پاکستان اس وقت جن سنگین ترین
بحرانوں سے دوچار ہے ان میں قومی سلامتی کو درپیش چیلنجوں اور خظرات کے بعد
جو سب سے زیادہ اہم ہے وہ پانی کا مسئلہ ہے جو شروع دن ہی سے پاکستان کا
مقدر رہا ہے لیکن اس کو مزید سنگین کرنے میں بیرونی کے ساتھ ساتھ اندرونی
عوامل کا بھی بڑا ہاتھ ہے، تاریخ پر نظر ڈالیں تو پانی کی قلت اور کم یابی
اسی وقت شروع ہوگئی جب تقسیم کے بعد بھارت کے ساتھ وہاں سے آنیوالے دریاﺅں
کے پانی کی ملکیت کے تنازع نے جنم لیا، لیکن ہماری قیادت کی نااہلی نے اس
مسئلے کو حل ہونے کے بجائے مزید الجھا دیا اور آج صورتحال یہ ہے کہ 63برس
قبل ہر پاکستانی کے لئے فی کس 5000کیوبک میڑ پانی کی مقدار اب کم ہو کر محض
ایک ہزار تک پہنچ چکی ہے جبکہ اسی قلت کے سبب صوبوں کے درمیان ایک مرتبہ
پھر لڑائی کا سلسلہ شروع کر چکا ہے۔ اس بحران کی اگرچہ بہت سی سیاسی وجوہات
بھی ہیں لیکن صورتحال کو موجودہ نہج تک پہنچانے میں بھارت کی ہٹ دھرمی کا
بھی بڑا ہاتھ ہے۔ پانی کے مسئلہ کے حل کے لیے اب تک بھارتی قیادت کے ساتھ
پاکستان میں حکومتی سطح پر بارہا مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے باوجودہ
باہمی اختلافات بڑی حد تک بھارتی ہٹ دھرمی کے سبب بہتر ہونے کے بجائے مزید
کشیدگی کی طرف بڑھتے رہے ہیں اور اس سلسلہ میں اب تک کی جانے والی تمام تر
کوششیں ناکامی ہی سے دوچار ہوئی ہیں، حتیٰ کہ بھارت نے تمام معاہدوں کی
خلاف ورزی کرتے ہوئے جہاں پاکستان کے حصے میں آنیوالے پانی کا زبردستی
استعمال شروع کر دیا وہیں پاکستان کی ملکیت کے دریاﺅں پر ڈیموں کی تعمیر کا
سلسلہ شروع کر کے ایک ایسے تنازع کو ہوا دی جو دونوں ایٹمی طاقتوں کے
درمیان چوتھی جنگ کا پیش خیمہ بنتا جارہا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں ماہرین
آئندہ عالمی جنگ پانی ہی کے مسئلے پر ہونے کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں
وہیں جنوبی ایشیاء میں بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی کی ملکیت اور
تقسیم کے تنازع کو بھی انتہائی خطرناک قرار دیا جا رہا ہے۔ پانی کی کمی کے
سبب جہاں خطے کا امن داﺅ پر لگا ہوا ہے وہیں پاکستان کی زراعت جو کہ ہماری
معیشت کی بنیاد ہے بھی تباہی کی طرف گامزن ہے اور وہ خطہ جو زرعی لحاظ سے
دنیا کے ذرخیز ترین تصورکیا جاتا ہے پانی کی کمی کے سبب بنجر ہوتا جا رہا
ہے۔
1960ء میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے کے مطابق جس میں ورلڈ بنک، برطانیہ،
جرمنی، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور کینڈا ضمانتی ہیں کے تحت پاکستان اور
بھارت دونوں کو تین تین دریاﺅں کے پانیوں پر ملیکت کا حق دیا گیا ہے،
معاہدے کے مطابق ستلج ، بیاس اور راوی پر بھارت جبکہ چناب، جہلم اور سندھ
پاکستان کے حصے میں ہیں لیکن اس کے باوجود تنازع ختم نہ ہو سکا، بھارت نے
تمام تر شرائط اور وعدے نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان کے حصے میں آنیوالے
دریائے چناب پر 450میگاواٹ بجلی کی پیداوار کا منصوبہ پایہ تکمیل تک
پہنچانے کے لیے بگلیہار ڈیم کی تعمیر کا اعلان کر دیا جس کے بعد دونوں
ملکوں کے مابین پہلے ہی سے موجود تنازع کو مزید شدید کر دیا، اس کے باوجود
گزشتہ برس سات اکتوبر کو بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے اس متنازعہ
منصوبہ پر کام کا افتتاح کر دیا، منصوبے کے تحت 470فٹ بلندی پر پانی کے اس
ذخیرے کی تعمیر پاکستانی زراعت کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں جبکہ ساتھ ہی
ساتھ ملک میں توانائی کے بحران میں بھی شدت کا باعث ہے۔ انڈس ریور سسٹم
اتھارٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق 9اکتوبر 2008 ء اور گیارہ اکتوبر 2008ء کے
دوران صرف تین دنوں میں بھارت نے پاکستان کو عام حالات میں ملنے والا
55000کیوسک پانی کم کر کے 10739 کیوسک خراج تک محدود کر دیا۔ آئی ایس این
سکیورٹی واچ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا دو ملین ایکڑ فٹ پانی صرف اکتوبر
2008ء میں بھارت کے استعمال میں رہا۔ پنجاب ایری گیشن ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ
کے مطابق بھارتی اقدامات کی وجہ سے پاکستان کو تین لاکھ اکیس ہزار ملین
ایکڑ فٹ پانی کا نقصان ہو رہا ہے جس سے 405 نہریں اور 1125آبی گزرگاہیں ڈیڈ
لیول تک پہنچ گئی ہیں جبکہ ایک کروڑ تیس لاکھ ایکڑ زرعی زمین شدید متاثر
ہوئی ہے۔ دوسری جانب پاکستان جو کہ زیادہ تر بجلی پانی ہی سے پیدا کرتا ہے
اس کمی کے سبب توانائی سیکٹر میں بھی مشکلات کا شکار ہے ۔ بھارت کی جانب سے
صرف بگلیہار ہی نہیں بلکہ مزید کئی ڈیموں کی تعمیر کا منصوبہ بھی ہے جبکہ
پاکستانی سیاستدانوں کی آپس کی چپقلش کی وجہ سے بھارت ان کی تکمیل میں
آزادی محسوس کر رہا ہے۔
پانی کی تقسیم کے حوالے سے بھارتی ہٹ دھرمی کوئی نئی بات نہیں، بلکہ یہ
سلسلہ یکم اپریل 1948ء سے اس وقت شروع ہوا جب آزادی کے ایک سال بعد ہی
بھارت نے وہاں سے آنیوالا پانی روک لیا جس کے سبب پاکستان کی 5.5 فیصد زرعی
اراضی شدید متاثر ہوئی ۔4مئی 1948ء کو بھارت اور پاکستان کے ساتھ معاہدے پر
رضا مند ہونا پڑا لیکن کچھ ہی عرصہ کے بعد امریکی ماہر ڈیوڈ لینتھال اس وقت
بھارت آئے جنہوں نے تمام صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد جانبداری کا مظاہرہ
کرتے ہوئے پاکستان کے دلائل رد کر دیئے جس کے بعد تنازع دوبارہ پیدا ہوگیا
جو کہ 1952 ءسے 1960ءکے دوران ہونے والی کوششوں کے بعد سندھ طاس معاہدے پر
منتج ہوا۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت دریائے جہلم پر پاکستان کا حق تسلیم کرنے
کے باوجود بھارت نے 1984ء میں اس دریا پر وولر ندی کے شروع پر بیراج بنانے
کا اعلان کر دیا لیکن پاکستان کے احتجاج پر یہ تعمیر روک دی گئی ۔ 1992ء
میں دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم کا معاملہ شروع ہوگیا جو تاحال ختم نہیں
ہوا اور صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ بھارتی اقدامات کے سبب پانی کی
کمی پیدا ہونے والے مسائل پاکستان میں اندرونی اختلافات کی وجہ بن رہے ہیں
اور اسی کمی کے نتیجہ میں پاکستان کے چاروں صوبوں پنجاب، سندھ، سرحد اور
بلوچستان میں وسائل کے لحاظ سے پانی کی تقسیم کا تنازعہ موجود رہا ہے۔ اب
صوبوں کی جانب سے ایک دوسرے پر1991ء میں ہونیوالے پانی کی تقسیم کے معاہدے
جسے ’واٹر اپورشن ایکارڈ‘ کا نام دیا گیا تھا کی خلاف ورزی کے الزامات
سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ صوبوں میں پانی کی تقسیم کا مسئلہ بھی نیا نہیں
بلکہ برصغیر کی تقسیم سے پہلے ہی کا چلا آرہا ہے اور 1991ء کا پانی کی
صوبائی تقسیم کا معاہدہ بھی اسی سلسلہ میں ایک اہم پیش رفت تھا کیونکہ قیام
پاکستان کے بعد 1968ء میں حکومت نے اختر حسین کی زیر صدارت ”واٹر ایلوکیشن
اینڈریٹس کمیٹی“تشکیل دی جس کا مقصد پانی کی تقسیم کا جائزہ لینا تھا۔
کمیٹی نے یکم جولائی1970 کو اپنی رپورٹ پیش کی جس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
اس کے بعد مزید کئی کمیٹیاں قائم کی گئیں لیکن وہ کسی متفقہ حل کی تلاش میں
ناکام رہیں۔ بالآخر چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اس اہم ایشو پر کسی باہمی
سمجھوتے پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے اور1991میں دریائے سندھ کے پانی کے
نظام پر صوبوں کے درمیان ایک اہم معاہدہ طے پایا جسے ’واٹر اپورشن اکورڈ‘
کہا جاتا ہے، اس معاہدے کے تحت ہر صوبے میں نہروں کے پانی کے استعمال کو
تحفظ فراہم کیا گیا اور دریاؤں کے پانی جن میں سیلاب اور اضافی پانی بھی
شامل ہے ان کی متوازن تقسیم کا نظام قائم ہوا۔
بھارتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پانی کی کمی اور میسر پانی کی تقسیم پر اختلافات
اپنی جگہ، لیکن اس ساری صورتحال کو جو چیز سب سے زیادہ متاثر کر رہی ہے وہ
پانی کے ذخائر کی تعمیر میں سیاسی پسند اور نا پسند ہے جو مختلف ادوار میں
نعرے کے طور پر تو استعمال ہوتا رہا لیکن بار ہا حکومتی اعلانات اور فنڈز
مختص کئے جانے کے باوجود عملی اقدمات تک نہیں پہنچ سکا ۔ ماہرین کا کہنا ہے
بھارت کی جانب سے پانی کے معاہدوں کی تمام تر خلاف ورزیوں کے باوجود
پاکستان کے پاس اتنا پانی ہے کہ اگر اس کو مناسب طریقے سے ذخیرہ کرنے کے
انتظامات کر لیے جائیں تو وہ ملکی ضروریات کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوگا
جس سے زراعت کے ساتھ ساتھ بجلی کی پیداوار اور دیگر منصوبوں کے لیے بھی
وافر ہوگا۔ لیکن بد قسمتی سے شروع دن سے ہی پاکستان میں ہر اہم معاملہ اور
منصوبہ سیاست کی بھینٹ چڑھتا آیا ہے لیکن ان منصوبوں میں کچھ ایسے بھی شامل
ہیں جن کا التواء آج ہمارے لیے وبال جان بنا ملک کو تباہی کے دھانے پر
پہنچا چکا ہے۔ انہی منصوبوں میں ڈیموں کی تعمیر جن میں کالا باغ ڈیم سر
فہرست ہے بھی شامل ہے جو ماہرین کے مطابق ایک ایسا منصوبہ ہے جس پر عمل سے
نہ صرف موجودہ توانائی بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ پانی کی کمی کا
مسئلہ بھی بڑی حد تک حل ہو سکتا ہے۔ لیکن ہمارے حکمران ہر دور میں اسے بھی
اپنی سیاسی اناء کے سبب قومی اتفاق رائے نہ ہونے کی آڑ میں سیاسی مقاصد کے
لیے استعمال کرتے آئے ہیں جبکہ موجودہ حکومت نے تو اس منصوبے کے مکمل خاتمے
کا اعلان کر کے ساری امیدوں ہی پر پانی پھیر دیا ہے۔ کالا باغ ڈیم کی
افادیت کیا تھی اور اس کی تعمیر بحرانوں پر قابو پانے میں کتنی معاون ثابت
ہو سکتی تھی؟ حقائق کی روشنی میں دیکھیں تو یہ ڈیم ضلع میانوالی کے پیر
بہائی کے مقام پر دریائے سندھ پر تعمیر کیا جانا تھا، جس کی فزیبلٹی 1982ء
میں تیار کی گئی، تاہم 1989ء میں اس کے پی سی ون کی تکمیل کے اعلان پر
عملدرآمد نہ ہوسکا، اور بالآخر موجودہ حکومت نے یہ منصوبہ ختم کرنے کا
اعلان کردیا جس سے ایک اندازے کے مطابق پاکستان کو 50کھرب سے زائد کا نقصان
ہوگا جس میں پنجاب کو سالانہ 150ارب کا نقصان بھی شامل ہے ۔ ڈیم کی سائیٹ
پر اربوں روپے کی لاگت سے سڑکیں اور ہاﺅسنگ کالونیاں تعمیر کی جاچکی ہیں
جبکہ موسیٰ خیل میں سرکل چکڑالا میں اس مقصد کے لیے اربوں کی اراضی بھی
خریدی گئی۔ فنی ماہرین کے مطابق کالاباغ ڈیم سب سے زیادہ کا ر آمد اور جلد
تعمیر ہونے والا منصوبہ تھا، جس میں 601ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی
گنجائش رکھی گئی جو کہ تربیلا ڈیم سے 210کلومیٹر نیچے اور جناح بیراج سے
26کلومیٹر اوپر تعمیر کیا جانا تھا۔ اس پرا جیکٹ میں سیلابی پانی کو خارج
کرنے کے لیے دائیں کنارے پر دو سپیل وے بھی رکھے گئے جن میں دو ملین کیوسک
پانی کے اخراج کی صلاحیت تھی۔ اس کے بائیں کنارے پر 12عدد 36فٹ قطر کی ٹنل
سے تعلق رکھنے والا پاور ہاﺅس بھی تعمیر کیا جانا تھا جس سے 3600میگاواٹ
بجلی پیدا ہونا تھی۔ کالا باغ ڈیم پر جتنی لاگت آنا تھی وہ لاگت صرف بجلی
کی پیدوار ہی سے تین برسوں میں پوری ہوجاتی، جبکہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے
پای ربیع سیزن اکتوبر تا مارچ اور خریف سیزن اپریل سے مئی سے اوسط
12.53بلین سالانہ اضافی آمدنی متوقع تھی۔ اس ڈیم کی تعمیر کا فائدہ بھی کسی
ایک کے بجائے چاروں صوبوں کو یکساں ہونا تھا اور سرحد کی 4لاکھ 40ہزار،سندھ
کی 8لاکھ ، پنجاب کی 6لاکھ 80ہزار اور بلوچستان کی 5لاکھ 10ہزار ایکڑ اراضی
سیراب کی جا سکتی تھی۔ اس کے علاوہ 2400میگاواٹ کا بجلی پیدا کرنے کا
منصوبہ اس کے علاوہ تھا جو کل پیداوار کا 13فیصد ہوتا۔ اس سے ہائیڈل تھرمل
ریشو میں اصلاح ہونا تھی جس سے 1174یونٹس ہائیڈل بجلی پیدا کر کے نیشنل
گریڈ اسٹیشن بھجوائی جانی تھی ۔ ڈیم کی تعمیر میں صرف 35ہزار ایکڑ اراضی
آنا تھی جس میں 13ہزار سرحد اور باقی پنجاب کی تھی۔ کالا باغ ڈیم کے
متاثرین کے لیے فزیبلٹی میں 6ارب سے زائد کی امداد رکھی گئی جس میں ان
لوگوں کو جدید طرز کے دیہات بنا کر دیا جانا تھے۔1984ء میں کئے گئے ایک
سروے کے مطابق اس وقت تھرمل پاور فی یونٹ کی قیمت ڈیڑھ سے دو روپے تھی جو
آج آٹھ روپے تک پہنچ چکی ہے جبکہ اگر کالا باغ ڈیم سے بجلی تیار کی جاتی تو
اس کی لاگت 40پیسے فی یونٹ کا اندازہ لگایا گیا تھا۔
عام طو ر پر اس منصوبے کے مخالفین صوبوں کو نقصان کے نام پر اس کی مخالفت
کرتے ہیں لیکن اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ ملکی اور غیر ملکی ماہرین اس
منصوبے کو قدرتی اور جغرافیائی لحاظ سے دنیا کا آسان ترین اور کم خرچ ترین
منصوبہ قرار دے چکے ہیں۔ اس کے علاوہ بھاشا اور دیگر بڑے ڈیموں اور پانی کے
چھوٹے ذخائر بھی کچھ ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہیں جس کی تازہ ترین مثال
عالمی بینک کی جانب سے گزشتہ دنوں بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے مجوزہ جگہ کو
پاکستان اور بھارت کے مابین متنازعہ جگہ قرار دیکر اس کی تعمیر کے لیے
امداد کی فراہمی سے انکار اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے امداد کی
فراہمی کو پارلیمنٹ کی قرارداد سے مشروط کرنا ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں اس
وقت دنیا بھر کے مختلف ممالک میں 541ڈیموں کی تعمیر جاری ہے، بھارت میں 28،
ایران میں19، ترکی میں23، چین میں250ڈیموں کی تعمیر پر کام جاری ہے مگر
پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں 1974ءکے بعد کوئی ڈیم نہیں بنایا
گیاجس کے پیچھے سیاسی ہٹ دھرمی کے علاوہ کچھ نہیں اور اگریہ سلسلہ نہ روکا
گیا تو پانی کی کمی تو بڑھے گی ہی اس کمی کی وجہ سے بھارت کے بعد خود
پاکستان کے اپنے صوبوں میں جاری اختلافات شدید ہوتے رہیں گے جو کہ کسی بھی
صورت نیک شگون نہیں۔ |