غداری کیس:بچاﺅ کی تدبیریں ناکام،مشرف کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری

پاکستان کی تاریخ کے سب سے اہم اور سنگین مقدمے ”غداری کیس“ کے آمر ملزم اور سابق فوجی سربراہ پرویز مشرف کے جمعہ کے روز بھی خصوصی عدالت میں پیش نہ ہونے کے باعث ان کے وکلاءکی طرف سے دائر کردہ متفرق درخواست پر عدالت نے فیصلہ سنا دیا ہے۔سابق آمر کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت میں عدالت نے پرویز مشرف کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ جاری کرتے ہوئے انہیں 31 مارچ کو طلب کیا ہے اور عدالتی کارروائی 20 مارچ تک ملتوی کر دی گئی ہے۔غداری کیس میں خصوصی عدالت نے سابق صدر کو 11 مارچ کو فرد جرم عاید کرنے کے لیے عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا، تاہم پرویز مشرف عدالت میں پیش نہیں ہوئے، جس پر عدالت نے انہیں 14مارچ بروز جمعہ کو طلب کر رکھاتھا۔اسی لیے جمعہ کے روز غداری کیس میں سابق صدر پرویز مشرف کی خصوصی عدالت میں ممکنہ پیشی کے موقع پر آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی راولپنڈی (اے ایف آئی سی) سے نیشنل لائبریری اسلام آباد میں قائم کی جانے والی خصوصی عدالت تک پولیس اور رینجرز اہلکاروں کی بھاری نفری تعینات کی گئی، جب کہ وفاقی پولیس پرویز مشرف کو عدالت میں پیش کرنے کے لیے اے ایف آئی سی بھی پہنچی اوراس موقع پر اے ایف آئی سی سے خصوصی عدالت تک 2 ہزار سے زاید سیکورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا،لیکن جب وہ عدالت حاضر نہ ہوئے، تو عدالت نے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔واضح رہے کہ وفاق کی درخواست پر پرویز مشرف کے خلاف تین نومبر 2007ءکو ملک کا آئین معطل کرنے اور ایمرجنسی نافذ کرنے کے الزام میں آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کے مقدمے کی کارروائی گزشتہ 24 دسمبر سے خصوصی عدالت میں شروع ہوئی تھی۔سابق صدر پرویز مشرف 2 جنوری 2014ءکو اپنی رہائش گاہ سے عدالت جاتے ہوئے راستے میں اچانک راولپنڈی میں امراض قلب کے ایک فوجی ہسپتال میں منتقل ہو گئے تھے اور اب تک وہ وہیں پر رہائش پذیر ہیں، عدالت کے بار بار حاضری کا حکم دینے کے باوجود اب تک ہونے والی 20 سے زاید سماعتوں میں سابق فوجی صدر صرف ایک بار ہی عدالت کے روبرو پیش ہوئے ہیں۔ سابق صدر کو عدالت اب تک آٹھ بار طلب کرچکی ہے اور ان کی عدالت میں بحفاظت حاضری کے لیے قومی خزانے سے گزشتہ آٹھ سماعتوں پر بیس کروڑ روپے خرچ کیے جاچکے ہیں۔

عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ اگر ملزم خود حاضر نہ ہوئے تو انہیں گرفتار کر کے پیش کیا جائے۔ اس عدالتی حکم کا مطلب ملزم کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیے گئے ہیں۔ تاہم گرفتاری کے لیے جاری کیے گئے ان احکامات کا اطلاق 31 مارچ کی صبح سے ہوگا۔ملزم کے وکلاءنے10 مارچ کو جاری کیے گئے وزارت داخلہ کے” الرٹ “ کے حوالے سے ایک نئی متفرق درخواست دائر کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ ملزم کے عدالت تک آنے جانے کے راستوں پر تعینات تقریباً 1600 پولیس اہلکاروں کی سیکورٹی کلیرنس یقینی بنائی جائے، تا کہ پرویز مشرف اپنی ہی حفاظت پر مامور کسی اہلکار کی گولی کا نشانہ نہ بن جائیں۔تمام سیکورٹی اہلکاروں کی فزیکل اسکریننگ ہونی چاہیے اور اس کے لیے 6 سے 8 ہفتے درکار ہیں، 10 مارچ کو سیکورٹی تھریٹ کا خط لکھا گیا، صرف قریبی گارڈز کی تبدیلی کافی نہیں، سنجیدہ سیکورٹی خطرات ہیں، مشرف مجرم نہیں ملزم ہیں، جان کا تحفظ بنیادی حق ہے۔ نیز جب تک پولیس اہلکاروں کی سیکورٹی کلیرنس اور چھان بین مکمل نہیں ہوتی ملزم کو عدالت میں حاضری سے مستثنی قرار دیا جائے، لیکن عدالت نے اس متفرق دخواست کو اسی روز مسترد کر دیا۔ عدالت نے پرویز مشرف کو سیکورٹی اہلکاروں کی چھان بین تک عدالت میں حاضری سے استثنا دینے اور ان کی عدم موجودگی وکیلوں کے سامنے فرد جرم عاید کرنے کے بارے میں سماعت میں وقفے کے بعد دونوں طرف کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

واضح رہے تین رکنی خصوصی عدالت کے سربراہ فیصل عرب جنہوں نے 11 مارچ کے اپنے حکم کو برقرار رکھتے ہوئے 14 مارچ کو ملزم پرویز مشرف کو عدالت میں حاضر ہونے کے لیے کہا تھا۔ انہوں نے وکلاءصفائی کی جمعہ کے روز سامنے آنے والی متفرق درخواست پر پراسکیوٹر اکرم شیخ کے اعتراضات کے تناظر میں وکلاءصفائی کو نصف گھنٹے کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ11 بجے تک کے عدالتی وقفے کے بعد بتائیں کہ پرویز مشرف اگر عدالت میں آنا اپنی حفاظت کے لیے اچھا نہیں سمجھتے تو کیا فرد جرم ان کے وکلاءکی موجودگی میں عاید کر دی جائے؟انور منصور نے کہا کہ معلوم کیا جائے سیکورٹی اہلکاروں کی کن افراد سے دوستی ہے اور وہ کن لوگوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ اس مرحلے میں چھ سے آٹھ ہفتے لگ سکتے ہیں اور تصدیقی عمل مکمل ہونے کے بعد رینجرز اور ٹاسک فورس کے سربراہان عدالت میں بیان جمع کروائیں جس کے بعد پرویز مشرف عدالت میں پیش ہو جائیں گے۔وکیلِ استغاثہ اکرم شیخ نے اس موقع پر کہا کہ پرویز مشرف کی ذاتی سیکورٹی پر تعینات اہلکاروں کا انتخاب خود پرویز مشرف نے کیا ہے، جس میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اس مقدمے میں گزشتہ8 سماعتوں کے دوران ملزم پرویز مشرف کی عدالت میں متوقع پیشی کے حوالے سے کیے جانے والے سیکورٹی اقدامات پر سرکاری خزانے سے20 کروڑ روپے خرچ ہوچکے ہیں۔ سیکورٹی پر اتنے زیادہ اخراجات کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔گویااس حوالے سے یہ پاکستانی تاریخ کا مہنگا ترین مقدمہ بن چکا ہے۔ جمعہ کے روزبھی اس مقدمے کی سماعت کے دوران سابق صدر کی حفاظت کے لیے2500 اہلکاروں کو مختلف روٹس پر تعینات کیا گیا۔اس موقع پر سیکورٹی کے انتظامات سخت کیے گیے۔ اے ایف آئی سی کے راستے میں کنٹینرز لگائے گئے۔

غداری کیس کے ملزم پرویز مشرف کے وکلا نے عدالت کے اٹھائے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا: حاضری کے موقع پر درپیش خطرات سے عدالت کو آگاہ کیا جا چکا ہے، اس بارے میں ایک تحریری درخواست بھی عدالت کو دی گئی ہے، تاکہ پولیس اہلکاروں کی چھان بین کرائی جائے۔ اس لیے ایسا ہونے سے پہلے پرویز مشرف عدالت میں حاضر نہیں ہو سکتے۔ عدالت کے دوسرے سوال کے بارے میں ان وکلاءنے موقف پیش کیا کہ پرویز مشرف کی غیر حاضری میں ان کے وکلا کی موجودگی میں فرد جرم عاید کرنے کی تجویز پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے دی ہے، جبکہ وکلاءصفائی نے پہلے ہی ان کی تقرری چیلنج کر رکھی ہے۔ اس لیے ایسے پراسیکیوٹر کی تجویز سے اتفاق کیسے کیا جا سکتا ہے۔اس پر عدالت کی طرف سے کہا گیا ”پراسیکیوشن میں اکرم شیخ اکیلے نہیں ہیں اور بھی وکیل ہیں۔“ تاہم پرویز مشرف کے وکلاءنے اس تجویز سے اتفاق نہ کیا اور اٹھارہ وکلاءکی پراسیکیوشن کے لیے خدمات کو سرکاری خزانے پر بوجھ قرار دیا۔ عدالتی فیصلہ سنائے جانے کے بعد پرویز مشرف کے وکلاءنے موقف اختیار کیا ہے کہ عدالت کو وارنٹ جاری کرنے کی بجائے پہلے فرد جرم کے بارے میں حکم دینا چاہیے تھا۔ عدالتی کارروائی اس کے ساتھ ہی 20 مارچ تک ملتوی کر دی گئی ہے۔
 
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700794 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.