شرم تم کو مگر نہیں آتی

ملک کے فرقہ پر ست عناصر اور تشدد و فر قہ و اریت کو اپنا نصب العین تصو رکر نے والو ں کے ہر دیہ سمراٹ او ران فر قہ پر ست افراد کے ممکنہ و زیر اعظم نیز گجرات میں قتل و خون او رظلم و استبداد کے ستم نو ایجاد کے مو جد و بانی نریندر مو دی آج کل ایسی ہذیان گوئی اور لغویات میں مشغول ہیں کہ ہر ایک ذی فہم او ردانشمند درد دل میں مبتلا ہے اگر بات اسی پر ختم ہو جاتی تو غنیمت تھی حیران کن تو یہ ہے دن بدن اپنی اس لغویات او رہذیان گو ئی کے عناصر مکروہ میں اضافہ ہی کرتا جارہا ہے نیز اپنی جاہلیت اور تاریخ سے با لکل ناآشنائی کا احمقانہ مظاہر ہ بھی کر رہا ہے ویسے تو یہ قاتل ہو شیا ر پا لیٹکل سائنس میں گجرات یو نیو رسٹی سے پو سٹ گر یجویٹ ہے تاہم اس ڈگری کے حامل ہونے کے باو جو د بھی جہالت کا سر اپا مجسمہ ہے ، بھگت سنگھ کو لاہور جیل میں پھانسی دی گئی تھی اور وہ تاریخ ۲۳/ مارچ ۱۹۳۱ء کی تھی لیکن مو دی نے ایک عظیم مجاہد کیساتھ یہ مذاق او ناروا سلوک روارکھا کہ ان کو ایک ہی جملے میں انڈمان بھیج دیا اس قاتل ہوشیا ر بلکہ صد ہوشیا ر کی یہ تاریخ سے جہالت دیکھئے کہ اپنے آبا و اجداد کو بھی اپنی اس ناعقلی کی زد میں لے آیا ،شیاما پر ساد مکھرجی کچھ کے رہنے والے تھے او ران کی وفات کشمیر میں ہوئی تھی لیکن مو دی نے ان سوئزر لینڈ کے شہر جینوا میں پہو نچاکر دم لیا جبکہ اسی مو دی نے۲۰۰۳ ء میں ان کی استھیاں منگوائی تھی اسی طرح بہار کی عوام کی خو شامدی اور دام فریب میں لانے کی خاطرمکا ری ملا حظہ کیجئے کہ سکندر اعظم کی فو ج کو بہار کی سر حدو ں تک پہو نچادیا ،بڑی حیرانی ہوتی ہے کہ اس فر مانروائے جہاں کی فوج نے ہر ایک ملک و قوم کو اپنے پاؤں سے کچل کر رکھ دی تھا مگر بہار کے عوام میں اتنی طاقت اور ہمت کہاں سے آگئی کہ سکندر اعظم کو اپنا سا منھ لیکر و اپس لو ٹنا پڑا ؟ اب مودی کو ہی اس کا جواب دیناہوگا کہ بہار کے عوام میں اتنی طاقت و جرأت کیسے عود کر آئی ؟ الغرض اس شخص قاتل ہزار جاں کی ایسی ہی دل لگی اور پر فریب مذاق ستم کو ملاحظہ کیجئے کہ جہاں ہر طرف امن و سکون اور موسم بہاراں کے جھونکے چلا کرتے ہیں اس مست اور المست باد بہاری میں سمیات کے دخول اور شمولیت کے اپنے فطری تقاضوں کو اس طرح ادا کیا کہ باد بہاری بھی برہم ہوگئی اور فضا بھی اپنی برہمی کا اظہار کر بیٹھی اس بندے نے حسب معمول اپنی جہالت کے بموجب دہشت گردی کی جنت بہار کو قرار دیا۔جب کہ صوبہ بہار دہشت گر دی کیا ہے کس کو کہتے ہیں کون لوگ اس میں شامل ہوا کرتے ہیں، نہیں جانتا اور یہ سرزمین کیونکر جانے گی کہ دہشت گردی کیا ہے اس لیے کہ یہاں ہر ایک فرد اس سماج کش کے خلاف برسرپیکار ہے بلکہ ایک ایسی سرزمین کے افراد ہیں جہاں ہر سمت سے اخوت و مروت اور حب الوطنی کی دلفریب ہوائیں چلا کرتی ہیں اور جہاں کا ذرہ ذرہ محبت اور آپسی اتحاد واتفاق کا مہر تاباں ہے ۔

گجرات کے وزیر اعلی نے جس بیباکی اور بے خوف وخطر صوبہ بہار کو دہشت گردوں کی جنت قرار دیا ہے اس سے نہ صرف جمہوری اقدار کی گردن زنی ہے بلکہ ان تمام تاریخی اور مسلم الثبوت حقائق کو بھی یک لخت لغو اور باطل قرار دینا بھی ہے کہ بہار ایک پرامن جگہ ہونے کے باوجود دہشت گردوں کی جائے پناہ اور دہشت گردی کو فروغ دینے والی ہے یہ جگہ اور یہ سرزمین کیونکر دہشت گردوں کو ایک پرامن اور محفوظ جائے پناہ فراہم کرے گی کہ جس نے ازل سے ہی اپنے دامن میں امن وآشتی کے گلہائے رنگا رنگ کو رکھے ہوئی ہے۔اس قاتل ہو شیا ر نے بزعم خویش اپنی اس فہم کا اظہا رکیا کہ عوام او ربہار کے پرامن او رجمہو ریت کو اپنا ایمان تصور کرنے والے افراد اس سے ہو شیا راور بیدا رہو جائیں کہ بہار کی حکومت اور پھر اس صوبہ کے باوقار افراد اور دیگر سیکولر اشخاص اپنی نگرانی میں دہشت گرد اور دہشت گردی کو پھلنے اور پھولنے کا موقع دے رہے ہیں اور ان ناپسندید ہ افراد کو اپنی سرگرمیوں کو پایہ تکمیل تک پہونچانے کے لیے مکمل حمایت کررہے ہیں ،یہ اس کی صریخ اور بدیہی خود فراموشی ہے کہ سیکولرزم کے حامی افراد اس کے دام تزویر میں آجائیں اور اپنی حمایت اس کو وقف کردیں کیونکہ عوام اور جمہوریت کے پاسباں بغور ملاحظہ کر چکے ہیں کہ بہار کیا ہے اور یہاں کون کون سی سرگرمیاں اور تحریکات جنم لے رہی ہیں اور یہ صوبہ کس کو اپنے لیے لازمی قرار دیا ہے کہ جس سے محض کھوکھلے دعووں کا دعویدار بہار نہ ہو بلکہ حقیقت اور صد فی صد سچائیوں کا حامل ہو کہ ترقیوں کے اوج ثریا سے ہمدوش کون ہے ۔غلطی در غلطی اور بے بنیاد الزام میں اپنی شاطرانہ مہارت میں عیار مودی نے جس پیرائے میں بہار کو دہشت گردوں کی جنت قرار دیا ہے اس سے یہی ظاہر ہورہا ہے کہ اس پر جو داغ نامحو لگ چکا ہے وہ کسی حد تک خفیف ہوجائے ، یہ نادانی ہی ہو گی کہ کسی کو مجرم کہہ کر خود پر بے گناہی اور معصومیت کا پردہ ڈال دیا جائے ۔سیاست اور جاہ و منصب کی افتاد کیسی ہوتی ہے اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ مودی نے ان تلخ حقائق کو بھی پس پشت ڈال دیا بہار تو گوتم بدھ کے عرفان کا مرکز ہے یہیں تو مہاویر اور دیگر مذہبی اوتاروں نے لوگوں کو امن و آشتی کا پیغام جاوداں سنایاتھا یہ وہی بہار ہے جہاں مخدوم الملک حضرت یحیی منیری ؒ نے کفر و شرک کی ضلالت کو چاک کیا تھا اور لا الہ الا اﷲ کا پیغام سروش سنایا تھا اور لاریب اب بھی یہاں کی عوام خواہ وہ صاحب اقتدار ہو یا حزب مخالف یا پھر مسلمان ہو یا ہندو کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو اسی کواپنے لیے مشعل راہ خیا ل کرتا ہے اور یہ بھی کیو ں نہیں کہ جس کی خو اور فطر ی تقاضوں میں امن او ر آشتی سر ایت کر گئی ہو وہاں سے امن و سکو ن کا ہی پیغام ہی ملے گا ۔مو دی نے اپنی اسی خو کا اظہا رکیا ہے کہ جس خو اور فطر ی تقاضوں کی وجہ سے گجرات میں انسانو ں کے خون سے ایسی ہولی کھیلی گئی کہ تاریخ کا ایک سیا ہ باب کہلائی آخر یہ بات بھی عیاں ہو تی ہے کہ مو دی نے یہ بات کیو ں کہی کیا اس انکشاف کے ماقبل ملک کی تفتیشی ایجنسیاں اور اس ذیل میں متحر ک و فعال افراد لا علم تھے ؟یاپھر اپنی اس ہذیان گو ئی کے ذریعہ ملک کی تفتیشی ایجنسیوں کی خامیوں کو اجاگر کر رہا ہے کہ یہ ایجنسیاں اور ادارے اپنی فرائض منصبی کو کما حقہ ادا کر نے سے گریزاں ہیں ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ مو دی نے طو طا چشمی سے کام لیا ہو مگر یہ ادارے او رایجنسیاں اپنے فر ائض کو بخوبی ادا کر رہے ہیں اور جو افراد اس گناہ میں ملوث ہیں ان کو کیفرکر دا رتک پہو نچارہے ہیں ۔یہ کیسی ستم شعاری اور مکمل جہالت ہے کہ اپنے دامن تارتار کو تودیکھتے نہیں مگر اوروں پر انگشت نمائی کو اپنافریضہ گمان کر رہے ہیں !

گو دھرا سانحہ کے بعد کشت و خون اور لو ٹ مار کی جو طرح نو ایجاد ہوئی اس سے ہر بشر و اقف ہے کیا یہ دہشت گر دی نہیں ؟احسان جعفری کو زندہ نذرآتش کر دیاگیا اور ان افراد کو بھی مر حوم کیساتھ آتش نمرود میں جھونک دیا گیا جو ان کے مکان میں پناہ کی غر ض سے آئے ہوئے تھے باربار فون اور مدد کیلئے فریاد کے باوجود بھی کسی رد عمل کے اظہار کے بجائے خامو شی اختیار کر ناکیا یہ دہشت گر دی نہیں ؟

عشر ت جہاں کو فر ضی تصادم کی نذر کر دیاگیا کیا یہ دہشت گر دی نہیں آخر گجرات کے نام نہاد ہیرو او راگلے وزیر اعظم کے نشہ میں مد ہوش مو دی کی نظر میں دہشت گر دی کیا ہے ؟ کیا اس نے اس کو بھی بھلا دیا کہ ازل سے ہی اس کادامن تارتار ہے مو دی نے بہار پر جو نازیبا الزام عائد کیا ہے وہ ایک محض سیا سی داؤ پیچ ہے اور اپنی مکروہ ذہنیت کا اظہا رہے کہ اس نے یہ بھلا دیاکہ معصومو ں کی چیخ وپکار اس کی نیند حرام کیے ہو ئی ہے ۔مو دی کایہ الزام جن امور کی طرف اشارہ کر رہا ہے و ہ ذیل ہیں اولا ً:یہ کہ مو دی نے اسی تقاضوں کو برو ئے کار لایا ہے جن تقاضوں کا حکم اس کے آقاکر رہے ہیں کیو ں کہ وہ اور ان کے آقا اس امر کو بخوبی سمجھ رہے ہیں کہ جب تک ملک میں فر قہ واریت کی آگ نہ لگائی جائے تب تک ان کے جو انسانیت مخالف عزائم ہیں وہ پایہ تکمیل تک نہیں پہو نچ پائیں گے ثانیاً: بی جے پی صوبہ بہا رمیں عوامی گرفت اور عوامی مقبولیت سے کو سوں دو رہے اور پھر حکمراں جماعت نے اس کو اقتدار سے بے دخل کر دیا ہے غالباًمو جو دہ حکمراں جماعت کی ناقص کا رکر دگی کو اجاگر کر کے اپنی وا ہ واہی لو ٹی جائے اور عوام کا اعتماد حاصل کیا جائے ثالثاً: یہ کہ ملک کی عوام جو اب تک اس خیال کی حامل تھی کہ بہا رمیں کوئی غیر قانونی سر گرمیاں نیز دہشت گر د سازشیں فر و غ نہیں پارہی ہیں ،کو اس کی خبر بھی دینا ہے کہ و ہ گمراہی کے شکار ہو جائے ،مگر یہ امر باعث اطمینان اور قابل صد رشک ہے کہ سوائے چند معدودے سخت گیر او رمتعصب کے صد فی صد افرادغیر فرقہ واریت اور آپسی اتحاد پر یقین رکھتے ہیں او ران معتدل فکر کے حاملین کو ا سکا بھی ادراک ہے کہ جب تک آپسی منافرت او رباہمی عداوت کا خاتمہ نہ ہو گا ملک تر قیوں کی شاہراہ پر ہر گز ہرگز گامزن نہیں ہو سکتا ویسے تو بی جے پی نے اپنی تمام تر قوت او رکل سرمایہ حسب معمول فرقہ واریت کے زہر گھولنے اور مذہب کے نام پر ووٹ حاصل کرنے میں صرف کر چکی ہے لیکن ان تمام سر گرمیوں اور صرف قوت کا نتیجہ صفر ہی ہو گا کیو نکہ عوام کو مذہب او رذات پات کے لاینحل معموں الجھاناکارعبث ہے اورعوام اب مذہبی نعروں سے بالکل تھک چکی ہے کیونکہ یہی مذہبی نعرہ زن اشخاص نے بار بار ان کو اپنے فریب میں رکھ کر استحصال کیا ہے ۔

مو دی نے اپنے اس بیان کے ذریعہ وہی کیا ہے جو اس کی اصلی خو کیو نکہ بہار میں دہشت گر دانہ سر گر میاں سر ے سے ہے ہی نہیں اور پھر یہاں کے لو گو ں کو اس بیجا کام سے کیا رغبت ؟یہ مو دی کی بد دماغی او ربے ہو دہ بکوا س ہے کہ بہا رکی پاکیزہ سر زمین کو دہشت گر دی سے جو ڑ دیا ،بہار جنت ہے وہ جنت جہاں انسانیت کا احتر ام کیا جاتا ہے ،بہار و ہ جنت ارضی ہے جہاں اخوت و مروت کی باد بہار ی چلاکر تی ہے یقینابہار جنت ہے جہاں سے امن و سکون کا درس ملتا ہے بہار جنت ہے جو ملک کو ایک سے بڑھ کر خادم پیدا کر رہا ہے جو ہر ایک محاذپر ملک کی نگہبانی کیلئے سر بکف ہے ۔مو دی نے جس جہنم کدہ کی بات کی ہے شاید وہ جہنم کدہ جہاں کا یہ بھگوا ہیرو مالک ہے او راسی بھگوا ہیر و کے قبضہ میں سیاہ و سفید ہے ،عیوب و نقائص جب اپنے عروج کو پہو نچ جائے تو بالیقین اس کا اظہا رہوتا ہے جیسا کہ آج کل یہ ہر دیہ سمراٹ کر رہا ۔
Iftikhar Rehmani
About the Author: Iftikhar Rehmani Read More Articles by Iftikhar Rehmani: 35 Articles with 23803 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.