کوئلے، چائنا کلے، گرینِٹ پتھر اور نمک کے ذخائر سے
بھرپورصحرائی علاقے تھر کو ان دنوں بدترین قحط کا سامنا ہے، قحط سالی کے
باعث انسانی جانیں تیزی سے ضائع ہورہی ہیں۔ اس علاقے کی چودہ لاکھ سے زیادہ
آبادی کا گزر بسرمال مویشیوں یا بارش کے پانی کی وجہ سے زراعت پر ہے۔ چارہ
اور خوراک دستیاب نہ ہونے کے باعث پہلے مور بیماری کا شکار ہوئے، جس کے بعد
ہزاروں کی تعداد میں بھیڑیں اور بکریاں مر گئی ہیں۔برطانوی دور حکومت میں
15 اگست تک بارشیں نہ ہوتیں تو علاقے کو سرکاری طور پر قحط زدہ قرار دے کر
تمام ٹیکس معاف اور رعایتی قیمت پر گندم کی فراہمی کی جاتی تھی۔ اب ایک بار
پھر تھر کا علاقہ قحط سالی کی لپیٹ میں آگیا ہے۔صحرائے تھر میں دوسال سے
بارش نہ ہوئی، قطرے قطرے کو ترسے تھرکے باشندوں پربھوک وافلاس نے ڈیرے ڈال
دیے ہیں، تھرکی پیاسی زمین سے پرندوں نے تو ہجرت کرلی، لیکن بڑی تعداد میں
مال مویشیوں کی ہلاکت کے بعد انسان بھی مرنے لگے ہیں۔ضلعی ہیڈکوارٹر مٹھی
کے سرکاری ہسپتال میں گزشتہ تین ماہ کے دوران علاج کے لیے لائے گئے 121 بچے
جاں بحق ہوچکے ہیں۔ دسمبر2013ءمیں 42، جنوری میں 40 بچے ، فروری میں36 اور
مارچ کے ابتدائی 5 دنوں میں3 بچے ہسپتال میں دم توڑ گئے ،جبکہ بعض ذرائع کے
مطابق گزشتہ تین ماہ کے دوران تھر کے علاقے میں غذائی قلت کے باعث 193 بچے
جاں بحق ہوچکے ہیں ۔ اس سلسلے میں حکومت سندھ نے5 ماہ سے تھر کو آفت زدہ
علاقہ قرار دے کر امدادی سرگرمیاں شروع کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد
صرف ایک بار 60 ہزار بوری گندم آدھی قیمت پر دینے کا اعلان تو کر دیا لیکن
وہ ساٹھ ہزار بوریاں بھی عوام میں تقسیم نہ ہوسکیں۔ حکومت نے صحرائے تھر کو
آفت زدہ قرار دے کر سرکاری گوداموں کو ساٹھ ہزار گندم کی بوریوں سے تو
بھردیا لیکن یہ گندم فاقوں کی ماری تھرکی عوام میں تقسیم نہ ہوسکی، یوں
گندم سرکاری گوداموں میں پڑی سڑتی رہی ، لیکن مقامی آبادی کے کام نہ
آسکی۔تھرپارکر میں قحط سالی میں سندھ حکومت کی غیر سنجیدگی دیکھنے میں آئی
ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تھرپارکر میں گندم کی فراہمی ٹرانسپورٹرز کو کرایہ
نہ ملنے کے باعث تاخیر کا شکار ہوئی، حکومت سندھ کے محکمہ خوراک نے گندم کی
60 ہزار بوریاں مٹھی پہنچانا تھیں، مگر حکومت کی جانب سے ٹرانسپورٹرز کو
کرائے کی مد میں 30 لاکھ روپے کی ادائیگی کرنا تھی،کرائے کی عدم ادائیگی کے
باعث گندم کی فراہمی تاخیر کا شکار ہوگئی۔ محکمہ خوراک کا کہنا ہے کہ اس کے
پاس گندم کی نقل وحمل کے لیے فنڈز نہیں کہ دوردراز علاقوں تک پہنچائی جا
سکے۔ بڑھتی ہوئی تعداد انتہائی تشویشناک ہے۔بھوک وافلاس سے بچنے کے لیے تھر
کی6 تحصیلوں کے 40 فیصدباشند ے اپنے مال مویشیوں سمیت بیراجی علاقوں کی طرف
نقل مکانی کرچکے ہیں۔
اتنے بڑے نقصان اور میڈیا کی جانب سے مسلسل متوجہ کرنے کے بعد تھرپارکر میں
قحط سالی سے بچوں کی ہلاکت پر حکومت سندھ نیند سے جاگ گئی اوروزیراعلیٰ سید
قائم علی شاہ مٹھی پہنچ گئے اور متاثرین کے لیے امداد کی بجائے مٹھی کے
گوداموں میں گلنے سڑنے والی 60 ہزاربوریاںگندم کو تقسیم کرنے کااعلان کیا۔
وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے تھرپارکر میں قحط سالی سے ہلاکتوں کا
اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھوک سے جاں بحق ہونے والے بچے 5 سال سے کم عمر
ہیں۔ اس سال سخت سردی پڑی جس کی وجہ سے بچے نمونیا میں مبتلا ہوگئے، جب کہ
دوسری وجہ خوراک کی کمی ہے، جس کے باعث بچوں کو دودھ نہیں ملا۔وزیراعلیٰ کا
مزید کہنا تھا کہ یہ حقیقت ہے کہ سرکاری گندم کی درست تقسیم نہیں ہوسکی
تھی، جس وجہ سے بھی غذا کی کمی میں اضافہ ہوا، گندم کی تقسیم رلیف کمشنر کے
ذریعے ہونی تھی جو بیمار تھے، جس وجہ سے تقسیم متاثر ہوئی۔ صرف تھر کے ضلعی
ہپستال مٹھی میں سہولیات موجود ہیں، پورے ضلعے کے علاقہ دیگر علاقوں سے بھی
یہاں مریض لائے جاتے ہیں۔ مٹھی ہسپتال کے ایم ایس کا یہ فرض تھا کہ جب بچوں
میں غذائی قلت کی تشخیص ہورہی تھی تو ڈائریکٹر اور سیکیرٹری کو بتاتا، اس
نے ایسا نہیں کیا کیونکہ ان بچوں کو فوری طور پر حیدرآباد یا کراچی منتقل
ہوناچاہیے تھا۔ دوسری جانب سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مشیر عالم نے تھر
میں قحط سالی میں بچوں کی ہلاکت کا از خود نوٹس لے لیا ہے اور 14 مارچ کو
متعلقہ حکام سے اس سلسلے میں جواب طلب کیا ہے۔ہائی کورٹ نے متعلقہ حکام سے
سوال کیا ہے کہ تھر میں قحط سالی کی صورتحال کیوں پیدا ہوئی اور علاقے میں
سرکاری گندم کی تقسیم کا کیا نظام ہے، اس سے عدالت کو آگاہ کیا جائے۔
واضح رہے کہ قحط سالی کا شکار علاقہ تھرپارکر قدرت کی جانب سے عطا کیے ہوئے
بہت سے ذخائر سے مالا مال ہے۔ یہاںکوئلے، چانئا کلے، گرینِٹ پتھر اور نمک
کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ تھر کے ریگستان میں ہی کوئلے کا دنیا میں اب تک کا
سب سے بڑا ذخیرہ دریافت ہوا تھا۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا ذخیرہ 10ہزار
کلومیٹر میں پھیلا ہوا ہے۔اس علاقے میں تقریباً سارا سال ہی پانی کا بحران
رہتا ہے۔ آئی آر آئی این کی رپورٹ کے مطابق ضلع کا مجموعی رقبہ 22 ہزار
مربع کلومیٹر ہے۔ علاقے میں چودہ لاکھ افراد اور پچاس لاکھ مویشی موجود ہیں
جبکہ یہاں سالانہ نو ملی میٹر سے بھی کم بارش ہوتی ہے۔ علاقے کے صرف پانچ
فیصد لوگوں کو مہینے میں صرف 2 بار میٹھے پانی کی سہولت میسر آتی ہے۔ وہ
بھی صرف تعلقہ مٹھی کے لوگوں کو جو تھرپار کر کا صدر مقام ہے۔ تھرپارکر
ڈسٹرکٹ کے ایک سو چھیاسٹھ دیہہ میں سے صرف نو دیہہ ایسے ہیں جو ایک بیراج
سے سیراب ہونے والے علاقے میں واقع ہیں۔ اس ڈسٹرکٹ میں باقی تمام علاقے کے
لوگوں کو اپنی خوراک اور مویشیوں کے چارے کی فصلوں کی کاشت کے لیے بارش پر
انحصار کرنا پڑتا ہے۔ حالیہ موسم کے آغاز میں معمولی سے بونداباندی کے سوا
اس علاقے میں بالکل بھی بارش نہیں ہوئی ہے۔ پانی کے تقریباً تمام ذخائر
سوکھ گئے ہیں۔ ہر دو یا تین سال کے بعد تھرپارکر خشک سالی سے متاثر ہوجاتا
ہے، جس کی وجہ سے خوراک کی قلت پیدا ہوتی ہے، نتیجے میں یہاں کے لوگوں کو
بیماریاں اور اموات جیسی مصیبتیں جھیلنی پڑتی ہیں۔بچے اور حاملہ خواتین سب
سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ مٹھی کے سول ہسپتال میں صحت کی دیکھ بھال کی
مناسب سہولتیں موجود نہیں ہیں۔ بارش پر انحصار کرنے والے اس ضلع میں
بھیڑوں، اونٹوں اور گائے بکریوں کی ایک بڑی تعداد خشک سالی کی وجہ سے ہلاک
ہوچکی ہیں۔ بہت سے دیہاتوں میں موروں کی بڑی تعداد مرچکی ہے، لیکن اس
صورتحال میں بہتری کے لیے حکومت سندھ نے کوئی قابلِ ذکر اقدام نہیں کیا ہے۔
ڈیپلو، چھاچھرو، اسلام کوٹ، ڈہلی اور ننگرپارکر سے موصول ہونے والی اطلاعات
سے معلوم ہوا ہے کہ بہت سے غریب تھری خاندان اپنے مویشیوں کے ساتھ بیراج کے
علاقوں میں چلے گئے ہیں۔ مٹھی کے ہسپتال میں داخل مریضوں کے رشتہ داروں کا
کہنا ہے کہ ہسپتال کی انتظامیہ دوائیں فراہم نہیں کررہی ہے اور انہیں مہنگی
دوائیں خریدنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ ہم اپنے بچوں کو کھانا توکھلا نہیں
سکتے، دوائیں کیسے خرید سکتے ہیں؟ مبصرین کا کہنا ہے کہ تھر کے علاقے میں
لوگوں کے لیے سہولیات کا انتظام کرنا حکومت سندھ کے ذمے ہے، ان کی خواراک
اور ضروریات زندگی کی فراہمی ہر صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے، وہاں کے
لوگ خوراک کے لیے تڑپ تڑپ کر جان دے رہے ہیں، لیکن حکومت سندھ کو اس کی
کوئی پروا نہیں ہے۔ حکومت سندھ ایک طرف سندھ کی ثقافت بچانے کے نام پر
لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کررہی ہے، جبکہ دوسری جانب سینکڑوں لوگ بھوک کے
باعث مررہے ہیں اس کی کوئی فکر نہیں ہے۔ حکومت سندھ نے کروڑوں روپے خرچ
کرکے سندھ کی ثقافت تو بچالی، لیکن تھر میں بھوک سے مرنے والے انسانوں کو
نہ بچا سکی۔لہٰذا حکومت سندھ کو چاہیے کہ وہ خشک سالی کے باعث خوراک کی قلت
اوروبائی بیماریوں پرقابوپانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پراقدامات کرے۔ |