اس کی آواز میں بلا کا اعتماد تھا، وہ ہر لفظ سوچ سمجھ کر
ادا کررہی تھی، وہ جب اپنا جملہ مکمل کرکے تھوڑا سا وقفہ لیتی تو پس منظر
میں خاموشی چھا جاتی، اس نے ایک بار جب بولنا شروع کیا تو اپنی بات مکمل
کرکے ہی دم لی۔اس کی باتوں میں ناراضگی ضرور تھی مگر وہ کسی ہمدردی کی طلب
گار نہ تھی، وہ کہہ رہی تھی کہ اسے اپنا حق چاہیے،اپنے بھائی سمیت تمام
لاپتہ افراد کی رہائی یا عدالتوں کے سامنے پیشی، ملکی حکمرانوں سے، قانون
نافذ کرنے والے اداروں سے، سپریم کورٹ سے۔ اگرملک میں ہر دروازہ کھٹکھٹانے
کے باوجود بھی پچھلے پانچ سالوں میں اسے کہیں سے انصاف نہ ملا تو اقوام
متحدہ اور عالمی برادری سے رجوع کرنا اس کا حق ہے۔
اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے باہر صحافیوں کی جانب سے پوچھے جانے والے
سوالات کے جواب میں اس نے الٹا صحافیوں پر سوالات کی بوچھاڑ کردی، اس کی
جانب سے اٹھایا جانے والا ہر سوال با وزن اور حقائق پر مبنی تھا۔وہ جب
صحافیوں سے پوچھ رہی تھی کہ پانچ سال پہلے انہوں نے کبھی ماما قدیر یا
فرزانہ مجید کا نام سنا تھا تو صحافی حضرات ایک دوسرے کی جانب حیرت سے
دیکھتے رہے، صحافیوں سے مخاطب ہونے سے پہلے فرزانہ مجید کافی دیر تک ان کے
سوالات سنتی رہی، خاموش رہی، ان کے چہروں کے تاثرات اور سوالات کی نوعیت پر
غور کرتی رہی، جب سوالات بے محل، غیر ضروری ، طنزیہ اور تضحیک آمیز ہونے
لگیں تو وہ بول پڑی۔وہ کہہ رہی تھی کہ بلوچستان والے ناخواندہ اور گونگے
نہیں ہیں،وہ اپنے حق کے لیے نہ صرف آواز اٹھا سکتے ہیں بلکہ اس کے لیے
جدوجہد بھی کرسکتے ہیں۔ انہیں اپنے مسائل کو اجاگر کرنا آتا ہے اور وہ پر
امن احتجاج کرنا بھی جانتے ہیں۔ مخالفین کو انہیں سننے اور برداشت کرنے کا
حوصلہ پیدا کرنا ہوگا۔ بایو کیمسٹری میں ایم ایس سی اور بلوچی ادب میں ایم
اے کرنے والی فرزانہ مجید وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جنرل سیکریٹری اور
ایم اے انگریزی کے طالب علم اور لاپتہ طالب علم رہنما ء ذاکر مجید کی بڑی
بہن اور ماما قدیر کی قیادت میں لانگ مارچ کرنے والے قافلے کا ایک اہم
کردار ہیں۔
ہم صحافی حضرات بھی ہر فن مولا اور عجیب مخلوق ہوتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ بعض
صحافی دوست پریس کانفرنسوں میں مزے لینے اور ٹائم پاس کرنے جاتے ہیں۔بعض
مرتبہ ان کا مقصد صرف سامنے والے کو چھیڑنا، اس کا مذاق اڑانا یا جملے کسنا
ہوتا ہے، ایسے حضرات لکھنے لکھانے کی بجائے صرف سوال کرنے یا مفتا اڑانے
پہنچ جاتے ہیں، کبھی خود پوچھ لیتے ہیں تو کبھی کسی اور کی جانب سے پرچہ
پڑھ کر پوچھ ڈالتے ہیں،پریس کانفرنس کے بعد ایک دوسرے سے مانگ تانگ کر خبر
بنالیتے ہیں۔
اسلام آباد کی سول اور ملٹری اشرافیہ اور سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ یہاں کی
صحافتی برادری کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ بھی فائیو اسٹار اور ایلیٹ
کلاس سے تعلق رکھتی ہے۔انہیں بھی بلوچستان کے بارے میں اتنا ہی پتا ہے جتنا
انہیں بریف کیا جاتا ہے۔بیشتر ساتھی کوئٹہ ، سوئی اور گوادر کے علاوہ شاید
ہی کسی اور علاقے سے واقف ہوں۔لسبیلہ میں واقع نانی مندر کے میلے کی کوریج
ہو یا تفتان بارڈر پر ایران سے بے دخل کیے جانے والے پاکستانیوں کی آمد کا
واقعہ کوئٹہ کے نامہ نگار کو فون کرکے ڈی ایس این جی سمیت فوری طور پرپیپر
کے لیے پہنچنے کو کہا جاتا ہے۔
لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے لانگ مارچ کرنے والے قافلے سے جب اسلام آباد
کے نیشنل پریس کلب میں پریس کانفرنس کے انعقاد سے معذرت کی گئی تو ماما
قدیر اور ان کی ٹیم نے کلب کے سامنے دھرنا دے کر پریس کانفرنس کرڈالی۔
صحافی برادری کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ مظلوموں کا ساتھ دیتے ہیں مگر
اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے سامنے اس دن ایسا کوئی مظاہرہ دیکھنے کو
نہیں ملا، لانگ مارچ میں شریک خواتین اور بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا، پنڈی
اور آبپارہ کے اشاروں پر انہیں دہشت گردوں کا ساتھی، بی ایل اے والوں کا
ہمدرد اور نہ جانے کن کن الزامات سے نوازا گیا، وہ تو بھلا ہو حامد میر کا
کہ جس نے اپنے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں لانگ مارچ کے شرکاء کو بلا کر ان کا
موقف اہل اسلام آباد و پنجاب سمیت ملک بھرکے سامنے لانے کا اہتما م کیا۔ |