مذاکرات کی بانسری

اگر 1999ء میں نواز شریف کو رخصت نہ کیا جاتا تو ملاعمر اور طالبان کی طرز حکمرانی سے بےانتہا متاثر نواز شریف آج ہمارئے وزیراعظم نہیں بلکہ امیر المومنین ہوتے اور ہم ایک طالبانی ریاست ہوتے مگر کیا کہیں سابق صدر پرویز مشرف کو کہ انہوں نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ 2013ء کےپورئے الیکشن مہم میں نواز شریف دوسرئے مسائل کے علاوہ دہشت گردی کو بھی روتے رہے لیکن جیسے ہی اقتدار میں آئے وہ اپنے سارئے وعدئے فراموش کربیٹھے۔ دوسری طرف طالبان جو 2012ء میں انکو اپنا ضامن کہہ چکے تھے اُنکے الیکشن میں کامیابی کے بعد دہشت گردی میں بےپناہ اضافہ کردیا جو ابتک جاری ہے۔ نواز شریف کی حکومت بنانے کے بعد تو طالبان کو انسانوں کو قتل کرنے کا کھلالاسنس مل گیا، مگر جب عام لوگوں کا دباوُ پڑا تو طالبان سےمذاکرات مذکرات کا کھیل شروع کردیا جو گذشتہ چھہ ماہ سے جاری ہے۔ حکومت نے مذاکرات کا مینڈیٹ حاصل کرنے کے لیے اے پی سی بلا ی‘ ملک کی 12بڑی جماعتوں نے حکومت کو مذاکرات کا بلینک چیک دے دیا مگر اس کے جواب میں طالبان تباہی مچاتے جا رہے ہیں۔طالبان کی طرف مذاکرات کا ہاتھ بڑھایا تو ابتک جواب میں طالبان سیکڑوں دہشت گرد حملے کرچکے ہیں، ہزاروں لوگ شہید ہو چکے ہیں۔ درمیان میں ڈرون حملے کے نام پر ڈرامہ رچایا گیا، پھرایک سرکاری مذاکراتی کمیٹی بنادی گئی، جواب میں طالبان نے اپنی ایک کمیٹی بنادی، دونوں کمیٹوں میں شامل افراد طالبان کے ہمدرد ہیں اور دہشت گردوں کو مجاہد کہتے ہیں۔پنجاب تو کافی حد تک محفوظ رہا، لیکن باقی تین صوبے بری طرح دہشت گردی کا شکار ہیں۔ خیبر پختون خواہ جس میں سب سے زیادہ دہشت گردی ہورہی ہےوہاں کے لیڈر عمران خان بہادر ہیں، میں بہادر اس لیے لکھ رہا ہوں کہ الیکشن سے پہلے عمران خان اپنا انتخابی نشان بلا گھما گھما کر سب کو ڈرایا کرتے تھے۔ الیکشن سے پہلے بہت بڑئے انقلابی لیڈر تھےمگر اب طالبان کے ہمدرد ہیں، طالبان کی کسی بھی دہشت گردی پر افسوس ضرور کرتے ہیں لیکن اُسکے بعدقوم کوڈرانا اپنا فرض سمجھتے ہیں، حادثہ کی جگہ پر ہی کہہ دیتے ہیں آپریشن کا کوئی فاہدہ نہیں ہوگا، نو سال سے آپریشن ہورہا ہے ہم نے کیا کرلیا، لوگ بھی اب انکو کبھی طالبان خان اور کبھی بزدل خان کہہ دیتے ہیں، ویسے یہ جس تیزی سے مقبول ہوئے تھے اُسی تیزی سے غیر مقبول ہورہے ہیں۔ بزدلوں اور کاہلوں کی ایک ٹیم انکے ساتھ ہے جو انکی غیر مقبولیت میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔

طالبان کے لفظی معنی کچھ بھی ہوں مگر ہمارئے ملک میں طالبان عام طور پردہشت گردوں کو کہا جاتا ہے، طالبان کے 45سے زائد گروہ ہیں اور ہر گروہ کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی قتل و غارت گری کی کسی بڑی مہم کا حصہ رہ چکا ہے اور اس کا اقرار بھی کرچکا ہے، ان گروہ میں سے کوئی عام انسانوں کا قتل عام کررہا ہے تو کوئی فرقہ وارانہ قتل و غارت گری میں مصروف ہے، یہ اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، ٹارگیٹ کلنگ، منشیات کی اسمگلنگ، ڈکیتیوں اور دوسرے جرائم میں بھی مصروف ہیں۔ یہ صرف نام کے انسان ہیں خصلتیں سب کی درندوں جیسی ہیں، لہذا ان میں یہ احمقانہ تمیز کرنا کہ اچھے کون ہیں اور برئے کون ہیں اسکی ضرورت ہی نہیں ہےکیونکہ کسی درندئے سے انسانیت کی امید نہیں کی جاسکتی۔ پاکستان میں طالبان کی دو قسمیں ضرور موجود ہیں ایک وہ ہیں جو قتل و غارت گری اور دوسرئے جرائم کرتے ہیں اور دوسرئے وہ ہیں جو سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی آڑمیں اُن کی حمایت کرتے ہیں۔ پاکستان کی تین مذہبی سیاسی جماعتیں جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جمعیت علمائے اسلام (س) طالبان کی کسی بھی قتل و غارت گری کے بعد ان جماعتوں کے سربراہ سید منور حسن، مولانا فضل الرحمان اور مولانا سمیع الحق قطع نظر اس کے مرنے والوں سے ہمدردی کریں یہ طالبان کی صفایاں دینے لگتے ہیں، اُن کے ساتھ ہی کچھ صحافی جن میں خاصکرانصار عباسی اور اوریا مقبول جان صحافت کی آڑ میں طالبان کی ہمدردی میں پیش پیش ہیں۔ گذشتہ 9 سال میں کسی بھی حکومت نے طالبان دہشت گردوں کے خلاف کبھی کوئی ڈھنگ کا آپریشن کیا ہی نہیں اور نہ ہی اُن کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کو روکنے کی کوشش کی، کراچی اسکی واضع مثال ہے۔ طالبان دہشت گردوں کے ہمدرد مذہبی سیاسی رہنما اور صحافی ایک ہی بات کی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات کریں، چاہئے وہ کتنی بھی دہشت گردی کریں۔ یہ کہتے ہیں دہشت گردی طالبان نہیں بلکہ امریکہ، اسرائیل اور بھارت کروا رہے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جو حکومت مذاکرات کا ڈرامہ رچا رہی ہے وہ کس لیئے۔ جب دہشت گردی امریکہ، اسرائیل اور بھارت کروا رہے ہیں تو پھر مذاکرات طالبان سے کیوں؟ ان سے کیوں نہ کیئے جایں جو پاکستان میں دہشت گردی کروا رہے ہیں؟ یہ رپورٹس تو ایک عرصے پہلےمنظر عام پر آچکی ہیں کہ دہشت گرد طالبان، اس کی دیگر ذیلی تنظیمیں جو پاکستان میں دہشت گردی کررہی ہیں اُن کے امریکہ، اسرائیل اور بھارت کی ایجنسیوں سے گہرے روابط ہیں۔

اسلام آباد کے تازہ واقعہ کے بعد قوم اب یہ جاننا چاہتی ہے کہ مذاکرات کا یہ ڈرامہ کب تک چلے گا۔ جب روم جل رہا تھا تو ”نیرو “ بانسری بجا رہا تھا، موجودہ حکومت عوام کو بتائے کہ اور کتنے عرصے وہ مذاکرات کی بانسری بجائے گی ۔ پاکستانی فوج پر ساری قوم بھروسہ کرتی ہے کیا اسکا کام بھی اب مذاکرات کی بانسری بجانا رہ گیا ہے؟ ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ لاشوں کے ڈھیروں اور قبرستانوں کو کسی فوج یا محافظ کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ جب تک طالبان کے ہمدردموجود ہیں یہ ہوتا رہے گا، جبتک یہ مذہب کے ٹھیکدار، یہ طالبانی صحافت کے علمبردار موجود ہیں یہ ہی کچھ ہوگا۔ رہی بات حکومت کی تو طالبان کا سربراہ ملا عمر تو نواز شریف کا آیڈیل ہے۔ ٹیپو سلطان انگریزوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوگے، شہادت سے پہلے ٹیپو سلطان سے جب ایک افسر نے کہا کہ ’آپ انگریزوں سے عافیت طلب کر کے اپنے خاندان کو رسوا ہونے سے بچالیں توغیرت مند ٹیپو سلطان نے پلٹ کر غصے سے جواب دیا "گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے"۔ آج ٹیپو سلطان کا کہا ہوایہ قول تو امر ہے مگر کیا کہیں شیر کے نشان پر جیتنے والے نواز شریف اور انکے ساتھیوں کا عمل اس قول کے برعکس ہے۔ اس وقت عملی طور پر طالبان بلواسطہ پاکستان پر حکومت کررہے ہیں۔ آیئے خیبر پختون خوا کے بہادر چیف منسٹر پرویز خٹک کی دعا میں شامل ہوتے ہیں کہ اللہ ہمیں طالبان سے بچاے کیونکہ ہم خود کچھ نہیں کرسکتے۔ دہشتگردی دو ہی صورت میں ختم ہوگی یا تو طالبان کے غلام بن جاو یا پھر طالبان کو تباہ کردہ، مذاکرات کا ڈرامہ اس کا حل نہیں۔

Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 445021 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More