سانحہ اسلام آباد کے بعد پولیس اور سیکرٹری داخلہ میں آنکھ مچولی

پاکستان میں تقربیاََ 130اضلاع اور 7 قبائلی علاقہ جات ہیں۔ اگست 2000ء سے قبل اضلاع ڈویڑن کے تحت ہوتے تھے لیکن اس وقت ڈویڑن کو ختم کرکے اضلاع کو براہ راست صوبوں کے ماتحت کردیا گیا۔اس وقت پاکستان میں15000ہزارسے زائد عدالتیں ہیں۔وکلاء کی تعداد15لاکھ کے قریب ہے۔عدالتوں کی سکیورٹی کی ذمہ داری محکمہ پولیس نے سنبھالی ہوئی ہے۔پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں، سپریم کورٹ، چار ہائی کورٹس اور فیڈرل شریعت کورٹ میں زیر التوامقدموں کی تعداد ایک لاکھ پچاسی ہزار سے زیادہ ہے اور ان میں بعض مقدمے ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے زیر التوا ہیں۔سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدموں کی تعداد سترہ ہزار چار سو سے زیادہ ہے۔

پاکستان میں سب سے زیادہ زیر التوا مقدمے صوبہ پنجاب میں ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ میں زیر التوا مقدموں کی تعداد ایک لاکھ پندرہ ہزار سے زیادہ ہے جبکہ ماتحت عدالتوں میں نو لاکھ پچاس ہزار سے زائد مقدمے زیر التو ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ میں اسوقت فعال ججوں کی تعداد چالیس کے قریب ہے جبکہ قانون کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں ججوں کی تعداد پچاس سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔سندھ ہائی کورٹ میں زیر التو مقدموں کی تعداد تیس سے زیادہ ہے جبکہ ماتحت عدلیہ میں ایک لاکھ سے زیادہ مقدمے زیر التوا ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ میں صرف پچیس جج موجود ہے۔ قانون کے مطابق سندھ ہائی کورٹ چالیس جج ہونے چاہیں۔صوبہ خیبر پختون خواہ کی عدالتوں میں زیر التواء مقدمات تعداد ایک لاکھ پچیس ہزار سے زائد ہے۔بلوچستان ہائی کورٹ میں سب سے کم مقدمات زیر سماعت ہیں۔ بلوچستان ہائی کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد پانچ ہزار سے زائد ہے۔ جبکہ بلوچستان کے اٹھارہ اضلاع کی ماتحت عدالتوں میں چھ ہزار کے قریب مقدمے زیر التوا ہے۔ہائی کورٹ کی رولنگ کے مطابق ایک سول جج کے پاس دوہزار کے قریب مقدمات سماعت کے لیے ہونے چاہئیں جبکہ عملاً ایک سول جج کے پاس آٹھ ہزار سے زائد مقدمات زیر سماعت ہوتے ہیں۔جن میں 80فیصدمقدمات فواجداری ہیں۔

گزشتہ روز طالبان کی جنگ بندی اور حکومت کی طرف سے فضائی حملوں کو بند کرنے کے اعلانات کی گونج ابھی ماند نہیں پڑی تھی کہ اسلام آباد کچہری میں خود کش حملے ہوگیا۔ اس سانحہ میں ایک جج سمیت 11 افراد شہید اور درجنوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔ لنڈی کوتل میں ایف سی پر حملہ کیا گیا جس میں دو اہلکار شہید ہوئے۔ تحریک طالبان نے گو ان واقعات کی مذمت کی ہے لیکن موجودہ حالات میں صرف یہ ایک اعلان کافی نہیں ہو سکتا۔

عالمی میڈیا میں یہ بات زوروشور سے زیر بحث ہے کہ یہ کہنا بے حد آسان ہے کہ بہت سی قوتیں پاکستان میں امن قائم ہونے کے خلاف ہیں۔ اسی لئے طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کو ناکام بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک دہائی سے زیادہ مدت تک جس دہشت گرد گروہ نے اس ملک کے طول و عرض میں شہری آبادیوں و اجتماعات اور فوجی تنصیبات اور قافلوں پر حملے کرنے کی ذمہ داری قبول کی ہے ، وہی صورتحال کو بہتر بنانے میں کردار ادا کرنے کا بھی ذمہ ہو گا۔ اگر اس مرحلہ پر سانحہ اسلام آباد اور لنڈی کوتل میں ہونے والے واقعات کے لئے طالبان کو جوابدہ نہ بنایا گیا تو حکومت کسی بھی طرح اس ملک سے دہشت گردی ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی۔

اس سے قطع نظر گزشتہ روزدہشت گردی کے جو المناک سانحات ہوئے ہیں ان کی روشنی میں ارباب بست و کشاد کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ جنگ بندی کی باتیں کرنے سے حملوں کا سلسلہ بند نہیں ہو گا۔ بلکہ اس مقصد کے لئے طالبان اور اس کی تمام ذیلی تنظیموں کو یہ باور کروانا ضروری ہو گا کہ حکومت سے رعایت لینے اور مذاکرات کے ذریعے سہولتیں پانے کی خواہش محض اس صورت میں پوری ہو گی جب وہ مکمل طور سے ملک میں ہونے والی ہر منفی کارروائی کی ذمہ داری قبول کریں گے یا ان عناصر کو منظر عام پر لانے میں حکومت سے تعاون کریں گے۔بات کی جائے سیاستدانوں کی تواول تو ہفتہ عشرہ تک ملک سے باہر رہنے اور معاملات کے بارے میں معلومات حاصل کئے بغیر بیان جاری کرنا صرف پاکستانی لیڈروں کا ہی کام ہو سکتا ہے۔

اسی طرح تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی ایک بار پھر یہ اعلان کرنا ضروری سمجھا ہے کہ امریکہ اور بہت سے دوسرے عناصر طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ناکام بنانا چاہتے ہیں تا کہ پاکستان میں امن قائم نہ ہو سکے۔ دو ہفتے قبل شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کی حمایت کرنے والے عمران خان نے آج ایک بار پھر یہ بھی قرار دیا ہے کہ شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی پاکستان کے مفادات کے خلاف ہو گی۔ان مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کو اب یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہی سیاسی غیر یقینی دراصل طالبان کی قوت اور حوصلہ افزائی کا سبب بنتی ہے۔

حکومتی دعووں کے باوجودسانحہ اسلام آباد لمحہ فکریہ ہے۔افسوس اس بات کا ہے کہ سیکرٹری داخلہ بھی سیاستدانوں کی طرح جھوٹ سے کام لے رہے ہیں کہ یہ معلوم ہے کہ ایف ایٹ کچہری میں 66 پولیس اہلکارتعینات ہوتے ہیں،لیکن سانحہ اسلام آباد میں صرف 2 اہلکاروں نے اسلحہ استعمال کیا۔ توباقی ملازمین کہاں تھے۔ قریبی تھانے نے 7 سے 10 منٹ میں اہلکار بھیج دیئے تھے۔لیکن معمول کے مطابق پولیس 45 منٹ بعد پہنچی۔دوسری جانب سیکرٹری داخلہ کو یہ بھی یاد ہو گاکہ 2011ء سے2013ء تک محکمہ پولیس نے کھربوں روپے کا آتشیں خودکاراسلحہ ،ہینڈ گرنیڈ اوردیگر اسلحہ، منشیات اور برآمد کیں جس میں 1کھرب 91ارب 8کروڑروپے نقدرقم کا تاحال اندراج نہ ہوسکا اور نہ ہی مال خانہ میں جمع کروائے۔خردبرد چھپانے کے لئے محکمہ داخلہ کی ملکیت مال خانہ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن نے بغیرہدایات کے ازخودسیل کردیا محکمہ داخلہ کو رسائی نہیں دی گئی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشتگردی پاکستانی عوام کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔سیاستدان اورسرکاری ملازمین ہرسانحہ کے بعدجوآنکھ مچلی کا کھیل شروع کردیتے ہیں اس کو بندکریں اور سانحہ کے ذمہ داری کیخلاف کاروائی کریں۔تاکہ پاکستان میں امن اامان قائم ہو سکے۔
Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 272 Articles with 201795 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.