تھرپارکر میں موت کا رقص جاری، متاثرین تاحال امداد سے محروم

تھر پارکر میں موت کا رقص جاری ہے۔گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران مزید دو بچے دم توڑ گئے ہیں، اس طرح گزشتہ تین ماہ کے دوران تھرپارکرمیں قحط سالی کی بھینٹ چڑھنے والے بچوں کی تعداد200سے تجاوزکرچکی ہے، گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران قحط کا شکار ہوکر مختلف بیماریوں میں مبتلا ہونے والے 375 سے زاید بچے ہسپتال بھی لائے گئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار صرف سرکاری ہسپتال میں لائے جانے والے بچوں کے ہیں، دور دراز کے علاقوں میں پنجے گاڑے قحط کے عفریت نے کیا تباہی پھیلائی ہے، اس سے فی الحال کوئی واقف نہیں،مقامی افراد کا کہنا ہے کہ سرکاری ہسپتال کا ریکارڈ سامنے آنے پر لوگوں کو صورتحال معلوم ہوئی، لیکن اصل صورت حال اس سے زیادہ خراب ہے، کیوں کہ بچوں کی بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو دور دراز ہونے یا وسائل نہ ہونے کے باعث ہسپتال نہیں پہنچ سکی۔ زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے لوگ تھرپارکر سے دوسرے علاقوں کی جانب نقل مکانی کررہے ہیں،جس کے نتیجے میں گاشں کے گاؤں خالی ہوگئے ہیں،اطلاعات کے مطابق خشک سالی کے سبب تقریباً پونے دو لاکھ تھری باشندے اپنا گھر بار چھوڑ کر دیگر اضلاع کی طرف نقل مکانی کرچکے ہیں۔ نقل مکانی کرنے والے افراد شہروں میں جگہ جگہ بے یارومددگار پڑاؤ ڈالے بیٹھے ہیں۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ خشک سالی کی وجہ سے ان کے مویشی مر چکے، اب ان کے پاس کھانے کے لیے ہی کچھ نہیں، ایسی صورت حال میں وہ بیمار بچوں کا علاج کیسے کراسکتے ہیں۔تھرپارکر میں قحط سالی کی وجہ سے بچوں کی ہلاکتوں پر صوبائی حکومت کی جانب سے مجرمانہ غفلت کے اعتراف کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان تصدق حسین جیلانی نے اس واقعے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے دس مارچ کو سندھ کے چیف سیکرٹری سے رپورٹ طلب کر لی تھی،جبکہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے بھی موجودہ چیف جسٹس کو ایک خط میں تھر میں قحط سالی سے بچوں کی ہلاکتوں پر عوامی مفاد میں از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔اس خط میں کہا گیاتھا کہ تھرپارکر میں غذائی قلت اور قحط سالی کے باعث درجنوں بچے جاں بحق ہو چکے ہیں، جبکہ ایک لاکھ 75 ہزار سے زاید خاندان متاثر ہوئے ہیں ۔

اگرچہ وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے تھرپارکر میں قحط سالی سے متاثرہ افراد کے لیے امدادی کارروائیاں شروع کرنے کی ہدایت کی تھی، لیکن اطلاعات ہیں کہ انتظامی سطح پر کی جانے والی امدادی کارروائیاں صرف شہروں تک ہی محدود ہیں۔ضلع تھرپارکر میں بے شمار علاقے اب بھی ایسے ہیں جہاں سندھ حکومت ابھی تک امداد نہیں پہنچا سکی۔ بے بس لوگ اپنے بیمار بچوں کے ساتھ منتظر ہیں کہ انہوں نے جنہیں ووٹ دے کر اقتدار کے ایوانوں میں بھیجا تھا، انہوں نے کبھی پلٹ کران کی خبر تک نہیں لی۔ الیکشن میں جن سیاست دانوں نے سنہرے مستقبل کے سہانے خواب دکھائے تھے۔ وہ خواب بھی ریزہ ریزہ ہوئے اور خوابوں کی دنیا میں لے جانے والے بھی اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ کر لمبی تان کر سو گئے ہیں۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے سندھ حکومت کی مجرمانہ غفلت اور نااہلی کو شدیدتنقید کا نشانہ بناتے ہوئے تھرپارکر میں قحط زدہ شہریوں کی حالت زار پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ صوبائی حکومت کلچر کے فروغ کے نام پر ناچ گانے میں لگی رہی، جبکہ دوسری طرف ہزاروں شہری غذائی قلت کا شکار، جبکہ معصوم بچے بھوکے مر رہے ہیں۔ تھرپارکر میں جنم لینے والے بدترین المیے کی ذمہ دار براہ ِ راست صوبائی حکومت ہے ،جس کی انتظامی نااہلی کی وجہ سے سو سے زیادہ شہری بد ترین انجام کا شکار ہو چکے ہیں۔ خیال رہے کہ وزارت صحت کا قلمدان وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے پاس ہے اور انہوں نے اپنے داماد کو اس کا صوبائی سیکرٹری مقرر کررکھا ہے۔قائم علی شاہ کے پاس وزارت اعلیٰ کے قلمدان کے علاوہ محکمہ صحت، قانون، داخلہ، لینڈ یوٹیلائزیشن، خزانہ، سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن، محکمہ کوآپریٹی، منصوبہ بندی و ترقیات، کھیل، امور نوجوانان، ثقافت، سیاحت، بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز کنٹرول اور محکمہ اسٹیویٹا سمیت ڈیڑھ درجن اداروں کی سربراہی ہے۔ جن کے کرتا دھرتا انہوں نے اپنے ہی گھر والوں کو مقرر کررکھا ہے۔میڈیا کی جانب سے تھر میں قحط اور ادویہ کی کمی کی نشان دہی پر کئی افسران کی معطلی اور تبادلے ہوئے، لیکن وزیراعلیٰ سندھ صاحب کے داماد اقبال درانی اپنے عہدے پر ہی موجود ہیں۔

قابل حیرت بات ہے کہ اس دور میں انسان ترقی کی معراج پر جا پہنچا ہے، لیکن اس کے باوجود ملک میں رہنے والے افراد کا قحط ، فاقوں اور بیماریوں کی وجہ سے ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر موت کے منہ میں چلے جانانہ صرف قابل، افسوس بلکہ کوتاہی برتنے والوں کے لیے شرمناک بات بھی ہے۔تھر کے سانحے پر میڈیا کوریج کی وجہ سے خوابِ غفلت کا شکار سندھ حکومت نے آنکھیں کھولیں اور امدادی سرگرمیاں شروع کرنے کے احکامات جاری کیے۔ اس صورتِ حال میں یہ سب کچھ نہایت تاخیر سے اور بہت کم محسوس ہوتا ہے۔ سندھ حکومت نے تھری باشندوں کے لیے گندم کی جو ساٹھ ہزار بوریاں دینے کا وعدہ کیا تھا، وہ اب تک انہیں فراہم نہیں کی جاسکی ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ گندم کی یہ مقدار خوراک کی درکار ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ایسی بات نہیں کہ خشک سالی اور قحط کوئی نیا رجحان ہے، اس علاقے میں ہر دو تین برس کے بعد یہ صورتِ حال جنم لیتی رہتی ہے۔قیام پاکستان سے اب تک تھرپارکر میں چودہ بار قحط نے ڈیرے ڈالے ہیں، جس کے نتیجے میں ہزاروں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، لاتعداد مویشی ہلاک ہوئے۔ صحرائے تھر میں بارشیں نہ ہوں تو وہاں موت کا رقص شروع ہو جاتا ہے۔1961ئ، 1966ئ، 1969ئ، 1974ئ، 1984ئ، 1987ئ، 1991ئ، 1994ئ، 1999ئ، 2002ئ، 2004ئ، 2007ئ، 2009ءاور اب 2014ءمیں بارشیں نہ ہونے کے باعث قحط آیا۔ ہر بار قحط کے باعث صحرائی علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ بیراجی علاقوں میں نقل مکانی کرجاتے ہیں، جو رہ جاتے ہیں ان کے گھروں پر بھوک اور پیاس کے ساتھ موت ڈیرے ڈال دیتی ہے۔ تاہم یہ بات یقینی ہے کہ ایسے شدید موسمیاتی حالات سے نمٹنے کی منصوبہ بندی ریاست کی ترجیحات کا حصہ نہیں ہوتی۔پچھلے پانچ برس تک پی پی پی سندھ پر حکمران رہی اور گزشتہ برس منعقدہ عام انتخابات کے بعد بھی اس کی حکومت بدستور برقرار ہے اور پیپلزپارٹی نے تھرپارکر سے انتخابات میں چار میں سے تین نشستیں بھی حاصل کی تھیں۔ اس پر یقین کرنا بہت ہی مشکل ہے کہ پارٹی کے صوبائی اور قومی ارکانِ قانون ساز تھر کے زمینی حقائق سے لاعلم تھے۔ اگر مسئلہ رقم کا ہے تو پھر وفاقی حکومت یا امدادی اداروں سے رابطہ کرنے کی ضرورت ہے۔جبکہ یہ اطلاعات ہیں کہ تھر میں قحط سالی سے ہلاکتوں کے معاملے پر سندھ حکومت نے پنجاب حکومت کی جانب سے امداد اور تعاون کی پیشکش ٹھکرا تے ہوئے کہا ہے کہ انہیں ابھی امداد کی ضرورت نہیں ہے۔جبکہ وزیر اطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ پنجاب حکومت کی جانب سے تھر کے متاثرین کے لیے امداد کی کوئی پیشکش نہیں ہوئی۔ ہم وزیراعظم میاں نوازشریف اور وفاقی حکومت کے مشکور ہیں کہ انہوں نے تھرکے لیے اقدامات کیے۔

دوسری جانب خیبرپی کے حکومت نے تھر کے متاثرین قحط کے لیے ہنگامی طور پر 10 کروڑ روپے کے غذائی پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے پی ڈی ایم اے کو ہدایت کی کہ چاول، آٹا، دالیں، چینی، چائے، کوکنگ آئل، کھجوریں، نمک، پانی، بچوں کے لیے دودھ، ادویہ اور دیگر ضروری اشیا مقامی مارکیٹ سے ہنگامی بنیادوں پر خریدکر فوری طور پر تھرپارکرمتاثرین میں تقسیم کی جائیں۔ چیئرمین بحریہ ٹاﺅن ملک ریاض حسین کی جانب سے بھی تھرپارکر کے قحط زدگان کے لیے 20 کروڑ روپے کی امداد کے اعلان کے بعد بحریہ ٹاﺅن کی متاثرین بحالی ایکشن ٹیم، ایمبولینس، موبائل ہسپتال، واٹرٹینک سے بھرے ٹرک لے کر متاثرہ علاقے میں پہنچ گئی۔ ملک ریاض نے کہا ہے کہ متاثرہ علاقوں کے گھرانوں کو 10 سے 50 ہزار تک امدادی رقوم بھی ان کے گھروں پر مہیا کی جائیں گی اور امداد کا یہ سلسلہ ابتدائی طور پر ہنگامی بنیادوں پر چھ ماہ تک جاری رہے گا۔ کچھ دوسری بھی اکا دکا فلاحی تنظیمیں تھرپارکر میں امدادی سامان لے کر پہنچ چکی ہیں۔ مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ تھرپارکر میں حکومت اور فلاحی اداروں کی جانب سے کی جانے والی امدادی سرگرمیاں ناکافی ہیں، موجودہ قحط میں سب کو مل جل کر اور دل کھول کر متاثرین کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔ تھرپارکر میں غذائی قلت، خشک سالی اور قحط کی وجہ سے تقریباً پونے دو لاکھ تھری باشندے اپنا گھر بار چھوڑ کر شہروں میں جگہ جگہ بے یارومددگار پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں۔ ان کی مدد کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
 

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700793 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.