مثبت جمہوری اقدار اور احتساب

حالیہ آل پارٹیز کانفرنس میں ملک کی تمام سیاسی قیادت کی شمولیت اور باہمی اتفاق رائے نہایت خوش آئند امرہے۔ اس موقع پر تمام جماعتوں نے بالغ النظری اور دانشمندی کا مظاہرہ کیا اوروفاقی حکومت کو دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے طالبان سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز سے مذاکرات کرنے اور معاملات طے کرنے کا اختیار دیا ۔ مزید حوصلہ افزا ء امر یہ ہے کہ اس اہم معاملہ پر ملک کی فوجی اور سیاسی قیادت یکجہت اور یکسو دکھائی دی۔ یوں جاری کردہ اعلامیہ فوجی اور سیاسی قیادت کے اشتراک فکر کا مظہر تھا۔اے۔ پی۔ سی کا انعقادکسی قدر تاخیر سے ممکن ہوا، جس پر وفاقی حکومت کو تنقید کا سامنا بھی رہا۔ مگر ’دیر آید درست آید‘ کے مصداق مجموعی طور پر کانفرنس خوشگوار ماحول میں اختتام پذیر ہوئی۔ اے پی سی میں تمام سیاسی قائدین اپنے سیاسی اختلافات اور ذاتی رنجشوں سے بالا ہو کر شریک ہوئے۔ عمران خان اورمولانا فضل الرحمن کا باہم مصافحہ اور ایک ہی میز پر موجودگی ، عمران خان کی جانب سے تمام سیاسی قیادت کو ایک چھت تلے اکٹھاکرنے کی کاوش پر وزیر اعظم نواز شریف کے لیے تعریفی کلمات، اس امرکامظہر ہیں کہ ہماری سیاسی قیادت بلوغت کی جانب گامزن ہے ۔ اے پی سی کے انعقاد میں تاخیر کا ایک سبب عمران خان کی عدم موجودگی اور بعدازاں ان کا وزیر اعظم اورآرمی چیف سے علیحدہ ملاقات کا مطالبہ تھا۔وفاقی حکومت نے وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ملاقات کا اہتمام کیا۔ یہ فعل حکومت کی تصادم گریز پالیسی کا عکاس ہے۔ ابتدائی کلمات میں وزیر اعظم نواز شریف نے اس عزم کا اظہار کیا کہ دہشت گردی، معیشت، کراچی اور بلوچستان کے معاملات پر سیاست نہیں کریں گے۔ وطن عزیز کو اندرونی اور بیرونی محاذ پر درپیش سنگین خطرات اور مشکلات کے پیش نظر میاں نواز شریف کی اس بات پر واقعتا عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ تا کہ ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالا جا سکے۔ بر سر اقتدار آنے کے بعد میاں نواز شریف کی جانب سے بلوچوں کا احساس محرومی دور کرنے کے لیے صوبائی حکومت کی قربانی، خیبر پختونخواہ میں پاکستان تحریک انصاف کو حکومت سازی کے موقع کی فراہمی اور آزاد کشمیر حکومت کو گرانے سے گریز ، اسی مثبت طرز فکرکے مظاہر تھے۔ درحقیقت محاذ آرائی اور تصادم سے گریز، جمہوری ، آئینی اور اخلاقی روایات کی پائیداری جیسے عوامل ہی مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں۔

ایسی ہی خوش کن صورتحال چند روز قبل ایوان وزیر اعظم میں دکھائی دی جب وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے صدر آصف علی زرداری کے اعزاز میں الوداعی تقریب کا انعقاد کیا گیا ۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں سیاست دانوں کے باہمی اختلافات اور جمہوری حکومتوں کے خلاف سازشیں آمریت کی راہ ہموارکیے،جمہوریت کی نمو میں حائل رہیں۔ 2008 میں طویل آمریت کے بعدجمہوریت بحال ہوئی تو سیاست دانوں نے کسی قدردانشمندی اور معاملہ فہمی کا مظاہرکرتے ہوئے جمہوری نظام کو جاری رکھا۔ اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) نے انتہائی اختلافات اور تلخیوں کے با وصف حکومت کو گرانے سے گریزکیا۔ پانچ سالہ آئینی مدت کی تکمیل ، پر امن انتقال اقتدار اور صدر زرداری کی باوقار رخصتی دراصل جمہوریت کی کامیابی ہی ہے ۔ جس کا کریڈٹ مسلم لیگ (ن) کے تحمل،پاکستان پیپلز پارٹی کی معاملہ فہمی، افواج کی مہم جوئی سے گریز اں سوچ اور دیگر اداروں کو جاتاہے۔

وزیر اعظم کی جانب سے صدر زرداری کے لیے الوداعی تقریب کا اہتمام اور خوشگوار یادوں کا اظہار بہترین سیاسی و جمہوری طرزعمل تھا۔ دو انتہائی حریف جماعتوں کے سربراہان کا رواداری اور وضعداری سے ایک دوسرے کو الوداع کرنا علامتی فعل ہی سہی ، مگر ایک عمدہ اور خوش کن روایت کا آغازضرور ہے۔ وزیراعظم نے اس جمہوری تسلسل کاکریڈٹ محترمہ بے نظیر بھٹو کو دیا جو زمانہ جلا وطنی میں اپنے تمام تر اختلافا ت فراموش کیے، جدہ میں میاں نواز شریف سے ملنے آئیں۔ بعد ازاں یہ ملاقات میثاق جمہوریت کے سانچے میں ڈھلی اور ہماری سیاسی تاریخ کاجزو بن گئی۔ صدر آصف علی زرداری کیجانب سے جوابی خیر سگالی کے طور پر مستقبل میں میاں نواز شریف کی حکومت کو ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا گیا۔ ماضی کی سیاست میں ایسی مثبت طرز فکر اور جمہوری روایات شاذ ہی دکھائی دیتی تھیں۔ دراصل یہی علامتی فعل جمہوریت اور جمہوری رویوں کی نمو اور پا ئیداری کا پیش خیمہ ہیں۔

اس سب کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ تمام جمہوری و اخلاقی روایات شخصیات، جماعتوں یا عہدیداروں کے مفاد کی بجائے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کی ضامن ہونی چاہیےں۔جیسا کہ کچھ حلقوں کی جانب سے وزیر اعظم اور سابق صدر زرداری کے مابین اس خیر سگالی کو مک مکا اور باری کی سیاست سے تعبیر کیا گیا۔تصادم گریز سیاست بجا مگر اسے احتساب سے متصادم ہرگز نہیں ہونا چاہیے ۔ مسلمہ حقیقت ہے کہ آصف علی زرداری کی زیر قیادت پاکستان پیپلز پارٹی کی گذشتہ حکومت ملکی تاریخ کی بد ترین اور نا اہل ترین حکومت تصور تھی۔ اس پانچ سالہ دور میں گزشتہ ساٹھ سالوں سے زیادہ قرضے لیے گئے جو عوام کی فلاح کی بجائے خواص کی جیبوں میں گئے۔ اس حکومت نے 60 سالہ کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ سرکاری خزانہ مال مفت دل بے رحم کے مصداق اڑایاگیا۔ پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل ملز، واپڈا اور دیگر سرکاری اداروں میں سیاسی اور نا اہل افراد کی بھرتیوں سے ان اداروں کا دیوالیہ نکالا گیا اور وطن عزیز کو کھربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل اور ورلڈ بینک جیسے ادارے اسقدر کرپشن پر تشویش کا اظہار کرتے رہے۔خود حکومت کے آڈیٹر جنرل اوروفاقی وزیر خزانہ کی جانب سے اربوں روپے کی کرپشن کا اعتراف کیا گیا ۔ حد تو یہ ہے کہ نیب اور ایف آئی اے جیسے ادارے احتساب کی بجائے حکومتی افراد کی غلط کاریوں کی پردہ پوشی کے لیے استعمال ہوتے رہے ۔ مسلم لیگ (ن) کو عوام الناس نے یہ مینڈیٹ اداروں کی بہتری اور کرپشن کے خاتمے کے انتخابی وعدوں اور میاں شہباز شریف کی پنجاب میں کارکردگی کی بنیاد پر دیا ہے ؂۔ حکومت کا فرض ہے کہ نہ صرف اپنی اچھی کارکردگی سے ملکی معیشت میں بہتری لائے،بلکہ گزشتہ ادوار میں ہونے والی مالی بد عنوانیوں کا حساب بھی کرے۔ کرپٹ افراد کو سزائیں دلوانا اور قوم کے اربوں روپے سرکاری خزانے میں واپس لانا بھی اسکی اولین ذمہ داری ہے۔اقدار کی سیاست کا نعرہ اور اخلاقیات کا مظاہرہ مثبت طرز عمل سہی، مگراسے احتساب اور جرائم کی گرفت میں قطعاحائل نہیں ہونا چاہیے۔

Lubna Zaheer
About the Author: Lubna Zaheer Read More Articles by Lubna Zaheer: 40 Articles with 25567 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.