بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاری اور رہائی

ہم کہاں کھڑے ہیں؟

کانگریس کی قیادت والی یو پی اے حکومت کے کبیرہ گناہوں کی فہرست یوں تو بڑی طویل ہے لیکن ان میں ریاستی دہشت گردی کے فروغ کو اکبر الکبائر کی حیثیت حاصل ہے۔کہنے کو تو یہ سیکولر حکومت ہے لیکن اس کی دونوں میعادوں میں جس طرح دہشت گردی کے نام پر پولس اور خفیہ ایجنسیوں کو مسلمانوں پر ظلم وستم ڈھانے کی کھلی چھوٹ دی گئی اس نے اس کے نقلی سیکولرزم کی قلعی کھول کر دکھ دی اور ثابت ہوگیا کہ یہ حکومت بھی جداگانہ تیور کے ساتھ فرقہ پرستوں کی پالیسی پر عمل میں ہی یقین رکھتی ہے۔ یا تو کانگریس کا سیکولرزم کا دعوی کھوکھلا ہے یا اب اس کے ارباب اختیار میں موجود فرقہ پرست ذہنیت رکھنے والوں کو بالادستی حاصل ہے۔ یو پی اے نے جن وعدوں کے ساتھ اقتدار سنبھالا اور مسلمانوں نے جن امیدوں سے سے زمام اقتدار سونپی ان پر عمل تو کجا بر عکس نتیجہ ہی نظر آیا۔ حکومت مسلمانوں کے تحفظ کے دعوے تو کرتی رہی لیکن عملا انہیں ہمیشہ عدم تحفظ کے احساس میں گرفتار رکھا، دہشت گردی کے نام پر ہزاروں بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں، انکاؤنٹر ، زیر حراست قتل اس کے نامہ اعمال کے سیاہ ترین ابواب ہیں۔ ہر چند کہ حقیقی دہشت گرد چہرے بے نقاب ہوچکے ہیں، خود حکومت کے موجودہ اور سابق وزرائے داخلہ دہشت گردانہ حملوں میں شدت پسند ہندو تنظیموں کے رول کا اعتراف کرچکے ہیں، عدالتوں کے ذریعہ سیکڑوں بے قصور مسلم نوجوانوں کی با عزت رہائی بھی ثابت کرتی رہی ہے کہ پولس اور خفیہ ایجنسیاں بغیر کسی ثبوت کے مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرتی ہیں، وزیر اعظم سمیت ارباب اقتدار مسلم قیادت کو یقین بھی دلاتے رہے کہ بے قصوروں کو گرفتار نہیں کیا جائے گا لیکن ان سب کے باوجود یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے اور آئے دن گرفتار یوں کا سلسلہ جاری ہے۔ دو دنوں قبل بہار کے ارول سے دو مسلم نوجوانوں کو گذشتہ سال مہا بودھی مندر میں ہونے والے بم دھماکوں کے سلسلہ میں قومی تفتیشی ایجنسی نے گرفتار کرلیا۔ مقامی ایس پی کے مطابق این آئی اے نے تین افراد محمد عرفان، راج آنند اور رنجن کو حراست میں لیا ۔ راج آنندد اور رنجن کو پوچھ گچھ کے بعد چھوڑ دیا گیا جبکہ محمد عرفان کو گرفتار کر لیا گیا۔ پولس کے مطابق پکڑے گئے نوجوان کا تعلق مبینہ دہشت گرد تحسین عرف مونو سے ہے۔ پولیس کے دعوی کے برعکس محمد عرفان کے والد کلام الدین کا کہنا ہے کہ پولس عرفان کے علاوہ ان کے بڑے بیٹے رستم انصاری کو بھی ساتھ لے گئی ہے۔ عرفان نے ابھی انٹر میڈیٹ کا امتحان دیا ہے جبکہ رستم بی اے کا طالب علم ہے۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب کسی واقعہ میں اکثریتی واقلیتی دونوں فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی گرفتاری کے بعد اکثریتی فرقہ کے افراد کو رہا کردیا گیا ہو یا ان پر دہشت گردی کی بجائے دوسرے جرائم کے سلسلہ میں الزامات عائد کئے گئے ہوں۔ کچھ ہی دنوں قبل پٹنہ میں مودی کی ریلی میں ہونے والے دھماکوں کے سلسلہ میں مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا لیکن کروڑوں روپے کے ٹرانزکشن کے سرغنہ گوپال کمار گویل اور اس کے ساتھی وکاس کمار، پون کمار، گنیش ساہو اور بنگلور سے گرفتار عائشہ اور زبیر جو اصل میں دنیش اور سنیتا ہیں، کو دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے پیسے پہنچانے کے پختہ ثبوت کے باوجود دہشت گرد ی کا ملزم نہیں بنایا گیا۔

بہر حال ایک جانب جہاں گرفتاریوں کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے وہیں عدالتوں کے ذریعہ بے قصوروں کو باعزت رہائی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ لیکن بد قسمتی سے میڈیا کی خیانت کے نتیجہ میں گرفتاری کی خبر تو خوب مشتہر ہوتی ہے اور عام آدمی پولس کی کہانی پر یقین کرلیتا ہے لیکن وہی میڈیا جو عدالتی عمل شروع ہونے سے پہلے ہی ملزم کو مجرم ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ تا اور زیر حراست تشدد اور بد ترین اذیت کے نتیجہ میں ملزمین کے ذریعہ دیئے گئے بیان کو اقبال جرم قرار دیتا ہے، اسے رہائی کی خبر سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ، گویا اس کی نظر میں پولس کے ذریعہ لگائے گئے الزامات رہائی کے عدالتی فیصلوں سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ جس وقت اخبارات اور نیوز چینل چیخ چیخ کر مہابودھی مندر دھماکہ کے حوالہ سے مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کی خبر دے رہے تھے ٹھیک اسی وقت بے قصور مسلم نوجوانوں کی باعزت رہائی بھی عمل میں آئی تھی جسے قومی میڈیا نے پوری طرح دبا دیا۔ عبد اﷲ، طارق اختر اور انور رحمان کو کولکاتا کی ایک عدالت نے رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔ یہ نوجوان گذشتہ آٹھ برسوں سے جیلوں میں بند اپنے جرم بے گناہی کی کی سزا بھگت رہے تھے۔ ان پر دہشت گردوں سے رابطہ رکھنے اور ملک کے آئین کو تسلیم نہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ مگر ان کے خلاف پولس کے پاس کوئی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے عدالت نے ان کی رہائی کا حکم دیا۔ پولس کا دعوی تھا کہ کچھ دہشت گردوں کی ڈائری میں ان تینوں کے نام تھے اور انہوں نے متعدد مرتبہ ان سے باتیں کی تھیں مگر وہ عدالت کے سامنے اس بات چیت کا ریکارڈ بھی پیش نہیں کرسکی۔ رہائی پانے والوں میں سے ایک نوجوان عبد اﷲ نے میڈیا کو بتایا کہ وہ بنارس کے ایک مدرسہ میں زیر تعلیم تھا جب اسے پاسپورٹ انکوائری کے بہارنے تھانہ لے جایا گیا اور وہاں سے کولکاتا پولس اسے اپنے ساتھ لے گئی ۔ اس نے اپنی داستان سناتے ہوئے بتایا کہ گرفتاری کے وقت ہی ایک افسر نے اپنے سینئر کو بتایا تھا کہ یہ بے قصور ہے اس کو غلط پکڑ لیا گیا ہے۔ مگر سینئر افسر نے کہا کہ ابھی رہنے دو آگے دیکھا جائے گا۔ اس نے بتایا کہ ایک تفتیشی افسر نے ٹرائل کے دوران کم از کم تیس بار اس سے کہا کہ وہ بے قصور ہے اور چھوٹ جائے گا۔ اسے اعلی افسران کے دباؤ کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔ عبد اﷲ نے سوال کیا کہ بے قصور ہونے کے باوجود اسے جیل سے باہر آنے میں آٹھ برس کیوں لگے؟ جیل کے تجربوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ مسلم افسران زیادہ سخت ہوتے ہیں اور ان کا رویہ توہین آمیز ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو ایماندار اور غیر جانب دار ثابت کرنے کے لیے مسلم افسروں کا رویہ مسلم قیدیوں کے ساتھ بہت خراب ہوتا ہے اس لیے ان کی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں کسی مسلم آفیسر کی نگرانی میں نہ رکھا جائے ۔ یہ کہانی کسی ایک عبد اﷲ کی نہیں ہے بلکہ سیکڑوں ایسے عبد اﷲ ہیں جنہیں ان اذیتوں سے گزرنا پڑا ہے اور ہزاروں ابھی بھی جھیل رہے ہیں۔ یہ تو خوش نصیب ہیں کہ ایک عرصہ تک اذیت جھیلنے کے بعد رہائی نصیب ہوئی ورنہ ہزاروں ایسے بھی ہیں جو پانچ برسوں سے جیلوں میں بند ہیں لیکن ابھی ان کے مقدمہ کا آغاز بھی نہیں ہوا ہے۔ تنہا مہاراشٹر میں ایسے نو ہزار بے قصور جیلوں میں ایڑیاں رگڑ رہے ہیں جن کا مقدمہ ابھی کھلا بھی نہیں ہے۔ چونکہ پولس بے قصوروں کو گرفتار کرتی ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ عدالت میں وہ ان کا قصور ثابت کرنے میں ناکام رہے گی۔ اس لیے ایک ایک ملزم پر ۴۰؍ سے ۵۰؍ مقدمات تک قائم کردئے جاتے ہیں اور وہ بھی الگ الگ ریاستوں میں ۔ اس پر مستزاد گواہان کی تعداد بھی ۵۰ ؍ سے ڈھائی سو تک ہوتی ہے۔ یہ سب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کیا جاتا ہے کہ عدالتوں کے چکر کاٹتے کاٹتے ملزمین کی زندگی کے ایام ہی ختم ہوجائیں چونکہ پولس کو کسی جوابدہی کا خوف نہیں ہوتا اس لیے وہ ایسی مضحکہ خیز حرکتیں اور دعوے کرتی ہے کہ مقدمہ شروع ہوتے ہی ان دعووں کی حقیقت اور پولس کی بد نیتی آشکار ا ہوجاتی ہے۔ مثلا کئی مقدمات میں پولیس نے کسی ملزم پر کسی مخصوص جگہ پر دھماکوں کی سازش رچنے کا الزام لگایا حالانکہ پتہ چلا کہ اس سے قبل ہی وہ داخل زنداں ہوچکا تھا۔ ملزموں کے عدالت سے بری ہوجانے کے اندیشہ سے انہیں قتل بھی کردیا جاتا ہے۔ پہلے اس کے لئے فرضی انکاؤنٹر کا سہارا لیا جاتا تھا لیکن جب اس کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں تو زیر حراست قتل کا طریقہ اپنایا جانے لگا ۔ قتیل صدیقی اور خالد مجاہد اس کی تازہ مثالیں ہیں۔

ہندوستانی جمہوریت کے لیے یہ امر خوش آئند ہے کہ اس کے ایک اہم ستون عدلیہ پر اب بھی لوگوں کا اعتماد بر قرار ہے ۔ حالانکہ اب تو عدالتیں بھی اجتماعی ضمیر کا دباؤ قبول کرنے لگی ہیں۔ تاہم ایسے وقت میں جبکہ امریکہ کے نام نہاد ’’وار آن ٹیرر ‘‘مہم کا حصہ بننے پرمجبور حکومت اور اس کے ادارے مسلمانوں کی شبیہ مسخ کرنے پر تلے ہوں عدالتوں سے بے قصور وں کی رہائی کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ لیکن یہ سوال پھر بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ عبد اﷲ کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں آٹھ سال کیوں لگتے ہیں ۔ اس دوران اسے جیل میں جن اذیتوں سے گذرنا پڑتا ہے۔ اس کے والدین اور رشتہ داروں کو جن حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور مجموعی طور پر پوری قوم کو جس صورتحال کا سامنا ہوتا ہے اس کا حساب کون دے گا؟ گرفتار شدگان کی زندگیوں کے بیش قیمت ماہ وسال کون لوٹائے گا۔ عہد شباب کے آٹھ دنوں کی بھی اہمیت ہوتی ہے ۔ زندگی کے آٹھ قیمتی سال جیلوں میں گزارنے اور ذہنی وجسمانی اذیتیں جھیلنے کے بعد بھی کیا کوئی اس قابل رہ سکتا ہے کہ اپنی زندگی کی گاڑی کو دوبارہ پٹری پر لاسکے۔ جو لڑکا ڈاکٹر انجینئر بن کر ملک کی خدمت کرنا چاہتا ہے حکومت اور اس کی خفیہ ایجنسیاں اسے دہشت گرد بنا دیتی ہیں۔ اگر وہ رہا بھی ہوجائے تو گرفتاری کے باعث اسے جن مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور اس کی سماجی ومعاشی زندگی پر اس کے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں کیا اس کی تلافی ممکن ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ جس گھر کا کوئی فرد دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں گرفتار ہوتا ہے اس کے قریبی رشتہ دار تک اس سے منہ موڑ لیتے ہیں ،حد تو یہ ہے کہ ایسے گھرانوں میں لوگ شادی بیاہ تک نہیں کرتے ہیں۔ کیا جسے دوران تعلیم حراست میں لیا گیا ہو وہ بری ہونے کے بعد اپنی تعلیم دوبارہ جاری رکھ سکتا ہے۔ با عزت بری ہونے اور ملازمت کا اہل ہونے کے باوجود کیا سے ملازمت مل سکتی ہے۔ آخر عبد ﷲ کو ان سوالوں کے جواب کون دے گا؟ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کو پولس اور خفیہ ایجنسیوں کی کارستانی قرار دیتے ہیں اور کم از کم نا م نہاد سیکولر حکومتوں کو پاک دامن سمجھتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہماری ملی قیادت رحم کی درخواستیں لے کر ارباب اقتدار کے دروازہ پر دستک دیتی ہے۔ لیکن کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ حکومتوں کی نیت صحیح ہوتی اس صورتحال پر قابو پایا جاسکتا تھا۔ اگر حکومت براہ راست اس سازش کا حصہ نہیں ہوتی تو نام نہاد دہشت گردی کے نام پر یو اے پی اے جیسے کالے قوانین کا سہارا نہیں لیتی۔ اگر اس کا دامن پاک ہوتا تو آ ر ایس ایس کے کئی لیڈران جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے۔ بے قصوروں کی گرفتاری روکنے کے لیے وزیر اعظم نے جو مضبوط میکانزم تیار کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی اس پر عمل ہوچکا ہوتا۔ فاسٹ ٹریک عدالتیں قائم ہوچکی ہوتیں، رہا شدگان کی باز آبادکاری کا رونا بھی ہمیں نہیں رونا پڑتا۔ عدالتی احکام کے پیش نظر خطا کار پولس افسران بھی سزایاب ہوچکے ہوتے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ اس کے باوجود اگر ہم اسے محض پولس اور خفیہ ایجنسیوں کی کارستانی سمجھ رہے ہوں تو پتہ نہیں اسے ہماری بے حسی کہا جائے ، سادہ لوحی کہی جائے یا بے بصیرتی۔

حقیقت یہ ہے اس وقت ہندوستانی مسلمانوں کو ریاستی دہشت گردی کا سامنا ہے جس کا مقابلہ احتجاجوں ، یاد داشتوں اور ملاقاتوں کے ذریعہ ممکن نہیں ۔ ہر چند کہ جمہوریت میں ان چیزوں کی بھی اہمیت ہے لیکن ہم یہ کر کے تھک چکے ہیں، اس کا مقابلہ الیکشن کے میدان میں ہی ہوسکتا ہے اگر مسلمان نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا ووٹ بینک بننے سے انکار کردیں۔ اس سے ہماری بے وزنی اور بے وقعتی ختم ہوگی اور ہم اپنے حقوق بحال کرپائیں گے۔ عام انتخاب کا اعلان ہوچکا ہے۔ مرکزی حکومت رخت سفر باندھ رہی ہے لیکن ساتھ ہی ایک خطرناک دشمن کی آمد کا خوف بھی دلارہی ہے اور یہ احساس دلانے کی کوشش بھی کہ وہی در حقیقت مسلمانوں کی بہی خواہ ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں خوش نما وعدوں کے پٹارے لے کر مسلمانوں کو رجھانے کی کوشش میں لگ گئی ہیں لیکن کیا ہم نے اس کے لیے کوئی تیاری کی ہے؟
(مضمون نگار الہدی دربھنگہ کے مدیر ہیں)

Shakil Ahmed Salfi
About the Author: Shakil Ahmed Salfi Read More Articles by Shakil Ahmed Salfi: 5 Articles with 2776 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.