پاکستان کو شاید خوشی کی کوئی
خبر راس ہی نہیں آتی گزشتہ روز پاکستان نے اپنے روائتی حریف انڈیا کو ایک
دلچسپ مقابلے کے بعد میچ میں ناصرف شکست دی بلکہ اسے ایشیاء کپ سے بھی
تقریبا آؤٹ کر دیا گزشتہ رات کی اس خوشی کو لوگوں کے چہروں پے دیکھا اور
پڑھا جا سکتا تھا مگر دوسرے ہی دن اسلام آباد کی ضلعی عدالتوں میں جس طرح
کی مذموم دہشت گردی کی گئی اس نے ساری خوشی چھین کر ایک عجیب سی بے چینی
اور سوگوار ماحول بنا دیا چند دن پہلے جب قائمہ کمیٹی کی طرف سے اسلام آباد
کو سب سے غیر محفوظ کہا گیا تو ہمارے وزیر داخلہ صاحب کا کہنا تھا کہ ایسا
بلکل نہیں ہے بلکہ یہ کمیٹی کے ممبران کا وہم ہے مگر اب اس واقعے کے بعد کی
صورت حال کا ذمہ دارکون ہے؟وزیر داخلہ ،آئی جی اسلام آباد،ایس ایس پی ،یا
کوئی اور جو بھی ہے ایک بات واضح ہے کہ یہ حکومت کی کمزوری ہے جس نے ضلع
کچہری کی حفاظت کے لئے مناسب اقدامات نہیں کیے تھے باوجود اسکے ،کہ
سیکیورٹی کی مخدوش صورت حال کے متعلق حکومت کو کئی بار آگاہ کیا جا چکا تھا
وفاقی دارلحکومت کی ایف ایٹ کچہری میں ہونے والے دہشت گردحملے کے بعد
سیکیورٹی اور سیزفائر کے اعلانات سے متعلق سوالات پیداہوگئے ہیں جو بلکل
درست ہیں۔اس بات سے قطع نظر کے حملہ آورں کی تعداد کیا تھی اور ان کے
معاونت کون کر رہا تھا ایک بات واضح ہے کہ اسلام آباد پولیس کی طرف سے
مزاحمت نہ ہونے کی وجہ سے دہشت گرد اپنے مقاصدحاصل کرنے میں کامیاب ہوئے
نام نہاد سیکیورٹی کے انتظامات کا پول تو سب کے سامنے ہی تھا واک تھروگیٹ
کے خراب اور ناکارہ ہونے اور وہاں پر کسی سیکیورٹی اہلکار کے تعینات نہ
ہونے کی وجہ سے حملہ آور باآسانی اندر داخل ہوگئے اور کئی معصوم لوگو ں جس
میں کئی وکلاء سائلین اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج رفاقت اعوان بھی
شامل ہیں کو شہید کیا گیاضلع کچہری اسلام آباد میں پیدل داخلے کے لیے
12راستے ہیں جن میں سے تین بڑے راستے گاڑیوں کیلئے مختص ہیں۔پیر کی صبح
ساڑھے آٹھ بجے کے قریب اسلام آباد کے سیکٹر ایف ایٹ مرکز میں واقع عدالتی
کمپلیکس میں خون کی جوہولی کھیلی گئی آئی جی اسلام آباد کے مطابق خودکش
حملہ آوروں کی تعداد دو تھی تاہم عینی شاہدین نے کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں
کی تعداد زیادہ تھی آئی جی اسلام آباد کے مطابق ایک حملہ آور نے اپنے آپ کو
وکلا کے چیمبرز کے قریب اور دوسرے نے ایڈیشنل سیشن جج رفاقت اعوان کے چیمبر
کے قریب دھماکے سے اڑا دیااسلام آباد پولیس کے ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان کا
کہنا تھا کہ یہ بہت سنگین اور پیچیدہ دہشت گرد حملہ تھا حملے کی نوعیت اور
سنگینی سے اندازہ ہوتا ہے کہ حملہ آور اعلیٰ تربیت یافتہ تھے ایک سے زائد
حملہ آور اس حملے میں ملوث تھے جن کی عمریں تیس سال سے کم تھیں انہوں نے
شلوار قمیض پہن رکھی تھی لیکن ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کون سی
زبان بول رہے تھے انہوں نے کہا کہ چالیس پولیس اہلکار اور دو کمانڈوز دستے
اس علاقے کی حفاظت پر مامور ہیں اس واقعے کے بعد امدادی کارروائیاں شروع کر
دی گئیں اور زخمیوں اور لاشوں کو پمز ہسپتال منتقل کیا گیا پمز کی ترجمان
نے فائرنگ اور دھماکوں کے نتیجے میں 11 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ۔کچہری
ایف ایٹ سیکٹر کے مرکز میں واقع ہے چند سال قبل اسلام آباد سمیت ملک بھر
میں حملوں میں اضافے کے باعث عدالتوں کے چاروں جانب دیوار کھڑی کی گئی تھی
دیوار کے حصار میں داخل ہونے پر واک تھرو گیٹ نصب ہیں تاہم سکیورٹی کچھ
زیادہ سخت نہیں ہوتی اسی کچہری کے اندر پولیس افسران کے دفاتر، ایکسائز
اینڈٹیکسیشن ، نادرا سوفٹ سنٹر اور محکمہ مال کے دفاتر جب کہ نادرا کا دفتر
بھی یہیں واقع ہے۔ بے شک یہ دہشت گردی ہے اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے
وہ کم ہے مگر ان حملوں کے بعد بہت سے سوالات سر اٹھائیں گے اور ہمارے
حکمرانوں سے بہت کچھ پوچھیں گے جن میں سب اہم سوال یہ ہے کہ کیا کسی ذمہ
دار آفیسر اور حکومتی شخصیت نے اس واقع کی ذمہ داری لی ہے کہ وہ اس ناکامی
کو مانتے ہیں کہ لوگوں کے تحفظ کے لئے مناسب اقدمات نہیں کرسکے جو کرنے
چاہیے تھے۔ سابق دور حکومت میں جب کوئی ایسا واقعہ ہو جاتا ہمارے موجودہ
حکمران اور اس وقت کے اپوزیشن رہنماء آکر فرماتے تھے کہ جناب اس کے بعد تو
فلاں کو استعفیٰ دے دینا چاہیے فلاں کو جانا چاہیے لیکن یہ کیا اب اپنی
باری آئی تو معاملہ کسی کے سر نہیں یہ تو وہی روش ہوئی جو آپ سے پہلے والوں
کی تھی اس طرح تو عوام کو یہی پیغام جائے گا کہ سب اپنی اپنی باریاں لگانے
آئے ہوئے ہیں بے شک وفاقی حکومت نے سیکیورٹی پالیسی کااعلان کر دیا ہے لیکن
عوام تو تب ہی اسے سراہیں گے جب ان کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنے گا ۔اب
تو طالبان بھی ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کر چکے ہیں اور طالبان ترجمان
کی جانب سے اس حملے کی تردید بھی کی جا چکی ہے ایسے میں حکومت کو اپنی
تحقیقات کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے پتا لگانا چاہیے کہ وہ کون سے عناصر
ہیں جو دہشت گردی کے ذریعے سے اپنے مذموم مقاصدکی تکمیل چاہتے ہیں۔اور اب
کی بار انھوں نے عدلیہ اور وکلاء پر حملہ کر کے کیا ثابت کرنے کی کوشش کی
ہے ۔ |