ہمارے بچپن کے وہ سہانے دن جب را وی چین ہی چین لکھتا تھا
ان یادوں میں سب سے قیمتی وہ کہا نیوں کی کتا بیں اور رسالے ہیں جو ہمیں
نصابی کتا بوں سے زیادہ عزیز تھیں۔ ان کہا نیوں کی دلچسپی اپنی جگہ لیکن ان
کے سرورق بھی کیا شاندار تھے کہ جب یہ کتابیں ہما رے ہا تھ آتیں تو کئی
لمحے محض ٹائٹل دیکھنے میں گزر جاتے اس وقت کی حیرت و خوشی کے محسوسات آج
بھی دلوں کو گدگداتے ہیں۔ اپنی جان سے پیاری ان کہانیوں کو جلد سے جلد پڑھ
لینے کی دھن سوار رہتی۔ لیکن اب ایسا لگتا ہے ہمارے دور کے بچوں کے لیے یہ
دنیا کہیں کھو گئی ہے۔ آج بچے ہمیں اپنے آس پاس ننھے منے ہاتھوں سے
سائیکلوں میں ہوا بھرتے، ورکشاپوں میں اپنے ہا تھ سیاہ کرتے، ہوٹلوں میں
کڑچھا مانجھتے ہو ئے، کوڑے کے ڈھیر سے کچرا چنتے اور گھروں میں مالکوں کا
سودا سلف لا تے بھاری بوجھ کے سا تھ نظر آتے ہیں۔
باشعور ہونے کے لیے خواندگی ضروری ہے مگر ہماری آبادی کا اسی فی صد حصہ
انگوٹھا چھاپ ہے۔ درسی کتب سے ہٹ کر اگر ہم بچوں کی فکشن کتابوں پر نظر ڈا
لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ایک خاص فا رمولے کے تحت کہانیاں لکھی تو جا رہی
ہیں مگر ان کرداروں میں چالا کی و عیاری یا پھر جا دو کے زور سے سب کچھ
ٹھیک ہو نے پر زور ہو تا ہے جن سے بچوں کے اندر جدوجہد سے کچھ کر نے کی لگن
پیدا ہونے کے بجائے شارٹ کٹ کا راستہ اختیار کرنے کی تر غیب ہو تی ہے۔ ہمیں
ایسی کہا نیوں کی اشد ضرورت ہے جن میں پری کا نام آتے ہی بچے کا ذہن خواب
بننے لگے، جہاں طلسم ہوش ربا کی حیرت ناکیاں سا ئنسی دنیا کی ترقی پر ابھا
ریں، لکڑہارے کی ایمانداری اعلیٰ اخلاقی قدروں کی جانب را غب ہونے میں مدد
دے۔
یہ ہمارا المیہ ہے کہ بچوں کے ادیبوں کو وہ مقام اب تک نہیں مل سکا جس کے
وہ اہل تھے نہ عزت و مقام عطا ہوا نہ مالی لحاظ سے ان کی معاونت کی گئی۔
موجودہ عہد کے بچے بھی کا فی باشعور ہیں ان کے لیے ادب تخلیق کرنا آسان
نہیں رہا اب یہ ادیبوں، دانشوروں، شاعروں اور حکو متی اداروں کے لیے چیلنج
ہے کہ وہ کس طرح ان کی علمی پرداخت کر تے ہیں بڑے ادیب اور شاعروں سے
استدعا ہے کہ وہ اس جانب ضرور توجہ دیں بڑے ادیب و شاعر اگر سال میں دو چار
نظمیں اور کہانیاں بچوں کے لیے بھی لکھ دیں تو یہ مالی لحاظ سے گھاٹے کا
سودا سہی لیکن ہماری نئی نسل کے لیے نعمت غیر مترکبہ ثا بت ہو گی ہو سکتا
ہے کو ئی مسعود احمد برکا تی، اشتیاق احمد، صوفی تبسم، یا علامہ اقبال جیسے
تخلیق کردہ شاہکار وجود میں آ جا ئیں۔ بچوں کے فروغ ادب سے غفلت خود ان کے
لیے بھی تو نقصا ن دہ ہے یہ نسل جب بناء کسی ادبی ذوق کے پروان چڑھے گی تو
آگے جا کر بڑے ادب کی صورت میں جو کچھ لکھا جا رہا ہے اسے پڑھنے والا کون
ہو گا کہ بچپن سے جو ذوق انھیں ودیعت ہی نہیں کیا گیا اس جرم کی سزا بھی تو
ہم ہی پائیں گے۔
اس وقت ایسی کہانیوں کی اشد ضرورت ہے جو ان کے نوخیز ذہنوں میں ایک سچے
پاکستانی قومیت کے جذبے کو پروان چڑھانے کے ساتھ اس کی تہذیبی انفرادیت کو
بھی کہانیوں کی شکل دے سکیں چند دن قبل جب ہمارے ہاں صوبوں میں تہذیبی ثقا
فتی ور ثے کے حوالے سے شا ندار پروگرام پیش کیے گئے۔ کروڑوں روپے کا بجٹ
خرچ کیا گیا تو کیا ہی اچھا ہو تا کہ نا مور ادیبوں اور شاعروں سے اپنے
تہذیبی ور ثے پر شاندار نظمیں و کہانیاں لکھوائی جاتی ایک قوم و مذہب کے
حوالے سے ان میں ثقا فتی تہذیب کا بھی ذکر ہوتا یہ کتابچے بچوں میں مفت نہ
سہی ارزاں قیمت پر ہی تقسیم کرا ئے جاتے ان میں ہماری ہزاروں بر س پرانی
تہذیبوں کے ذکر کے ساتھ ساتھ قیام پا کستان کے بعد بناء کسی فر قہ، رنگ،
نسل، ذات برادری سے ہٹ کر ایک قومی جذبے کو بھی ابھارا جاتا کہ آج ہم
پاکستانی روز بروز تقسیم در تقسیم کی لپیٹ میں ہیں۔ دہشت گر دی افرا تفری
نے بڑوں کے ذہن مفلوج کر دیے ہیں مگر اس میں ان بچوں کا کیا قصور ہے ہمیں
سو چنا ہو گا کہ دس، بیس سال بعد ہمارے بچے اپنی بچپن کی خوبصورت یادوں کے
حوالے سے کیا تصور لے کر خواب دیکھا کر یں گے |