ہَوا کسی کی نہیں

خوب چل رہے ہیں مذاکرات۔ بہترین گزر رہی ہے مذاکراتی فریقین کی۔ امن کے نام پر طالبانی نظام کے حمایتی حضرات کو اپنا ایجنڈا پاکستانی ریاست پر مسلط کرنے کا ایسا موقع اور میڈیا و عوام کی ایسی توجہ کم کم ہی نصیب ہوئی ہے!
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو

موجودہ حالات میں حکومت سیکیورٹی معاملات پر ’ردِ عمل‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ حالانکہ حکومت کو اس حساس ترین معاملے پر، جس کا براہِ راست تعلق ریاست کی بقاء سے ہے،ڈرائیونگ سیٹ پر ہونا چاہیے تھا۔ پر زمینی حقائق یہ ہیں کہ ڈرائیونگ سیٹ پر بگڑے بھائی بیٹھے ہیں اور ہمیں جہاں جہاں جیسے جیسے لے کر جانا چاہتے ہیں لے کر جا رہے ہیں۔ مذکرات کی گاڑی جس رفتار جس ڈگر پر چلانا چاہتے ہیں چلاتے ہیں اور حکومت ری ایکٹو موَڈ میں بیٹھی ہاتھ پاووں مار رہی ہے۔ دہشت گرد جب سیکیورٹی اہلکاروں کے گلے کاٹ دیتے ہیں تو افواجِ پاکستان ردِ عمل کا مظاہرہ کرتیں ہیں۔ اب یہ ردِ عمل حکومت کی ایما پر ہوتا ہے یا افواج خود بدلہ لینے کا فیصلہ کرتے ہیں کے بارے میں ابہام موجود ہے۔ اگر ردِ عمل حکومت کی ایما پر ہے تو یہی ردِ عمل عام پاکستانیوں کا خون بہنے کے بعد دکھائی کیوں نہیں دیتا؟اس سے واضح ہوتا ہے کہ عام پاکستانیوں کی جان کی حکومت یا سیکیورٹی اداروں کی نظر میں کیا وقعت ہے!!! حکومت مذاکرات کو سیکیورٹی اہلکاروں کی جان کی قیمت پر تو آگے بڑھانے پر تیار نہیں ہوتی اور مذاکرات ڈیڈ لاک پر آ جاتے ہیں پر عام پاکستانی جان سے جائے تو یہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی سازش قرار پاتی ہے۔

دہشت گردوں کے خلاف افواج کے ردِ عمل اور حالیہ بمباری کے بعد مخالف گروہ نے جنگ بندی کا اعلان کیا تو سب نے سکھ کا سانس لیا کہ چلو ایک ماہ تو قتل و غارت گری سے جان چھٹی۔ سب نے سکھ کا سانس لیا مگر نثار صاحب ذرا زیادہ جذباتی ہو گئے اور اس جنگ بندی کے اعلان پر اس قدر یقین کر گئے کہ خوشی سنبھالی نہ گئی اور اسلام آباد کو محفوظ ترین شہر کے خطاب سے نواز دیا۔ اس کے بعد اسی خوشی میں دہشت گردوں نے اسلام آباد کے F-8 سیکٹر میں آتش بازی کا مظاہرہ کیا اور ایسا عالی شان مظاہرہ کیاجو سب کے سامنے ہے۔گیارہ پاکستانیوں کی ہلاکت پر مزید بات کر کے خون جلانا بے سود ہے کیونکہ ہلاک شدگان کے لئے افسوس کا اظہار کرنا، انہیں شہید پکارنا اور مذاکراتی عمل پر حکومت کی کمزوری پر کڑھنا بھی مذاکرات سبوتاژ کرنے کی کوشش کے زمرے میں آتا ہے۔ افسوس کرنے والے تیسری قوت کا بازو قرار دیے جا کر تحفظِ پاکستان آرڈینینس کے تحت غائب کیے جا سکتے ہیں اور داد رسی کے لئے بھی کوئی آگے نہ آئے گا۔ اب ہر کوئی ماما قدیر تو نہیں ہوتا نہ!!! ایک شعر نظر سے گزرا جو حالات کی عمدہ ترجمانی کرتا ہے:
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گماں نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں

ریاست کی رٹ سرینڈر کیے بنا ،دہشت گرد عناصر کے مطالبات کو جائز تسلیم کئے بغیر اور ان کو سٹیک ہولڈر کا درجہ دیے جانے کے سوا مذاکرات کی کامیابی ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ نظریہ کی جنگ ہے۔دہشت گردوں کا نظریہ القائدہ سے جڑا ہے اور االقائدہ دنیا میں جس جگہ موجود ہے یہی قتل و غارت گری کر رہی ہے۔ وہ بوکوحرم کے نام سے نائجیریا میں ہو،انصار الشریعہ کے نام سے یمن میں ہویا الشباب کے نام سے صومالیہ میں ہو!!! ان کا وطیرہ تشدد کی بنیاد پر اپنے ایجنڈے کی تکمیل ہے۔ مزید اعلی مثالیں کینیا، شام، سوڈان اور مصر کی صورت میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔

مذاکرات کی کامیابی اور مذاکرات کی کامیابی کو طالبانی شریعت کے نظام کے نفاذ سے تعبیر کرنے والوں کے لئے یہ یوں ہی ہے کہ جیسے بلی کو چھیچھڑوں کے خواب۔ پاکستان کی حکومت کمزور ہو سکتی ہے مگر عوام نہیں۔

قیامِ پاکستان کے بعد پاک سر زمیں کو لاحق بیرونی خطرات اور دشمن کی بری نظر کے پیش نظر پاک افواج کو مضبوط اور طاقتور کرنے کی پالیسی اپنائی گئی جو اس وقت کی عین ضرورت بھی تھی۔ عوام کی فلاح و بہبود، ترقی اور صوبوں کے جائز حقوق کی قیمت پر افواج کو مضبوط کیا گیا!اتنا مضبوط کر دیا گیا کہ آنے والے ادوار میں پاکستان نے چار مارشل لاء بھگتے۔ پاکستان کی عوام نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے افواجِ پاکستان کو سینچا ہے اور اپنی چادر تنگ کر کے اسے ہر طرح کے وسائل سے لیس کیا ہے پر اب جب پاکستانی عوام کو حقیقی معنوں میں اس ادارے کی ضرورت آن پڑی ہے تو اسے کام کرنے سے روکا جا رہا ہے۔

حکومت سے صرف درخواست ہی کی جا سکتی ہے کہ دہشت گردوں کو دہشت گرد قرار دیا جائے نہ کہ سٹیک ہولڈر۔سادہ لوح عوام کو گڈ اور بیڈ دہشت گردوں کے چکر میں پھنسانے والی قوتوں کے چنگل سے آزاد کرانا حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے۔ دہشت گرد دہشت گرد ہوتا ہے۔ گڈ یا بیڈ نہیں۔بیڈ دہشت گرد کی کاروائی کے نتیجہ میں بے گناہ افراد مارے جاتے ہیں اور یہی نتیجہ گڈدہشت گرد کی کسی کاروائی کے بعد سامنے آتا ہے۔ مختلف فلیورز کے تمام دہشت گردوں کو دہشت گردی کے خانے میں ڈال کر ان کے خلاف زیرو ٹولیرنس پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ ری ایکٹو نہیں پرو ایکٹو پالیسی کی ضرورت ہے۔

اسلام آباد کے قتال ، ایک مخلص سیشن جج کی ٹارگٹڈ ہلاکت ، فذا جیسی نوجوان پاکستانی سمیت دیگر قیمتی جانوں کے ضیاع کی مکمل ذمہ داری اس حکومت اور سیکیورٹی اداروں پر عائد ہوتی ہے جو لاحاصل مذاکرات کے نام پر یرغمال بن چکے ہیں۔
Jahid Ahmad
About the Author: Jahid Ahmad Read More Articles by Jahid Ahmad: 19 Articles with 12033 views Columnist for Roznama "Din"... View More