سیاسی پینڈورا باکس اور سازشوں کی تاریخ

آئی بی کے سابق ڈائریکٹر بریگیڈیئر (ر) امتیاز احمد کے 1992ء کے کراچی آپریشن بارے حالیہ انٹرویو میں انکشافات کے بعد ملکی سیاست گویا ہلچل کی کیفیت میں ہے۔ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان محاذ آرائی عروج پر ہے اور ایسے ایسے انکشافات سامنے آرہے ہیں کہ سیاست کو عبادت کہنے والے بھی کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہیں۔ الزامات کتنے سچ ہیں اور کس قدر جھوٹ؟ اس کا اندازا فی الوقت ممکن نہیں البتہ ان الزامات کے نتیجہ میں جو صورتحال پیدا ہوچکی ہے وہ حالات یوں کے توں رہنے کی صورت میں عنقریب مفاہمتی سیاست کا جنازہ نکلنے کی پیش گوئی ضرورکر رہی ہے۔ وزیر داخلہ رحمن ملک اگرچہ دونوں جماعتوں کے درمیان صلح کے لیے ثالثی کی پیشکش کر چکے ہیں لیکن دونوں فریق الزام تراشی میں جتنا آگے جا چکے ہیں اسے دیکھتے ہوئے ان کی کوششوں کی کامیابی بھی ناممکن نظر آرہی ہے کیونکہ دونوں ہی اطراف کے مزید حامی اور مخالفین بھی سامنے آگئے ہیں۔ بات اگر کراچی آپریشن یا پھر بریگیڈیئر(ر) امتیاز کے بیانات تک محدود رہتی تو شاید سیاسی شور کا سلسلہ چند روز بعد دم توڑ دیتا لیکن شومئی قسمت کہ سابق چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی نے میاں نواز شریف کو پہلی بار وزیر اعظم بنوانے والے آئی جے آئی (اسلامی جمہوری اتحاد) کو آئی ایس آئی کی جانب سے رقوم کی فراہمی کا بھانڈا بھی پھوڑ دیا ہے۔ جسٹس(ر) صدیقی نے 24جولائی 1994ء کو ریکارڈ کروائے گئے جنرل (ر) اسد درانی (سابق سربراہ آئی ایس آئی) کے جس بیان کا حوالہ دیا ہے اس کے مطابق سیاستدانوں کو رقوم بے نظیر حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی غرض سے دی گئی تھیں۔ اب تک جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ یہی ہیں کہ قریباً دو عشروں کے بعد گڑھے مردے اکھاڑنے کا مقصد ملک میں سیاسی انارکی کے سوا کچھ بھی نہیں لہٰذا رقم سکینڈل کے بعد ایم کیو ایم کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے پھڈے کا بھی قوی امکان ہے ۔

سنجیدہ سیاسی حلقے اور بعض حکومتی اور اپوزیشن رہنما بھی صورتحال پر خاصے پریشان ہیں اور موجودہ منظر نامے کو جمہوری استحکام پر وار قرار دیتے ہوئے موجودہ حالات کو بھی انہی سازشوں کا تسلسل قرار دے رہے ہیں جو روز اول سے پاکستان کو اندرونی اور سیاسی طور پر متزلزل کرنے کے لئے کی گئیں انتشار پر ہی منتج ہوئیں۔ یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب آزادی کے فورا بعد راولپنڈی سازش کیس بھی بہت مشہور ہوئی۔ اس سازش کے مرکزی کردار جنرل اکبر خان تھے ۔ائر مارشل (ر)اصغر خان کے مطابق اکبر خان 14اگست 1947 کو کرنل تھے، انہوں نے 14اگست کو گورنر جنرل ہاؤس میں ایک استقبالیے میں شرکت کی اور قائداعظم سے سخت سوال کردیا کہ انہوں نے فوج میں کلیدی عہدے برطانوی افسروں کو کیوں دئے ہیں۔ قائداعظم نے اکبر خان کو ڈانٹ دیا اور کہا کہ پالیسیاں عوام کے نمائندے بناتے ہیں فوج کا اہم فیصلوں اور پالیسی امور میں کوئی کردار نہیں ہوگا ۔اکبر خان نے 1948 کی کشمیر جنگ میں فوج کی کمان کی اور وہ سیز فائر کے فیصلے سے سخت نالاں تھے اور کھلم کھلا حکومت پر تنقید کرتے تھے۔ پاکستان فوج کے پہلے آرمی چیف جنرل گریسی کشمیر میں فوج کو بھیجنے کے خلاف تھے۔ پاکستان اور بھارت کی افواج کے کمانڈر ان چیف جنرل آکن لیک نے قائداعظم کو دھمکی دی تھی کہ اگر پاک فوج کو کشمیر میں مداخلت کے لیے روانہ کیا گیا تو وہ برطانوی افواج کو پاکستانی فوج سے نکال لیں گے اکبر خان دلیر جرنیل تھے اور باتونی تھے ان کی بیگم نسیم کو بھی باتوں کا شوق تھا لہٰذا دونوں مختلف محفلوں میں حکومت پر تنقید کرتے رہے۔ 1950 میں اکبر خان کو میجر جنرل بنادیا گیا جنرل ایوب خان نے ان کو جی ایچ کیو میں چیف آف جنرل سٹاف تعینات کردیا تاکہ وہ ان کے قریب رہیں اور ان پر نظر رکھی جاسکے۔23فروری 1951کو میجر جنرل سے لے کر کیپٹن تک 12فوجی افسروں نے جنرل اکبر خان کی رہائش گاہ پر اجلاس کیا اس اجلاس میں فیض احمد فیض اور کیمونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل سجاد ظہیر بھی شریک تھے۔ جنرل اکبر خان نے اس اجلاس میں اپنا منصوبہ پیش کیا۔ اس منصوبے کے مطابق خواجہ ناظم الدین اور لیاقت علی خان کو گرفتار کر کے ان سے اقتدار چھین لینا اور جنرل اکبر خان کی سربراہی میں ایک عبوری حکومت کا قیام عمل میں لانا تھا۔ صوبہ سرحد کے سینئر پولیس آفیسر اصغر علی شاہ جنرل اکبر خان کے قریبی دوست تھے وہ اجلاس میں شریک نہ ہوئے البتہ ان کواجلاس کی رپورٹ مل گئی اصغر شاہ نے یہ رپورٹ آئی جی سرحدکو دے دی مرکزی حکومت کویہ رپورٹ مل گئی 9 مارچ 1951ء کو میجر جنرل اکبر خان، فیض احمد فیض، سجاد ظہیر اور دوسروں کو گرفتار کرلیا گیا۔ مؤرخین کے مطابق اگر راولپنڈی سازش کامیاب ہوجاتی تو پاکستان کی سیاسی تاریخ مختلف ہوتی۔

قائداعظم اور لیاقت علی خان کے درمیان اختلافات بھی سازش ہی کے تحت پیدا کیے گئے۔ 1948میں غلام محمد کی آشیر باد سے کراچی کی دیواروں پر پوسٹر لگائے گئے جن پر درج تحریر میں قائد اعظم کو ملک کا علامتی سربراہ اور قائد ملت کو اصل حکمران کہا گیا۔ قائداعظم سخت علیل تھے اور زیارت بلوچستان میں آرام کر رہے تھے۔ غلام محمد پوسٹر لے کر زیارت پہنچے ان کی قائد سے ملاقات نہ ہو سکی البتہ ان کی مادر ملت فاطمہ جناح سے ملاقات ہو گئی جس میں انہوں نے پوسٹر کے حوالے سے تاثر دیا کہ لیاقت علی خان مطلق العنان حکمران بننا چاہتے ہیں۔ قائداعظم اور لیاقت علی خان کے درمیان شکوک و شبہات اس قدر بڑھ گئے کہ لیاقت خان نے ایک موقع پر تحریری استعفیٰ قائداعظم کو بھجوا دیا جسے قبول نہ کیا گیا سازش کرنے والوں نے مادر ملت فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کردیں۔ سازش کے تحت ہی لیاقت علی خان کو 16اکتوبر 1951 کو لیاقت باغ راولپنڈی میں شہید کر دیا گیا۔ سیاسی خلاء کا فائدہ اسکندر مرزا، چوہدری محمد علی اور جنرل ایوب خان کو پہنچا۔ ایک اور اہم سازش 16 اپریل 1953 کو ہوئی جب گورنر جنرل غلام محمد نے جنرل ایوب کے ساتھ سازباز کر کے خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر دیا۔ جنرل ایوب کے آخری دور میں اگر تلہ سازش بے نقاب ہوئی جس کے مطابق مجیب الرحمان ہندوؤں سے مل کر بنگلہ دیش کی علیحدگی کا منصوبہ بنارہے تھے۔ جنرل یحیٰ خان نے اپنے رفقاء جرنیلوں کے تعاون سے ذاتی اقتدار کے لیے سازش کی اور مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کیا جس کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہوگیا۔

ذوالفقار علی بھٹو شہید کے اقتدار کے دوران ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے دو تین سازشیں ہوئیں جو ناکام رہیں۔ پی این اے نے خفیہ ایجنسیوں اور عالمی طاقتوں کے اشتراک سے بھٹو شہید کے خلاف تحریک چلائی جس کے نتیجے میں جنرل ضیاءالحق نے سازش کر کے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا اور اس سازش کے خاکے کی روشنی میں بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ خود ضیاء الحق بھی ٹینکوں کی مشق دکھانے کی سازش کا شکار بن کر دنیا سے چل بسے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے پہلے دور میں ان کے خلاف عدم اعتماد کی سازش ہوئی جس میں اسامہ بن لادن کا نام سامنے آیا۔ سازش کے تحت ہی محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی دو دو حکومتوں کو ختم کیا گیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کو سازش ہی کے ذریعے شہید کیا گیا اور اب آمریت کے نو سالہ دور کے خاتمہ پر شروع ہونے والا جمہوری دور بھی سازشوں ہی کی زد میں ہے جن کا ذکر صدر آصف زرداری اور میاں نواز شریف بھی کر چکے ہیں جبکہ سازش ہی کے تحت 17 برس بعد گڑھے مردے اکھاڑے جارہے ہیں ۔

سازشی کون ہیں؟ کس کے اشارے پر سب کچھ کیا جارہا ہے یا ان کے مقاصد کیا ہیں؟ یہ ایک طویل بحث ہے لیکن مختصراً یہ کہ ملک میں موجود جمہوریت دشمنوں کے ساتھ ساتھ بیرونی ہاتھ بھی پاکستانی نظام کا تسلسل توڑنے کے درپے ہیں ۔ جناح پور کے نقشے ہی کا قصہ لیجئے جو کہ امریکہ ہی کی ”ایجاد تھا“ ۔ 6سال قبل یہ نقشہ امریکی سی آئی اے نے مہاجروں کی علیحدہ ریاست کے لئے جاری کیا تھا اور اس میں جو تفصیلات دکھائی گئی تھیں انکے مطابق کراچی اور حیدر آباد کو ملا کر ایک خود مختار ریاست ''جناح پور ''قائم کرنے کا پرچار کیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ امریکی سی آئی اے نے اس نوعیت کے6 مزید نقشے تیار کرا رکھے ہیں جن میں سندھو دیش، آزاد بلوچستان، پختونستان، گریٹر پنجاب، سرائیکستان اور آزاد اسماعیلی سٹیٹ بھی شامل ہیں۔ اپنے مقاصد کے لیے امریکہ اسرائیل ایجنسی موساد اور بھارتی ایجنسی ”را“ کے ساتھ ساتھ پاکستان میں موجودہ خود مختاری کے حامیوں کو بھی استعمال کر رہا ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ 63برس گزرنے کے باوجود ہم ان سازشوں کو سمجھنے کے بجائے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیتے ہیں اور موجودہ صورتحال میں بھی یہی روش دہرائی جارہی ہے۔ مان لیا کہ کہیں نہ کہیں ضرور کچھ غلط ہوگا لیکن گھر کی لڑائی کا فائدہ بیرونی قوتوں کو اٹھانے کا موقع دینا کہاں کی دانشمندی ہے؟ ضرورت اس امرکی ہے کہ سیاسی قیادت مل بیٹھ کر معاملات کا حل اور غلط فہمیوں کا ازالہ کرے بصورت دیگر سازشیں بھی جاری رہیں گی اور ان کے نتیجہ میں ناقابل تلافی نقصان بھی!
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 58384 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.