکی ذمہ داری پاکستان کے حوالے سے رپورٹنگ کرنے پر لگا رکھی ہے۔
وہ مجھے اکثر کہتا ہے کہ پاکستان کے نظام کی سمجھ نہیں آتی کہ یہاں اصل
اختیار کس کے پاس ہوتا ہے ؟ نظام کیسے چل رہا ہے؟ میں اسے یقین دلانے کی
کوشش ضرور کرتا ہوں کہ یہاں نظام بہتر ہو رہا ہے لیکن وہ نہیں مانتا۔اس نے
مجھے بارہا کہا کہ پاکستان کی کوئی قومی سلامتی پالیسی ہی نہیں ہے تو اس کا
نظام کیسا ؟ سیاسی پختگی ہی نہیں تو بہتری کیسی ؟ میں اس پر چپ کر جاتا
کیونکہ مجھے پاکستان کی آفیشل ویب سائٹ اور گوگل پر تلاش کے باوجود قومی
سلامتی پالیسی نام کی کوئی چیز نہ ملتی تھی۔ آج قومی سلامتی پالیسی کی
منظوری کو ایک ہفتے سے زائد دن ہو چکے، اس پر اہم مندرجات جو سامنے آئے ان
کو کافی تفصیل سے پڑھنے کے بعد اس پر لکھنے کا موڈ بنا ۔لیکن اس سے پہلے آپ
کے ساتھ کچھ روز قبل کا ایک واقعہ شیئر کرنا ہے ۔ چند روز قبل اپنی دادی
جان کی میڈیکل رپورٹس کوچیک کرانے کی غرض سے راولپنڈی میں واقع سی ایم ایچ
میں اپنے ایک کزن کے ساتھ جانا ہوا ۔ مین گیٹ پر ایک سپاہی نے روک دیا
،قومی شناختی کارڈ طلب کی گیا تو وہ پیش کر دیا ۔پوچھا گیا کہ ہسپتال کیوں
جا رہے ہو ؟ بتایا کہ یہ کام ہے ؟کہا گیا رپورٹس دکھاؤ، وہ نکال کے دکھا
دیں۔ اتنی دیر میں وہاں ا یک درجن سے زائد دیگر گاڑیوں پر سوار لوگ بنا
قومی شناخت کارڈ دکھائے اور ان سوالات کے جوابات دیئے جا چکے تھے ۔ میں نے
جاتے جاتے سپاہی سے یہ پوچھنے کی گستاخی کر لی کہ آپ ہم سب لوگوں کی ایک
جیسی چیکنگ اور پوچھ کچھ کیوں نہیں کر رہے ؟ سپاہی نے بازو سے پکڑ کر جواب
دیا ' ہم کسی کے پابند نہیں ،سوال جواب نہ کرو'۔میں نے عرض کیا کہ ایک شہری
کو سوال کرنے کا حق بھی تو ہونا چاہیے ۔ جواب ملا ۔کون سا شہری ؟ اس عوام
اور ان شہریوں نے ہی تو ملک کا برا حال کیا ہے ۔ ہم جو چاہے کریں ،اتھارٹی
کے بناء کسی کو ہم سے کچھ بھی پوچھنے کی اجازت نہیں،شناختی کارڈ ہاتھ میں
تھما کر تلخ انداز میں کہا گیا، جاؤ اپنا کام کرو یہاں سوال جواب کی اجازت
کسی کو نہیں ۔ ہم نے اپنی راہ لی ،رپورٹس چیک کرائیں اور واپس آ گئے لیکن
ملک و سرحدوں کے محافظ کے اْن الفاظ کی ایک چبھن ہے جو اب بھی باقی ہے ۔
اب اپنے موضوع پر آ تے ہیں قومی سلامتی پالیسی کی منظوری کے کچھ دن بعد
تحریک طالبان پاکستان نے ایک ماہ کیلئے جنگ بندی کرنے کا اعلان کردیاجبکہ
حکومت نے بھی عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کو روک لیا۔طالبان کے اہم اعلان
سے پہلے پاکستان کی وفاقی کابینہ نے اجلاس میں نئی قومی سلامتی پالیسی کی
منظوری دی تھی۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ قومی سلامتی پالیسی تشکیل دینے
کی ذمہ داری وزارت دفاع کی ہوتی ہے اور کابینہ کی دفاعی کمیٹی وہ آئینی
ادارہ ہے جو اس کے امور اور حتمی خد وخال وضع کرتا ہے۔ کیبنٹ کمیٹی آف
ڈیفنس، وزیراعظم، وزیر دفاع، وزیر داخلہ، وزیر خارجہ، چیئر مین جائنٹ چیفس
آف سٹاف کمیٹی اور تینوں مسلح افواج کے سربراہوں پر مشتمل ہوتی ہے۔اس کمیٹی
کے اجلاس میں بوقت ضرورت صوبائی وزرائے اعلیٰ بھی شرکت کرتے ہیں۔ وزارت
دفاع اور کیبنٹ کمیٹی کے اشتراک سے تشکیل دی جانے والی دفاعی پالیسی پر عمل
درآمد کی ذمہ داری چیئر مین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کو سونپی جاتی
ہے۔پاکستانی آئین کے تحت قومی سلامتی پالیسی کے نفاذ کی ذمہ داریاں تینوں
مسلح افواج ادا کرتی ہیں۔
منظور شدہ قومی سلامتی پالیسی کے پہلے پیراگراف کا مفہوم یہ ہے۔ یہ پہلی
قومی پالیسی ہے جو پاکستان کے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے تشکیل دی گئی ہے،
اس کی بنیاد شراکت، مشاورت اور اتحاد پر رکھی گئی ہے، اس پالیسی کے بنیادی
اصول یہ ہیں۔ تما م سٹیک ہولڈرز سے مذاکرات کئے جائیں، دہشت گردوں کا سپورٹ
سسٹم ختم کردیا جائے، ریاستی سکیورٹی اداروں کی اہلیت اور استعداد میں
اضافہ کیا جائے تاکہ وہ داخلی سکیورٹی کو یقینی بنا سکیں۔ جمہوری قیادت کی
رہنمائی میں سکیورٹی کے اداروں کو مربوط اور منظم کیا جائے گا۔ پالیسی
ڈرافٹ میں شامل وژن کے مطابق پاکستان میں ایسا محفوظ ماحول فراہم کرنا ہے
جس میں جان و مال، شہری آزادیوں اور شہریوں کے سماجی و معاشی حقوق محفوظ
بنائے جاسکیں اور وہ مفاہمت، آزادی، عزت اور وقار کے ساتھ زندگی گزار سکیں
جیسا کہ پاکستان کے آئین کا تقاضہ ہے۔قومی سلامتی پالیسی کے مقاصد میں یہ
نقات شامل ہیں ۔ریاست کی رٹ نافذ کرنا اور عوام کی اندرونی خطرے سے حفاظت
کرنا۔عوام کی جان و مال اور ان کے بنیادی حقوق کا دفاع کرنا۔شراکت،
جمہوریت، آزادی اور برداشت کے کلچر کو فروغ دینا۔اندرونی سکیورٹی کو شفاف
انداز اور احتساب کے ذریعے محفوظ بنانا۔ پالیسی میں انفراسٹرکچر کی تعمیر
اور متاثرہ افراد کی بحالی پر زور دیا گیا ہے۔ قومی سلامتی پالیسی کے مطابق
پاکستان کے مدرسوں کو ہر لحاظ سے معیاری بنایا جائے گا۔نئی قومی سلامتی
پالیسی پر سیاسی اور دفاعی تجزیہ نگاروں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور بعض
سیاسی جماعتوں کی طرف سے تنقید کی گئی ۔اگر قومی سلامتی پالیسی کے خفیہ
حصوں کو بھی ذہن میں رکھا جائے تو موجودہ حکومت کی کوشش قابل ستائش معلوم
ہوتی ہے لیکن سینئر صحافی و تجزیہ نگار رؤف کلاسرا کے مطابق یہ پالیسی
یورپی ممالک کی پالیسیوں کا صرف کاپی اور پیسٹ معلوم ہوتی ہے جس میں صرف
چند تبدیلیاں کی جانے سوا زمینی حقائق کو مد نظر نہیں رکھا گیا۔
میرے نزدیک قومی سلامتی پالیسی تیار کرنے والوں کو یہ زمینی حقائق بھی پیش
نظر رکھنا چاہیے تھے کہ اگر امریکہ اور نیٹو نے افغانستان پر حملہ اور قبضہ
نہ کیا ہوتا تو مغربی سرحدوں اور قبائلی علاقوں میں جاری گوریلا کارروائیاں
جاری رکھنے والی شدت پسند تنظیموں کا بھی کہیں وجود نہ ہوتا۔ یہ تنظیمیں تو
واضح طور پر بیرونی مداخلت اور ماضی کی حکومتوں کے بین الاقوامی دہشت گردی
کے خلاف جنگ میں زائد از ضرورت شرکت کا شاخسانہ ہیں۔ آج جس صورت حال کو
داخلی اور اندرونی خطرہ قرار دیا جا رہا ہے وہ بھی فی الواقع امریکہ اور اس
کی اتحادی افواج کی جارحیت ہی کا ایک نتیجہ ہے۔ اندریں حالات فوجی ڈاکٹرائن
جو جنوری2013 کے اوائل میں پیش کی گئی تھی،اس پر بھی واضح نظر ثانی کی
ضرورت تھی لیکن اسے اس اہم تناظر میں نہ دیکھا گیا ۔ یہ امر بھی پیش نظر
رہنا چاہئے تھا کہ کسی ملک کو اپنی قومی سلامتی کے تحفظ کے قابل بنانے کے
لیے لازم ہے کہ اس کا ہر ادارہ آئینی حدود میں رہ کر کام کرے۔ یہ حقیقت کسی
سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ڈرون حملوں کے ذریعے امریکہ نے کم از کم سینکڑ وں بار
پاکستان کی قومی سلامتی اور داخلی خودمختاری کو روند ا ہے اس حوالے سے بھی
پالیسی وضح کی جا نا ضروری تھی۔ عوام کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ
بیرونی قوتیں پاکستان میں عدم استحکام پیدا کر رہی ہیں۔ پانچ سالہ قومی
سلامتی پالیسی کی دستاویز تیار کرنے والوں کو واشگاف الفاظ میں بتانا چاہیے
تھا کہ امریکہ سمیت کسی بھی دیگر ملک کو پاکستان اپنی زمینی، بحری ، فضائی
حدود اور حاکمیت اعلیٰ کو روندنے اور پامال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ اس
اقدام سے یہ ضرور ہوتا کہ سلالہ جیسے واقعات پر قومی پالیسی کے ذریعے روکا
جا سکتا ہے۔حقائق کی روشنی میں اگر جائزہ لیا جائے تو یہ قومی سلامتی
پالیسی یک رخی یعنی صرف سیاسی معلوم ہوتی ہے اس میں دفاعی نقطہ نظر کو وہ
اہمیت نہ دی گئی جس کی اس وقت ضرورت تھی۔اس وقت پاکستان کے اندرونی خطرات
میں قبائلی علاقوں کے عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں شورش اور
کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے ذمہ دار عناصر کا بھی احاطہ کیا جانا اہم تھا جبکہ
مسئلہ کشمیر جو اس وقت دنیا کا سب سے بڑا انسانی مسئلہ ہے کے حل کیلئے ایک
جامع طریقہ کار وضح کیا جاتا ۔حیرانی ہوتی ہے کہ قومی سلامتی پالیسی پر کام
کرنے والوں نے اس مسئلے کو کیسے نظر انداز کر دیا کیونکہ یہ مسئلہ ایسا ہے
کہ اس سے ڈھائی کروڑ لوگ براہ راست متاثر ہو رہے ہیں جبکہ اس کے حل نہ ہونے
کی وجہ سے پاکستان کی مشکلات میں بھی دن بدن مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔
اس قومی پالیسی کی منظوری کے بعد اب میرے اس غیر ملکی صحا فی دوست کو بھی
کسی حد تک یقین ہو جا ئے گا کہ پاکستان اب توبہتری کی طرف جا رہا ہے ۔دوسر
ا جو راولپنڈی سی ایم ایچ والا واقعہ تھا اس پر میں نے اپنے معروضی حالات
کو مد نظر رکھتے اور کافی غور و غوضکرتے ہوئے' اپنے آپکو سمجھا ہی دیا ہے
'کہ آئندہ ایسی جگہوں پر جانا ہی نہیں جہاں ایسی عزت افزائی ہو کیونکہ آج
سے چار ، پانچ سال پہلے راولاکوٹ سی ایم ایچ میں بھی فورسز کے ایک جوان سے
جائز مطالبے پر مجھے دھر لیا گیا تھا کوئی ڈیڑھ گھنٹہ تک بٹھاے رکھا گیا
تھا ۔اس لیے اب میں نے سدھرجانے اور خاموشی اختیار کرنیکا فیصلہ کیا ہے اگر
مجبوری میں ایسی سخت سکیورٹی والی جگہوں پر مجبوری میں جانا ہی پڑ جائے تو
فورسز اہلکاروں سے کوئی سوال جواب نہیں ۔وہ جو کہہ جائیں اسی پر عمل ، سوال
و جواب اور بغاوت کی بجائے واپسی یا مکمل خاموشیکاراستہ اختیار کرنا ہی
فلوقت بہتر رہے گا ۔عوام تو ویسے بھی سننے کیلئے ہیں اور ملک کے ایسے مجرم
بھی شاید عوام ہی ۔ |