بلوچ ہرگز آزادی نہ مانگے

جی ہاں ہم مانتے ہیں کہ ہم نے بلوچستان کو ہر لحاظ سے محروم رکھا، ہم نے اس پر جبری تسلط قائم کیا کوئٹہ سے توپوں کو لے کر خان قلات کے قلعے پر چڑھ دوڑے، گولہ باری کی، لوگوں کو ہلاک کیا، ہر چیز کو نیست و نابود کیا، حتٰی کہ وہاں سے قیمتی نوادرات بھی لے اڑے- اس کے بعد ہم نے نواب نوروز خان کو جو کہ خان قلات کو غیر قانونی حراست میں لینے کے ردعمل میں پہاڑوں پر چڑھ گیا تھا- قرآن کا واسطہ دیا- دھوکہ دہی سے ان کی فراریت ختم کردی اور بڑھاپے میں اس کو ساتھیوں سمیت جیل میں بند کردیا- اس کے بیٹے سمیت سات دوستوں کو تختہ دار پر لٹکا دیا- اسی دوران بہت لوگوں کو گاروگمسار کردیا اور رہائی ملنے پر تو کئی لوگوں نے شرم سے اپنی جانیں دے دیں- ہم نے بھٹو دور میں سردار مینگل کے بیٹے کو اغواء کردیا اور چالیس سال گزرنے کے باوجود سردار مینگل کو معلوم نہیں کہ اس کا جوان سالہ بیٹا اسد مینگل زندہ ہے یا شہید- اسی دور میں ہم نے بمباریاں کیں اور ہزاروں بلوچوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور انھیں دربدر کردیا- وہم ہم ہی تو تھے کہ بلوچوں کو حق کے بدلے گولیاں دیں، جدائیاں دیں اور ایک ایسا استحصالی طبقہ پیدا کیا، جو بلوچوں میں تفریق پیدا کرے- جو چالاکیاں ہم نے انگریزوں سے سیکھیں وہ پالیسیاں ہم نے بلوچوں کو تحفے میں دیے- ان کے وسائل کو لوٹتے رہے بلوچوں کی وجہ سے ہمارے کارخانے چلتے رہے، ہمیں دال روٹی ملتی رہی، ہمارے بچے بیکن ہاؤس اور جوان آکسفورڈ کے اسٹوڈنٹس بنے-

اب ہم بلوچوں کے خلاف اپنا پانچواں آپریشن کر رہے ہیں جو کہ پانچ سال گزرنے کے بعد تا حال اپنی شدت کے ساتھ جاری و ساری ہے- کہانی یہاں تک ختم نہیں ہوتی بلکہ ہم نے تو ان کی روایات کا پامال کردیا- ہم نے تو ان کی معصوم عورتوں کو بھی اغواء کیا اور اپنے اندھیرے کیمپوں کو روشن کیا، ان کے ہزاروں افراد کو کلی کیمپ اور اذیت گاہوں تک پہنچا دیا- ڈیرہ بگٹی اور کوہلو کی بات ہی چھوڑیے وہاں پر تو ہم نے وہ مظالم ڈھائے کہ ہلاکو خان کی روح بھی شرمندہ ہوجائے وہاں لوگ لاشیں دفن کرتے کرتے تھک گئے- وہاں کے بزرگ سیاست دان نواب بگٹی پر کیمیائی میزائلوں سے حملہ کیا اور انھیں شہید کیا- حتٰی کہ ان کی لاش کو تابوت میں بند کرکے دفن کردیا- نواب مری کے جوان سالہ بیٹے نوابزادہ بالاچ خان مری کو بھی سرلٹھ میں ہم نے ٹارگٹ بنایا- کئی بار تو لوگوں کو ہیلی کاپٹروں سے گرایا، جلتی تیل کے ڈرموں میں لوگوں کو ڈالہ- سانحہ سوراپ و مرغاب کے ذمہ دار ہم ہیں- لوگوں کی عزت نفس کو مجروح کرنے کے لیے ان کی شلواریں کاٹنا، بلوچی چوٹ ممنوع قرار دینا- شریف اور باعزت لوگوں کو سر راہ مرغا بنانا روز کے معمول ہیں- منصف کے بجائے ہم نے سردار کو ڈکٹیٹر دکھایا اور بلوچ میڈیا کے لوگوں کو کبھی دھمکایا، کبھی گولیوں سے چھلنی کردیا- اور کبھی زندانوں میں ڈال دیا- بلوچوں کی زبان ثقافت اور تشخص پر ہمارے بڑی طاقت کے ساتھ تا حال جاری و ساری ہیں-

مانا کہ بلوچستان کے ساتھ بہت زیادتیاں ہوئی ہیں ہم بلوچوں کے دکھ و درد میں برابر کے شریک ہیں لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ بلوچ آزادی مانگیں- (رحمان ملک ) -----!
Meerak Baloch
About the Author: Meerak Baloch Read More Articles by Meerak Baloch: 13 Articles with 14637 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.