محسن شیخ
حیدرآباد سندھ
حضرت عمر کی یہ ترکیب ہر گز نہیں سوچی وہ اپنی وسیع مملکت کے لیے ایک فیڈرل
آئین بنا لیتے اور اس میں ایک ایسی اٹھارویں ترمیم ڈال دیتے جس کے تحت
انہیں دریائے فرات کے کنارے بھوک یا پیاس سے مرجانے والے کتے کے لیے ذمےدار
نہ ٹھہرایا جاسکتا۔
صحرائے تھر میں ہزاروں کی تعداد میں بھوک کے مارے بچے علاقے کے ایک ہسپتال
کا رخ کررہے ہیں، ان میں سے درجنوں موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔ سندھ حکومت
نے کمشنر کو فارغ کردیا چیف منسٹر نے اپنی غلطی تسلیم کی لیکن سندھ کا میلہ
منانے والے بلاول کے منہ سے ہمدردی کے بول سننے کو ابھی تک ہمارے کان ترس
رہے ہیں،وہ ٹویٹر پر بیٹھا موقع بے موقع اپنے رد عمل کا اظہار کرتا ہے، مگر
اسکا ٹویٹر اکائونٹ تھر میں موت کے برہنہ رقص پر گونگا ہے،
پنجاب یوتھ فیسٹیول اور جشن بہاراں میں مگن حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ وہ تھر
میں بچوں کی موت کے سانحے کی تحقیقات کروائے گا، اس نوجوان نے پرچم بنانے
اور قومی ترانہ گانے کے ریکارڈ بنانے کی کوشش کی اور یوتھ میلے میں ایسے
ریکارڈ بھی بنے کہ لوگ اپنا پرانا شعر بھول گئے کہ تم نے کمال کردیا اہل
کمالیہ ۔ اس میلے میں ایک سے بڑھ کر ایک کمال ہوا۔ وہ تھر سانحے کی تحقیقات
میں کامیاب ہوگیا تو ایک نیا ریکارڈ بن جائے گا، دوسرے صوبے کے معاملے میں
دخل اندازی وہ بھی ایک شہزادے کے ہاتھوں۔
پاکستان کا آئین وفاقی حکومت کوصوبائی معاملات سے فارغ البال کردیتا ہے،
نواز شریف لوڈ شیڈنگ کے لیے بلاوجہ طعنے سن رہے ہیں، وہ ایک آئینی ترمیم
کرکے بجلی کے سارے نظام کو صوبوں کے حوالے کرسکتے ہیں، میاں صاحب کے ستے
خیراں وہ خواہ مخواں جہاز لے کر تھر کی جانب روانہ ہوگئے ، مقامی انتظامیہ
نے سکیورٹی سخت کردی، اس چھوٹے سے شہر کو ہر طرف سے سیل کردیا، پورے علاقے
میں مٹھی کے واحد ہسپتال کے دروازے بھی بند کردئيے،اندر والے مریض باہر سے
کوئی دوا نہیں خرید سکتے اور مریض اندر معائنے کے لیے نہیں جاسکتے، اتنے سے
شہر میں وزیراعظم کو اتنا پروٹوکول اور ہٹو بچوں کی صدائیں تو بلند نہ
ہوتیں۔
سب سے دلچسب بات پنجاب کی بہو شرمیلا فاروقی نے کہا کہ تھر کے بچے بھوک سے
نہیں بیماری سے مرے ہے، اب پتہ چلا کہ بھوک کسی بیماری کا نام نہیں بلکہ یہ
فیشن ہے جو امیر طبقہ اپنے موٹاپے اور شوگر کو کنٹرول کرنے کے لیے شوقیہ
اپناتا ہے۔ تھر کے بچوں کی جو تصوویريں میڈیا چینلز نے دیکھائی ہیں وہ
واقعی بیماری سے نڈھال بچوں کی لگتی ہیں کسی کی ناک میں نالی ڈالی ہوئی ہے
کسی کے گلے میں نالی دھنسی ہوئی ہے اور کسی کے سر کو برف کی ٹکور کی جارہی
ہے، شرمیلا جی کے اس تبصرے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بیماری سے لوگ مرنے لگیں
تو حکومت کیا کرسکتی ہے، جیسا کہ پنجاب میں لوگ ڈینگی سے مرے اور بے تحاشہ
مرے شرمیلا جی کا یہ تبصرہ ہمیں اچھا نہیں لگا۔
میری مانیں جہاں ہم نے حضرت عمر کے دور کے آئین کا حلیہ بگاڑ کر اسے
اٹھارویں ترمیم میں ڈھال کر اپنی وفاقی حکومت کو ہر قسم کی ذمےداری سے
سکبدوش کردیا ہے وہاں ایک ترمیم اور کرلی جائے اور اس میں دو متوازی
حکومتوں کے قیام کی گنجائش نکالی جائے، ایک حکومت تو عوام کے ہر دل عزیز
نمائندوں کے ہاتھ میں رہے اور دوسری حکومت ملک ریاض کے حوالے کردی جائے، آج
تک بڑے سے بڑا نعرہ یہی لگا تھا ، روٹی کپڑا اور مکان ان میں سے دو نعروں
پر ملک ریاض عمل کررہے ہیں، ہماری حکومیتں تھر میں گندم پہنچا رہی ہیں اور
ملک ریاض وہاں دستر خوان سجا جکا ہے، اس نے سیلاب اور زلزلے کے شکار لوکوں
کو گھر بنا کر دیئے کوئی شخص صومالیہ کے بحری قزاقوں کا شکار بن جائے تو
بھی وہی کروڑوں کا تاوان ادا کرتا ہے، زرداری نے اپنے من پسند صحافیوں اور
دوستوں کو حج کروایا چیف جسٹس نے حکم دیا کہ اسکی رقم قومی خزانے میں جمع
کرائی جائے تو ملک ریاض اور انکے دوست حاجی نواز کھوکھر نے اپنی جیب سے یہ
رقم قومی خزانے میں جمع کروا کر زرداری کی جاں چھڑوائی، ملک ریاض کا دعوی
ہے کہ مکان فراہم کرنا حکوت کی ذمے داری ہے، مگر اس فرض کی ادائیگی بھی وہی
کررہا ہے، میں ملک ریاض کے کاروبار کا اشھتار بنا نہیں چاہتا۔ مگر میں ملک
ریاض سے عوض کروں گا کہ وہ محمد الررسول اللہ کے چھپر نما گھر کی سنت کی
پیروی کریں خدا کی قسم وہ پاکستان کے بیس کروڑ افراد کو مفت گھر بنا کر دے
سکتے ہیں اور رہتی دنیا تک لوگوں کے دلوں پر راج بھی کرتے رہے گے اور انکے
پاس اتنا پیسا بھی بچا رہے گا جس سے روٹی کپڑا تعلیم اور صحت کی ضروریات
بھی کفالت بھی کرسکیں گے، باقی اصل حکومت نے موجیں اڑانی ہیں وہ جی بھر کے
اڑاتی رہے آج چین کل جرمنی پرسوں لندن ترسوں ترکی کبھی کبھار واشنگٹن- |