سعودی فرماںروا: بشکل رہبر چھپے ہیں رہزن

جزیزۃ العرب عالم اسلام کا دل ہے پوری دنیا کے مسلمانوں کا مرکزی مقام ہے شریعت اسلامیہ کا تصور اس مقام کے بغیر ناممکن ہے دنیا کا ہرایک مسلمان اس پہ اپنا جان ودل قربان کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہے سترہویں صدی تک پورا عالم عرب ایک ساتھ تھا ایک خلیفہ کے تحت خلیجی ممالک اور افریقہ کے مسلم ملک تھے -

1750ءمیں عرب کے وسط سے سعودی ریاست کا ظہور شروع ہوا جب ایک مقامی رہنما محمد بن سعودمعروف اسلامی شخصیت محمد بن عبدالوہاب کے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر ابھرے ۔
سعودی ریاست مختلف ادوار میں مختلف حالات سے گذرتی رہی-

گذشتہ ڈیڑھ سو سال میں آل سعودکی قسمت کا ستارہ طلوع و غروب ہوتا رہا جس کے دوران جزیرہ نما عرب پر تسلط کے لئے سلطنت عثمانیہ اور دیگر عرب خاندانوں سے تصادم ہوئے ۔ بعد ازاں سعودی ریاست کا باقاعدہ قیام شاہ عبدالعزیز السعودکے ہاتھوں عمل میں آیا-

مارچ 1938ءمیں تیل کی دریافت نے ملک کو معاشی طور پر زبردست استحکام بخشا اور مملکت میں خوشحالی کا دور دورہ ہوگیا-

حکومت کا بنیادی ادارہ آل سعودکی بادشاہت ہے ۔ 1992ءمیں اختیار کئے گئے بنیادی قوانین کے مطابق سعودی عرب پر پہلے بادشاہ عبدالعزیز ابن سعودکی اولاد حکمرانی کرے گی اور قرآن ملک کا آئین اور شریعتحکومت کی بنیاد ہے ۔

ملک میں کوئی تسلیم شدہ سیاسی جماعت ہے نہ ہی انتخابات ہوتے ہیں البتہ 2005ءمیں مقامی انتخابات کا انعقاد ہوا۔ بادشاہ کے اختیارات شرعی قوانین اور سعودی روایات کے اندر محدود ہیں۔ علاوہ ازیں اسے سعودی شاہی خاندان، علماءاور سعودی معاشرے کے دیگر اہم عناصر کا اتفاق بھی چاہئے سعودی عرب کا دعوی ہے کہ وہ دنیا بھر میں مساجداور قرآنی اسکولوں کے قیام کے ذریعے اسلام کی ترویج کرتی ہے ۔ شاہی خاندان کے اہم ارکان علماء کی منظوری سے شاہی خاندان میں کسی ایک شخص کو بادشاہ منتخب کرتے ہیں۔

قانون سازی وزراء کی کونسل عمل میں لاتی ہے جو لازمی طور پر شریعت اسلامیہ سے مطابقت رکھتی ہو۔ عدالت شرعی نظام کی پابند ہیں جن کے قاضیوںکا تقرر اعلیٰ عدالتی کونسل کی سفارش پر بادشاہ عمل میں لاتا ہے ۔

یہ تاریخی حقائق اور اور سیاسی اصول ہے سعودی عرب کا لیکن آج کا سعودی عرب اپنے ان اصولوں کو بالکل فراموش کرچکا ہے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم خلفاء اربعہ .جضرات صحابہ اور مذہبی رہنماؤں کی تعلیمات سے کوسوں دو جا چکا ہے اسلام کے ازلی ذشمن یہودی و نصاری سے ان کی دوستی ہورہی ہے اور پاسداران اسلام کے خلاف ان کی دشمنی .یورپ اور امریکہ کی غلامی ان کی حکومت کا اصول بن چکا ہے ہر کام وہ امریکی آقاؤں کے اشارے پر کرتے ہیں لقمۂ طعام وہ ان آقاؤں کی اجازت کے بغیر تناول نہیں کرتے ہیں عالم اسلام کے مسائل سے سعودی حکومت کو کوئی دل چسپی ہے اور نہ ہی کوئ فکر .میانمار میں مسلمانوں کے قتل عام پر اس حکومت نے ایک لفظ نہیں کہا ہندوستان میں مسلسل ہورہے فرقہ وارانہ فساد اور مسلمانوں کے ساتھ ہورہی زیادتی پر کبھی بھی اظہار افسوس نہیں کیا اور جن ممالک میں مسلمان دشمنوں سے برسر پیکا رہیں اسلام کے سربلندی کی جنگ لڑ رہے ہیں وہاں سعودی حکومت دشمنوں کے ساتھ ہے اور اسلام پسندوں کو کچلنے کے لئے دشمنوں سے زیادہ اوچھی حرکتیں کر رہی ہیں مصر اور شام کے حوالے سعودی حکومت کا کردار سب سے زیادہ شرمناک اور صہیونی لابی سے بڑھا ہو اہے-

تازہ ترین رپوٹ یہ کہ سعودی حکومت نے مصر کی مذہبی سیاسی جماعت اخوان المسلمون سمیت چار جنگجو گروپوں کو دہشت گرد قرار دے دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جمعہ کو جاری کردہ ایک سعودی شاہی فرمان میں اخوان المسلمون کے علاوہ سعودی مملکت میں لبنان کی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کی شاخ اور شام میں صدر بشارالاسد کی حکومت کے خلاف بر سر پیکار دو گروپوں دولت اسلامی عراق وشام )داعش( اور النصرۃ محاذ کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا ہے. نیز ان سیکڑوں سعودی شہری جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ داعش اور النصرۃ محاذ کی صفوں میں شامل ہو کر شام میں جنگ لڑ رہے ہیں۔ سعودی حکام نے ان کی وطن واپسی کے لیے ڈیڈلائن میں توسیع کردی ہے۔شاہی فرمان کے مطابق ان مذکورہ چاروں گروپوں کی رکنیت اختیار کرنے، ان کی مالی معاونت اور ان کی حمایت کرنے والوں کو فوجداری مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ غیر مجاز فتوے جاری کرنے پر بھی پابندی عاید کر دی گئی ہے۔

سعودی شوریٰ کونسل کے رکن محمد زلفیٰ کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کو طویل عرصہ قبل نافذ العمل ہو جانا چاہیے تھا۔ انھوں نے کہا کہ سعودی مملکت نے مسلمان ہونے کا دعوے کرنے والے ہر کسی کے لیے اپنی سرحدیں اور جامعات کے دروازے کھول دیے تھے لیکن ہمیں دھوکا دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ بہت پہلے کر لیا جاتا تو ہم ان دہشت گرد گروپوں کی بڑھوتری تو نہ دیکھتے۔ سعودی عرب دہشت گرد قرار دیے گئے گروپوں کے ساتھ وابستگی رکھنے والوں پر فوجداری مقدمات چلائے گی-

اس طرح کے فیصلے کی توقع امریکہ اور اس کے ہم نواوؤں سے لیکن آج یہ ثابت ہوگیا کہ اپنے آپ کو خادم الحرمین کہنے والے در اصل امریکی مفاد کے پاسبان ہیں وہ اسلام اور اس کی پاسبانی کرنے والوں کے دشمن ہیں اور ان اس فیصلے پر عالم اسلام شرمندہ ہے مسلمان خطرے میں ہے .ہیں مقدس مقامات غیر محفوظ ہے. پوری دنیا کا مسلمان حیرت زدہ ہے
یہودی لابی شرمندہ ہے یہی شیخ حرم ہے جو چراکر بیچ کہاتا ہے
گلیم بوذر ودلق اویس وچادر زہرا

Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 180790 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More