معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی سے خصوصی
گفتگو
موجودہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ڈالر کی قیمت میں ہونے والے مسلسل
اضافے نے ملکی معیشت کو شدید متاثر کیا، ڈالر کی قیمت 110 روپے تک پہنچ گئی
لیکن خلاف توقع گزشتہ ایک ماہ کے دوران اور خصوصاً ایک ہفتے میں ڈالر کی
قدر میں ریکارڈ کمی نے معاشی حلقوں سمیت عام آدمی کو بھی حیران کردیا ہے۔
ڈالر کی مسلسل گراوٹ اور روپے کی قدر میں ہونے والا یہ اضافہ کس قدر حقیقی
یا غیر حقیقی ہے، روپے کی قدر میں ہونے والے اس اچانک اضافے کے پس پردہ
عوامل کیا ہیں اور ملکی معیشت پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے، اس حوالے سے
معروف معاشی ماہر اور تجزیہ کار جناب ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی سے کی گئی خصوصی
گفتگو نذر قارئین ہے
انٹرویو عابد محمود عزام
عابد محمود عزام: ان دنوں ڈالر کی قیمت میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے، پانچ
روز میں ڈالر کی قیمت پانچ روپے کم ہوگئی، اس کی کیا وجوہات ہیں؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: جب روپیہ گرا تھا تو اس وقت سٹے بازوں نے اسے ضرورت
سے زیادہ گرایا تھا، تو اس وقت ڈالر 110 تک پہنچ گیا تھا، حالاں کہ اس کو
104 سے زیادہ نہیں بڑھنا چاہیے تھا۔سٹے بازوں نے روپے کی قیمت کو ضرورت سے
زیادہ گراکر خوب دولت کمائی، حکومت تماشا دیکھتی رہی، شاید جو لوگ حکومت
میں شامل ہیں ان کا بھی اس میں ہاتھ تھا، سب نے خوب دولت کمائی، ڈار صاحب
نے کہا تھا کہ روپے کی قدر کی کمی میں سٹے باز ملوث ہیں، ہم ان کے خلاف
ایکشن لیں گے، مگر کسی کے خلاف ایکشن نہیں ہوا۔جب روپیہ ضرورت سے زیادہ گِر
گیا تو حکومت نے مصنوعی طریقے سے ایسے اقدامات کیے،جن سے روپے کی قدر میں
بہتری آگئی، حکومت کے پاس تو بہت سارے طریقے ہوتے ہیں، انہی طریقوں سے روپے
کی قدر کو بہتر بنادیاگیا ہے۔ اس سے حکومت کو بہت سارے نقصانات ہوں گے۔
مثلاً ہمارا وائیلن گیس (کمپنی ) اور پاکستان پیٹرولیم 209 ارب روپے سالانہ
منافع کمارہے ہیں۔حکومت اس کے شیئرز غیر ملکیوں کو فروخت کررہے ہیں۔ اسی
طرح حبیب بینک اور یونائیٹڈ بینک کے شیئرز فروخت کررہے ہیں۔ اس سے یہ ڈالر
کمانا چاہتے ہیں تو جب یہ ڈالر آجائیں گے تو آپ کا اس سال کا مسئلہ تو حل
ہوجائے گا، لیکن یہ جو 209 ارب روپے سالانہ کماکر دے رہے تھے، اس کا ایک
بڑا حصہ اگلے برسوں میں ہمیں نہیں ملے گا۔ یہ تو قومی مفادات کے خلاف ہے کہ
ایک سال کا خرچا کرنے کے لیے تو آپ نے زیور بیچ دیا،لیکن اگلے سال کیا ہوگا
جب یہ منافع نہیں آرہا ہوگا؟یہ تو ملک کے لیے سراسر تباہی ہے اور جن غیر
ملکیوں کو یہ شیئرز بیچ رہے ہیں، خریدنے والے یہ شیئرز اگرکسی ہندو اور
یہودی کو بیچ دیں تو آپ کی معیشت تو ہندوؤں اور یہودیوں کے قبضے میں چلی
جائے گی۔ ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ حبیب بینک
وغیرہ منافع کمارہے ہیںاور جب یہ غیر ملکیوں کو بیچیں گے تو آئندہ اس کا
منافع ڈالر میں باہر جائے گا، اس سے ڈالر کہاں سے آئیں گے۔ انہوں نے یہ اس
لیے کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے منشور میں یہ تھا کہ ہر قسم کی آمدنی پر
ٹیکس لگائیں گے۔ اگر وہ ٹیکس لگادیتے تو کئی ہزار ارب سالانہ آمدنی ہوتی
اور یہ آمدنی ہر سال ہوتی رہتی۔ انہوں نے یہ ٹیکس نہیں لگایا کیوں کہ جو
لوگ ٹیکس نہیں دینا چاہتے وہ ان کی حکومت میں بھی شامل ہیں۔ یہ قدم انہوں
نے منشور کے خلاف اُٹھایا ہے اور یہ جو منافع بخش ادارے بیچ رہے ہیں، یہ
بھی ان کے منشور میں نہیں تھا۔ منشور کے خلاف پالیسی بناکر انہوں نے طاقتور
طبقوں کو کئی ہزار ارب روپے کا فائدہ پہنچایا اور منشور کے خلاف نج کاری
کرکے یہ ڈالر حاصل کررہے ہیں۔انہوں نے مصنوعی طریقے سے روپے کی قدر کو بہتر
بنایا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان کو ڈالر 104 تک ہی رکھنا چاہیے تھا۔ نجکاری
سے قومی سلامتی کو خطرہ ہوگا، کیوں کہ ہمارے اثاثے دشمن کے ہاتھ میں جاسکتے
ہیں۔ قومی معیشت کو نقصان ہوگا اور کل کو جب ڈالر ہمارے پاس نہیں ہوں گے
اور یہ سارا منافع باہر لے جائیں گے تو اس وقت معیشت تباہ ہوجائے گی، یہ تو
بڑے خسارے کا سودا ہے۔
عابد محمود عزام: مارکیٹ ڈیلر کا کہنا ہے کہ آیندہ چند روز میں ڈالر کی
قیمت مزید کمی واقع ہوسکتی ہے، آپ اس حوالے سے کیا کہتے ہیں؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: ایک دو روپے کی کمی کا تو حکومت کے پاس طریقہ ہوتا
ہے، جنہوں نے سٹے بازی کرکے پیسا کمایا تھا حکومت ان کو کہے کہ تھوڑے دن کے
لیے ہمارے ساتھ تعاون کریںتو وہ تعاون کرلیں گے، یہ کوئی ایسی بڑی بات نہیں
ہے، لیکن اس حد تک کمی کرنا قومی مفاد کے خلاف ہے۔ ان کو ڈالر103 سے 104 تک
روک دینا چاہیے تھا۔
عابد محمود عزام: کیا ڈالر کی قیمت میں ہونے والی گراوٹ عارضی ثابت ہوگی؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: یہ گراﺅٹ عارضی تو ہوگی، لیکن حکومت کے پاس اتنی
طاقت ہے کہ اگر وہ چاہے تو اسے چند مہینوں تک روک سکتی ہے۔ پرویز مشرف نے
اپنے زمانے میں کئی سال تک روکی تھی۔ اکنامک اصول کے مطابق ڈالر 100 تک
نہیں آسکتا تھا۔ کیوں کہ ہمارا کرنٹ اکاﺅنٹ کا خسارہ دو ارب ڈالر تک ہے اور
ہماری افراط زر دوسرے ملکوں سے زیادہ ہے۔ ہماری معیشت ترقی نہیں کررہی،
معاشی اصول کے مطابق یہ نہیں ہوسکتا تھا۔
عابد محمود عزام: یہ کہا جارہا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی میں اسمگلرز اور
سٹہ باز ملوث تھے، اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: سٹہ بازی کرکے انہوں نے روپے کو پہلے ضرورت سے زیادہ
گِرایا ہے اور ڈالر کو 110 تک لے گئے اور اب سٹہ بازی کرکے مصنوعی طریقے سے
روپے کو اوپر کی طرف لے کر جارہے ہیں۔ یہ غیرپائیدار طریقہ ہے، غیرملکیوں
کو اپنے اثاثے بیچ کر ہی یہ ممکن ہوگا،جس کی قیمت بہت زیادہ ہے، اس کی قیمت
قوم دے گی اور اس سے قوم کی سلامتی کو بھی خطرات لاحق ہوں گے۔ اگر یہ ملکی
اثاثے اسی طرح بیچتے رہیں گے تو کام کیسے چلے گا؟
عابد محمود عزام: یہ بھی کہا جارہا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کے حوالے سے
بعض سیاست دانوں نے بھی اسمگلرز اور سٹے بازوں کی حمایت کی تھی، کیا قانون
اس کی اجازت دیتا ہے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: ظاہر ہے اس بات کی تو کوئی گنجائش نہیں ہے اور ڈالر
کی قیمت کم ہونا بہت اچھی بات ہے۔ اس پر ہمیںخوش ہونا چاہیے، لیکن یہ کمی
معاشی اور حقیقی طریقے سے ہو، مصنوعی طریقے سے نہ ہو، اثاثے بیچ کر نہ کی
جائے، اگر معیشت بہتر ہوتی تو بڑی خوشی کی بات تھی۔ اگر یہ سب کچھ معیشت کے
اصولوں کے مطابق ہوتا تو بہتر تھا، لیکن یہ تو سب کچھ مصنوعی طریقے سے
کررہے ہیں۔ قومی اثاثے باہر بیچ رہے ہیں۔قومی اثاثوں کی وجہ سے پیسہ آنے کی
جو توقعات ہیں، اس کو کم کررہے ہیں۔ اس سے ملک نقصان میں رہے گا۔
عابد محمود عزام: ڈالر کی قیمت میں ہونے والی مسلسل کمی کے پاکستانی مارکیٹ
پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور عوام اس سے کس طرح فائدہ حاصل کرسکتے ہیں؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: اس سے عوام کو فائدہ تو ہونا چاہیے، حکومت کو فوری
طور پر پیٹرولیم کی قیمت میں کمی کردینی چاہیے۔ اب اگر قیمتوں کی کمی میں
اعلان کے لیے یہ ایک مہینہ انتظار کرتے ہیں تو الگ بات ہے۔ مگر اصولی طور
پر ان کو کل سے ہی یہ قیمت کم کردینی چاہیے۔ بجلی کے نرخ ان کو کم کرنے
چاہیے، ٹرانسپورٹ کا کرایہ کم ہونا چاہیے، درآمد کی گئی چیزوں کی قیمت بھی
کم ہونی چاہیے۔ یہ تمام فائدے تو ہونے چاہیے،حکومت قیمتیں کم کرتی ہے یا
نہیں، یا پھر ایک مہینہ لگادیتے ہیں ،یہ دیکھنا پڑے گا۔ اصولاً یہ سب کچھ
تو آج ہی کردینا چاہیے تھا۔
عابد محمود عزام: یہ کہا جارہا ہے کہ ڈالر کی قیمت میں حالیہ اضافے میں آئی
ایم ایف کو کی جانے والی ادائیگیاں، زر مبادلہ کے کم ذخائر، رقم کی آمد کے
محدود ذرائع اور معیشت کی کمزوریاں شامل تھیں، اب ڈالر کی قیمت میں کمی
واقع ہورہی ہے، کیا یہ تمام مسائل حل ہوگئے ہیں؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: حکومت نے آئی ایم ایف سے کہا تھا کہ ہم اپنے اثاثے
غیر ملکیوں کو بیچ دیتے ہیں، آئی ایم ایف کا مقصد ہی پاکستان کو تباہ کرنا
ہے، پاکستانی معیشت کو استعماری طاقتوں کے حوالے کرانا ہے۔ امریکا کی حمایت
میں یہ اس کا منشور ہے۔ اگر ڈالر کا ریٹ کم نہیں ہوتا تو اس پر خاموش رہیں
گے۔ بشرط یہ کہ آپ پاکستان کی معیشت تباہ کرکے اثاثے دوسروں کو بیچ دیں۔ اس
پر وہ خوش ہوجائیں گے۔
عابد محمود عزام: جبپوری دنیا میں ڈالر کی قیمت میں مسلسل کمی واقع ہورہی
تھی، اس وقت ہمارے ملک میں اس کی قیمت بڑھ رہی تھی، اس کی کیا وجہ ہے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: اس کی وجہ تو یہ ہے کہ ہماری معیشت کمزور ہے، امریکا
میں افراط زر اگر دو فی صد ہے تو ہمارے ہاں دس فی صد ہے،اس سے روپے کی قیمت
کو تو گرنا ہی تھا۔ یہاں مہنگائی بھی زیادہ ہے،اس سے روپے کی قدر میں کمی
واقع ہونا فطری بات ہے۔
عابد محمود عزام: جن دنوں ملک میں ڈالر کی قیمت زیادہ ہورہی تھی، وزیر
مملکت برائے سرمایہ کاری کا کہنا تھا کہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ سمجھ سے
بالاتر ہے، اب ڈالر کی قیمت میں کمی لانے میں حکومت کا کچھ کردار ہے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: کردار کیا ہونا تھا، یہ تو اپنے اثاثے بیچ کر ڈالر
کمارہے ہیں۔
عابد محمود عزام: ڈالر کی کمی کے رجحان نے بینکوں، امپورٹرز اور ایکسپورٹرز
کو کس طرح متاثر کیا ہے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: ڈالر کی قیمت میں کمی سے ایکسپورٹرز کا تو نقصان
ہوگا، کیوں کہ پہلے اگر سو ڈالر پر انہیں ایک سو آٹھ روپے کا منافع ہوتا
تھا تو اب صرف ایک سو ایک روپے کا منافع ہوگا، یہ تو ان کا نقصان ہوا اور
امپورٹرز بہرحال فائدے میں ہیں۔
عابد محمود عزام: ایک عام صارف کے لیے اوپن اور انٹر مارکیٹ کے فرق کی
وضاحت فرمادیجیے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: اوپن مارکیٹ اور انٹر مارکیٹ میں اب تو روپے کا فرق
ختم ہی ہوگیا، مثلاً اگر سو ڈالر عام مارکیٹ سے ایک ہزار کے ملتے تھے تو
بلیک مارکیٹ میں ایک ہزار پچاس کے ملتے تھے، اب چوں کہ ڈالر کی ڈیمانڈ ہی
نہیں رہی، اس لیے فرق بھی ختم ہوگیا ہے۔ |