عظیم انقلابی شاعر ،غربت کی کوکھ سے جنم لینے والے حبیب
جالب کی اکیسویں برسی 12مارچ(بدھ ) کو منائی جارہی ہے۔ حبیب جالب نے
نامساعد حالات میں بھی عوام کیلئے آواز اٹھائی اور ان کی نمائندگی کا حق
ادا کر دیا۔ غربت کی کوکھ سے جنم لینے والے حبیب جالب کی آنکھ نے جو دیکھا
اور دل نے جو محسوس کیا اس کو من و عن اشعار میں ڈھال دیا۔ نتائج کی پرواہ
کئے بغیر انہوں نے ہر دور کے جابر اور آمر حکمران کے سامنے کلمہ حق بیان
کیا۔
حبیب جالب کے بے باک قلم نے ظلم ، زیادتی ، بے انصافی اور عدم مساوات کے
حوالے سے جو لکھا وہ زبان زدِ عام ہو گیا ۔
|
|
اگر پاکستان میں ایسی انقلابی سوچ رکھنے والے ادیبوں اور شاعروں کی بات کی
جائے تو حبیب جالب انقلابی کام کے حوالے سے استعارے کا درجہ رکھتے ہیں یعنی
جب حبیب جالب کا نام لیا جائے تو انقلاب کی جدوجہد کا ایک باب کھل جاتا ہے،
حبیب جالب نام ہی فرسودہ نظام کے خلاف مزاحمت کا ہے ہر دور میں جب کبھی
ظلمت شب عروج پر ہوتی ہے حبیب جالب یاد آتے ہیں جن کو بچھڑے ایک اور برس
گزر گیا۔
حبیب جالب آمریت کے خلاف ایک مضبوط صدا تھے اور انہوں نے اپنا ماضی آمروں
کے خلاف جدوجہد میں گزارا وہ مخلوق خدا پر ایک آمر کو نہیں مانتے تھے اس کی
جھلک ان کے کلام میں ملتی ہے وہ برملا کہتے:
’’میں نہیں مانتا‘‘
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو، صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
پھول شاخوں پہ کھلنے لگے، تم کہو
جام رندوں کو ملنے لگے، تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے، تم کہو
اس کھلے جھوٹ کو، ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر میں تمہیں کس طرح سے کہوں
تم نہیں چارہ گر، کوئی مانے، مگر
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
جالب کے انتقال کے بعد انقلابی شاعری میں جو خلا پیدا ہوا وہ اب تک پر نہیں
ہو سکا۔ نثر لکھنے والے تو آمریت کے خلاف جدوجہد کر ہی رہے ہیں مگر جالب کی
طرح کے ایک اور انقلابی شاعر کی کمی موجود ہے۔ معاشرتی ناہمواریوں کے خلاف
قلم سے لڑنے والے حبیب جالب کی شاعری آج بھی لوگوں کو حق بات پر ڈٹ جانے کا
سبق دیتی ہے۔
|
|
معروف انقلابی شاعر 1928ء کو دسوہہ ضلع ہوشیار پور بھارتی پنجاب میں پیدا
ہوئے۔ اینگلو عربک ہائی سکول دہلی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 15 سال کی
عمر سے مشق سخن شروع کی۔ ابتدا میں جگر مراد آبادی سے متاثر تھے اور روایتی
غزلیں کہتے تھے۔ آزادی کے بعد کراچی آ گئے اور کچھ عرصہ معروف کسان رہنما
حیدر بخش جتوئی کی سندھ ہاری تحریک میں کام کیا۔ یہیں ان میں طبقاتی شعور
پیدا ہوا اور انہوں نے معاشرتی ناانصافیوں کو اپنی نظموں کا موضوع بنایا۔
1956ء میں لاہور میں رہائش اختیار کی۔ ایوب خان اور یحییٰ خان کے دور آمریت
میں متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ نظموں کے پانچ مجموعے ’’برگ
آوارہ، سرمقتل، عہد ستم، ذکر بہتے خون کا، گوشے میں قفس کے‘‘ شائع ہو چکے
ہیں۔ حبیب جالب کی سیاسی شاعری آج بھی عام آدمی کو ظلم کے خلاف بے باک آواز
اٹھانے کا سبق دیتی ہے۔
جوانی میں ہی جالب معاشرے کی غلط رسموں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور ساری عمر
انقلاب کی آس میں جیلیں کاٹتے رہے اور پولیس سے مار کھاتے رہے، وہ معراج
خالد اور ڈاکٹر مبشر حسن کی طرح ترقی پسند تھے جنہوں نے نہ گھر کی پرواہ
اور نہ شان و شوکت سے مرعوب ہوئے۔ ان کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ معاشرہ
وڈیروں، جاگیرداروں اور کارخانہ داروں کی اجارہ داری سے پاک ہو جائے تاکہ
غریبوں کو بھی جینے کا حق ملے۔
ان کی نظموں میں انقلاب کا درس ہے ان کی نظموں میں استحصالی ٹولے کے خلاف
نفرت پائی جاتی ہے، انہوں نے نظموں کے علاوہ غزلیں بھی کہیں ان کی کلام
پاکستانی فلموں کی زینت بھی بنا-
|
|
کہتے ہیں مغربی پاکستانی کے گورنر نواب آف کالا باغ کی دعوت میں جب نیلو پر
بیرون ممالک کے مہمانوں کے سامنے ناچنے سے انکار پر سختی کی گئی تو اس نے
خودکشی کی کوشش کی۔ اس موقع پر جالب کی شاعری کو نیلو کے خاوند نے اپنی فلم
’’زرقا‘‘ میں فلمایا جو بہت مشہور ہوئی۔
تو کہ ناواقف آداب غلامی ہے ابھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
ضیا دور میں بھی جالب کا قلم آمریت کے مظالم کے باوجود چلتا رہا اور اس نے
بہت سارے فن پارے تخلیق کئے، جالب کی نظم کا یہ شعر بہت مشہور ہوا جس میں
اس نے جنرل ضیا کے نام کو ذومعنی بنایا۔
صرصر کو صبا، ظلمت کو ضیا
بندے کو خدا کیا لکھنا
حبیب جالب ایک حساس شاعر تھے وہ قوم کا درد رکھتے تھے وہ انقلابی خو کے
مالک تھے وہ قوم کے مستقبل کے بارے میں لکھتے ہیں:
تیرے لئے میں کیا کیا صدمے سہتا ہوں
سنگینوں کے راج میں بھی سچ کہتا ہوں
میری راہ میں مصلحتوں کے پھول بھی ہیں
تیری خاطر کانٹے چنتا رہتا ہوں
تو آئے گا اسی آس پر جھوم رہا ہے دل
دیکھ! اے مستقبل
اک اک کر کے سارے ساتھی چھوڑ گئے
مجھ سے میرے رہبر بھی منہ موڑ گئے
سوچتا ہوں بے کار گلا ہے غیروں کا
اپنے ہی جب پیار کا ناتا توڑ گئے
تیرے بھی دشمن ہیں میرے خوابوں کے قاتل
دیکھ! اے مستقبل
جہل کے آگے سر نہ جھکایا میں نے کبھی
سِفلوں کو اپنا نہ بنایا میں نے کبھی
دولت اور عہدوں کے بل جو اینٹھیں
ان لوگوں کو منہ نہ لگایا میں نے کبھی
میں نے چور کہا چوروں کو کھل کے سر محفل
دیکھ! اے مستقبل
انقلابی شاعر نے رومانیت کو بھی موضوع کلام بنایا ان کی غزلیں جس کی عکاسی
کرتی ہیں:
تو رنگ ہے، غبار ہیں تیری گلی کے لوگ
تو پھول ہے، شرار ہیں تیری گلی کے لوگ
تو رونق حیات ہے تو حسن کائنات
اجڑا ہوا دیار ہیں تیری گلی کے لوگ
تو پیکر وفا ہے مجسم خلوص ہے
بدنام روزگار ہیں تیری گلی کے لوگ
روشن تیرے جمال سے ہیں مہر و ماہ بھی
لیکن نظر پہ بار ہیں تیری گلی کے لوگ
دیکھو جو غور سے توڑ میں سے بھی پست ہیں
یوں آسماں شکار ہیں تیری گلی کے لوگ
پھر جا رہا ہوں تیرے تبسم کو لوٹ کر
ہر چند ہوشیار ہیں تیری گلی کے لوگ
کھو جائیں گے سحر کے اجالوں میں آخرش
شمع سرِ مزار ہیں تیری گلی کے لوگ
تحریک پاکستان کی اَن مٹ قربانیوں کو جالب نے اپنے اشعار میں محفوظ کیا
وہیں انہوں نے مادر ملت فاطمہ جناح کی خدمات کا اعتراف بھی خوبصورت انداز
سے کیا٬ جالب کے خاندان کے مطابق ان جیسا انقلابی شاعر اب نہیں آئے گا۔
حبیب جالب 12 مارچ 1993ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تاہم ان کی انقلابی
شاعری کا پیدا کردہ ولولہ آج بھی لوگوں کے دلوں میں موجزن ہے۔
(اس آرٹیکل کی تیاری میں weeklypresspakistan پر
شائع ہونے والے مضمون “ حبیب جالب جس کی لازوال شاعری آج بھی لوگوں کو حق
بات پر ڈٹ جانے کا سبق دیتی ہے “ سے مدد لی گئی ہے)- |