ماما عبدالقدیر بلوچ کا نام تو ضرور سنا،
تصاویر بھی دیکھیں اور بھی پڑھا بھی کہ ماما کئی سال سے بلوچ لاپتہ افراد
کا مقدمہ لے کر گلی گلی نگر نگر پھر رہا ہے۔ماما نے 27اکتوبر 2013کے دن جب
دنیا بھر میں ساری کشمیر ی قوم بھارتی قبضے کے خلاف یوم سیاہ مناتی ہے کے
روزبلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ سے لانگ مارچ کاآغاز کیا جوبالآخر 28فروری
کواسلام آباد میں اقوام متحدہ کے دفترکے باہر پہنچ گیا۔اسلام آباد میں
پہنچنے کے دوران راستیمیں پھر پہلی پریس کانفرنس اور پھربی بی سی گفتگو میں
ماما نے تو سب کچھ کھول کر بیان کر ہی دیا کہ یہ اس کی اس جدوجہدکے پیچھے
کون ہے اور کون اس سے یہ سب کرا رہا ہے۔پریس کانفرنس میں ماما نے کھل اور
دو ٹوک اندا ز میں کہا کہ اسے اقوام متحدہ نے اس بات پر آمادہ کیا تھا کہ
وہ بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کو لے کر اسلام آباد آئے تاکہ اقوام متحدہ
کے ذریعے ان کامسئلہ عالمی سطح پر پہنچایا جا سکے۔نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے
ہوئے ماما نے کہا کہ اگر کوئی کسی کے ساتھ نہیں رہنا چاہتا تو پھر اس کو
زبردستی کیسے رکھا جا سکتا ہے؟یہاں ماما نے پاکستانی میڈیا سے شکوہ کیا کہ
وہ ان کے مسئلے کو اہمیت نہیں دے رہا جبکہ صرف بی بی سی ہی اس کا حق ادا کر
رہا ہے۔پھر بی بی سی سے ہی انٹرویومیں ما ما نے کہا کہ متحدہ پاکستان کا
(اﷲ نہ کرے) تصور ختم ہو چکا ہے اور ان کے نزدیک اس کی اب کوئی اہمیت نہیں
ہے ۔
ماما نے جس قافلے کے ساتھ کوئٹہ سے پہلے کراچی اور پھر اسلام آباد کا سفر
کیا اس میں نو خواتین ،تین بچے اور پانچ مرد شامل تھے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے
کہ ایک طرف تو ماما عبدالقدیر تو کہتا ہے کہ بلوچستان میں 19ہزار 2سو لوگ
لاپتہ ہیں لیکن اس کے ساتھ لانگ مارچ کرنے والے افراد کی تعداد آخر
کیوں17افراد سے نہ بڑھ سکی۔کیا باقی 19ہزار سے زائد’’ لاپتہ‘‘ افراد کے
لواحقین کو اپنے پیاروں سے کوئی محبت نہیں ؟آخر کیا وجہ ہے کہ سارا غم ماما
عبدالقدیر کے دل میں ہی جاگزیں ہے؟
بلوچستان میں جاری وہ معمولی شورش جس کا دائرہ کار زیادہ سے زیادہ 5اضلاع
تک ہے، کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہاں متعین ہماری پولیس، ایف سی
اور خفیہ اداروں نے بہت سے بلوچوں کو لاپتہ کیااور انہیں غیر قانونی حراست
میں رکھا گیاہے۔ بلوچ عوام کے نام پر سیاست کرنے اورانسانی حقوق کے نام پر
پاکستان کی جڑیں کاٹنے والے اداروں کی رپورٹوں کے مطابق بھی اب تک بلوچستا
ن میں پندرہ سو کے لگ بھگ افراد کو’’ غائب ‘‘کیا گیاجبکہ سپریم کورٹ کی
کوئٹہ رجسٹری میں جمع کرائے گئے محکمہ داخلہ حکومت بلوچستان کی رپورٹ کے
اعدادوشمار کے مطابق صوبے بھر میں 110افرادلاپتہ ہیں۔جن کے مکمل کوائف
عدالت میں پیش کئے جا چکے ہیں۔ان میں سے آٹھ افراد خفیہ اداروں ،چھ افراد
پولیس اور بارہ افراد ایف سی کے پاس ہیں ۔ بہت سے افراد کے متعلق یہ پتہ چل
چکا ہے ہے کہ وہ افغانستان کے ان فراری کیمپوں میں مقیم ہیں جو بھارت نے
پاکستان کو توڑنے کے لئے وہاں سالہا سال سے قائم کر رکھے ہیں اور وہ وہاں
سے ہیبلوچستان کی معمولی سی شورش کو خوب ہوا دے رہا ہے۔بھارت کی اس مداخلت
کا بارہا مرتبہ تذکرہ سابق وزیر داخلہ اے رحمان ملک بھی کرتے رہے ۔اسی کا
تذکرہ موجودہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف بھی کر رہے
ہیں۔یہاں سے ہی تربیت لے کر آنے والے تخریب کارآجکل گیس پائپ لائنوں ،بجلی
کے ٹاوروں ،ریلوے ٹریکس کو اڑانے اور دہشت گردی کے دیگر واقعات میں مصروف
ہیں۔اس سے پاکستان کا جس قد ر نقصان ہو رہا ہے اس کی تفصیل میں جانے کی
ضرورت نہیں۔افسوس اس بات کا ہوتا ہے جو ہمارے ملک کے وہ افراد،نامور شخصیات
اور تنظیمیں جودن رات حکومت پر دباؤ ڈالتی ہیں کہ طالبان کے خلاف اور
قبائلی علاقوں میں صرف اور صرف آپریشن ہی کیا جائے وہ یہاں مکمل خامو ش
ہوجاتے ہیں۔بلکہ بہت سے لوگ تو ماما عبدالقدیر کوسب سے بڑا مظلوم اور ہیرو
تک قرار دینے سے نہیں چوکتے او ر اس میڈیا میں قصیدے بیان کئے جاتے ہیں۔اگر
ہمارے عسکری ادارے قبائلی علاقوں میں طاقت کا استعمال کریں تو اسے درست
قرار دیا جاتا ہے لیکن اگر وہی ادارے ملک کی خاطر جانیں دے کر بلوچستان میں
کوئی چھوٹا موٹا اقدام کریں تو اس کی نہ صرف مخا لفت کی جاتی ہے بلکہ مذمت
بھی کی جاتی ہے۔یہ وہی کیفیت ہے کہ ہماری مسلح افواج نے مشرقی پاکستان میں
آپریشن کیا تو اسے آج بھی ہر کوئی غلط کہتا ہے لیکن یہی مسلح افواج اگر
سوات میں آپریشن کریں تو اس کی بھر پور تحسین و حمایت کی جاتی ہے۔اس میں
کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ قوم ہمیشہ اپنی فوج کی پشت پر کھڑی ہو تو تبھی
دشمن کے خلاف کامیابی ملتی ہے لیکن قوم کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ
عالمی سازشوں اور دشمن کی چالوں کو سمجھے۔
بلوچستا ن کے معاملے میں یہ بات بھی شک و شبے سے پاک ہے کہ بلوچ باغی
تنظیمیں بھی لوگوں کو غائب کر رہی ہیں۔ایسے لوگ جو ان تنظیموں کے جنگجوؤں
کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتے انہیں مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جا تا ہے، اس
سلسلے میں بعض افراد کو حکومتی ایجنٹ قرار دے کر قتل بھی کیا جا چکا ہے جو
کہ عام بلوچ تھے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت حال ہی میں بلوچستان کے علاقے خضدار
توتک کی اجتماعی قبر سے پندرہ لاشوں کی برآمدگیکا معمہ بھیہے کہ یہ کون تھے
اور ان کو کس نے قتل کیا؟حیران کن بات یہ ہے کہ اب تک ان لاشوں میں سے دو
کے سوا باقی لاشوں کی شناخت نہ ہوسکی کہ یہ کون لوگ تھے؟لیکن ان لاشوں کو
لے کر ہمارے دشمن دن رات ملک کے خلاف پراپیگنڈے میں مصروف ہیں۔گزشتہ چند
سال میں بلوچستان میں مقیم دوسرے صوبوں خصوصاً پنجاب کے رہنے والے لوگوں کو
جنہیں وہاں رہتے اتنا زمانہ بیت چکا تھا کہ اب ان کی نسلیں خود کو وہاں کا
مقامی فرد ہی سمجھتی تھیں، کو چن چن کر مارا اور بھگایا گیا ہے۔ ان کے گھر
بار، کاروبار سب کچھ یہیں تھا۔اگر کسی کو یقین نہ ہو توکوئٹہ یا بلوچستان
کے کسی بلوچ شہر میں جا کر خود دیکھ لے۔کہ کیسے دوسرے صوبوں کے رہنے والے
ان بلوچ علاقوں سے کچھ لوٹ کر دیس نکالا دیا گیا ہے۔یہ ہمارے ملک کا سب سے
خطرناک معاملہ تھا لیکن اس پر کہیں کبھی کوئی بات نہیں ہوتی۔
اسی اعتبار سے ماما عبدالقدیر کا مقدمہ اتنا سادہ نہیں ہے کہ جس طرح اسے
ہمارے بہت سے لوگ اور کچھ دانشور سمجھ رہے ہیں۔ماما نے اسلام آباد داخلے کے
وقت اسی تخیلاتی بلوچ ملک کے ملی ترانے پڑھتے ہوئے قدم آگے بڑھائے تھے جس
کا خواب لے کر کئی بلوچ لیڈر بیرون ملک مقیم اور اسی اقوام متحدہ کے کندھوں
پر سوار ہو کرملکوں ملکوں پاکستان کو بدنام کر کے اس کے مقدس وجود کے خلاف
ناپاک و مذموم مہم چلا رہے ہیں۔ماما نے کھل کر ان بلوچ لیڈروں کی حمایت بھی
شرور کر ررکھی ہے بلکہ بی بی سی سے گفتگو میں تو ماما نے یہ بھی کہا تھا کہ
ہم پاکستان سے پہلے آزاد ہوئے تھے اور بعد میں ہم پر قبضہ جما لیا گیا
تھا۔اگر کسی کو پھر بھی شک ہو تو سوشل میڈیا پر ماما عبدالقدیرکے بنے خصوصی
پیجزپر کی ساری فکر ،خیالات اور ارادوں کو کسی بھی وقت دیکھا جا سکتا ہے۔
فلسطین،کشمیر،فلپائن،برما،تھائی لینڈ،بھارت،شام،انگولا اور اب حال ہی میں
وسطی جمہوریہ افریقہ میں مسلمانوں پر بے پناہ مظالم اور ان کے قتل عام
اقوام متحدہ کو کبھی معمولی جھر جھری بھی نہیں آتی۔ البتہ مسلمانوں کے
ممالک انڈونیشیا اور سوڈان کو چند ہی سال میں توڑ مروڑ کر عیسائی مشرقی
تیمور اور عیسائی جنوبی سوڈان بنا دیئے جاتے ہیں۔ماما عبدالقدیرکا اقوام
متحدہ کو مداخلت کی دعوت دینا اور بلوچ باغی رہنماؤں کا وہاں پنا لے کر
پاکستان کے خلاف مہم چلانا اتنا سادہ کھیل نہیں کہ اس سے آنکھیں چرا لی
جائیں۔پاکستان کے محافظ تمام اداروں کی بلوچستان کے مسئلے پر بھی کھل کر
حمایت و تعاون کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے خلاف یہ حقیقی سازش ناکام ہو۔یہاں
اس امر کی جانب بھی توجہ کی ضرورت ہے کہ بلوچستان کے عوام کا احساس محرومی
ختم کرکے اور ان کی پسماندگی کے اسباب دور کر کے ملک دشمن عناصر کی سازشوں
کو ناکام بنایاجائے ۔بھارت بلوچستان میں ملوث ہے تو اس سے بجلی خریدنے اور
تجارت بڑھانے کی باتیں ختم کر کے اس سے پہلے اپنے بنیادی معاملات حل کئے
جائیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بھارت سے چند میگا واٹ انتہائی مہنگی بجلی لے
کر جہاں اپنے پانی کے حق کے دعوے تک سے بھی محروم ہو جائیں وہیں ہم پھر
بلوچستان میں اس کی کھلی اور خوفناک سازش کا نام بھی لینے کے قابل نہ رہیں
اور اقوام متحدہ ہمارے خلاف اپنے ان ناپاک عزائم کو تیزی سے آگے بڑھائے جن
کا پہلے بھی صرف مسلمان ملکوں کو شکار کر چکی ہے۔ |