ایک منظر آپ نے دیکھا ہوگااپنی
ٹی وی سکرینوں پرتھرکے ریگستان میں خشک سالی کے باعث بھوک سے جان توڑتے
بچوں کے حکمرانوں کے طرز حکمرانی کا،جو اُن کی خبر گیری کے لیے گئے تو ضرور
مگر ان کے دکھوں کا مداوا کرنے کے بجائے انواع و اقسام کے کھانے خود ہی کھا
کے واپس لوٹ آئے۔ایک طرف سوشلسٹ پیپلز پارٹی کے راہنما قحط زدہ علاقے کے
دورے کے نام پر دعوت اُڑا رہے تھے تو دوسری طرف تھرکے بھوکے پیاسے بچے
امداد کے انتظارمیں اپنی آخری سانسیں گن رہے تھے۔اب ایک منظرمیںآپ کو
دکھاتا ہوں تاریخ کے اوراق سے، عرب کے ریگستان میں قحط سالی کاشکارہونے
والوں کے حکمران کے انداز حکمرانی کا۔حضر ت عمر فاروقؓ کے دورِ خلافت میں
جزیرۃ العرب میں سخت قحط پڑا ، قحط کے دنوں میں سیدنا عمر فاروقؓ کی خدمت
میں گھی اورروٹی کا چورہ بنا کر لایا گیا، اُنھوں نے ایک بدو کو بھی اپنے
ساتھ کھانے کی دعوت دی۔بدو روٹی کے ساتھ پیالے کے کناروں پر لگی چکنائی
حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگا، آپؓ نے فرمایا لگتا ہے تونے لمبے عرصے سے
چکنائی نہیں دیکھی، اُس نے کہا یا امیرالمومینن میں نے مدت سے گھی اور تیل
نہیں دیکھا،نہ کسی کو گھی اور تیل کھاتے دیکھا ہے۔یہ سن کر سیدنا عمرؓ نے
قسم کھائی کہ جب تک قحط ختم نہیں ہو جائے گا اور سارے لوگ خو شحال نہیں ہو
جائیں گے میں گوشت اور گھی نہیں کھاؤں گا،سارے راوی اِس بات پر متفق ہیں کہ
حضرت عمرؓنے اپنی قسم پوری کی ۔قحط کے دِنوں میں حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے
کہ میں چاہتا ہوں مجھے لوگوں کے حالات کا احساس رہے،اورمجھے لوگوں کے
احساسات کا اُس وقت تک صحیح ادارِک نہیں ہو سکتاجب تک میرے حالات بھی اُنھی
جیسے نہ ہوں۔ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے یہ جملہ اورساری دنیاکے
حکمرانوں کے لیے رہتی دنیاتک ایک سبق ہے اِن الفاظ میں اگر کوئی سیکھے
تو۔قحط کے دِنوں میںآپؓاس قدر متاثر ہوے کہ آپؓکا رنگ بدل گیا،طبقات میں
حضرت عیاض بن خلیفہ سے مروی ہے کہ حضرت عمرؓکا رنگ سیاہ پڑ گیا تھاحالانکہ
وہ عربی النسل تھے،دودھ پیتے اور گھی کھاتے تھے مگر جب لوگ قحط میں مبتلا
ہوے تواُنھوں نے دودھ اور گھی خود پر حرام کر لیا۔لیکن یہاں توچہروں پر
ملال تک نہیں رنگ سیاہ پڑجانا تو دور کی بات ہے،چہروں پر اُسی طرح بشاشت
ہے،وہی ٹھاٹھ ،کر و فر،اور وہی سیاسی بیانات ہیں۔حضرت عمرؓ کے خادم خاص
حضرت اسلم کہتے ہیں کہ اگراللہ مسلمانوں سے اِس آفت کو دور نہ کرتاتو ممکن
تھا کہ عمرفاروقؓ لوگوں کے دکھوں کی تاب نہ لا کر اس جہانِ فانی سے کوچ کر
جاتے۔یہاں تو کسی کو پرواہ ہی نہیں لوگوں کےُ دکھوں کی، حضرت عمرؓ کہا کرتے
تھے کہ اگر فرات کے کنارے کتا بھی پیاسا مر جائے تو پوچھ عمرؓسے ہو گی اور
ہمارے حکمران سو سے زائد بچوں کی موت پرکہتے ہیں کہ تھرکا مسلہ اتنا
بڑانہیں جتنا بڑھا چڑھا کر اِسے پیش کیا گیا ہے(سندھ میں حکمران جماعت پی
پی کی راہنماروبینہ قائم خانی نے ایک ٹی وی چینل پر مباحثے میں یہ بات
کہی)۔جب میں ٹی وی پر سندھ کے وزراء اور مشیروں کو روٹی کے لیے ترستے لوگوں
کے درمیان بیٹھ کر تکے،مچھلی اور مرغ مسلم کے مزے اُڑاتے دیکھ رہا تھا تو
میں حضرت عمرؓ کے اُن الفاظ کے بارے میں سوچ رہا تھا جو آپؓ نے قحط کے
دِنوں میں اُس وقت ارشاد فرمائے تھے جب آپؓ کے سامنے کھانے کے لیے گوشت
لایا گیا تھا۔ آپؓ نے فرمایا\" تعجب ہے اگر میں خود عمدہ چیزیں کھاؤں اور
لوگ نکمی چیزیں اور ہڈیاں کھائیں، پھر مجھ سے بُرا حکمران کون ہو گا؟؟ \"پھر
فرمایا \"یہ اُٹھا لو ، میرے لیے دوسرا کھانا لاؤ\"۔ اُن کی خدمت میں روٹی
اور تیل پیش کیا گیا،اُنھوں نے روٹی کا ٹکڑا اُٹھایا اور اُسے تیل میں
ڈبویا ہی تھاکہ فوراًرُک گئے اور کہنے لگے \"یہ برتن اُٹھاؤ اور اہلِ یثمغ
کو دے آؤ ،میں تین دِن سے اُن کے پاس نہیں جا سکا ، میرے خیال میں اُن کے
پاس کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں ہے، یہ کھانا اُن کے دسترخوان پر پہنچا دو\"۔اہل
یثمغ کا حکمران اپنے آگے کا کھانا اُٹھا کے اُن کے لیے بھیج رہا ہے اور
اہِل پاکستان کے حکمران اُن کے مُنہ سے نوالہ چھیننے کے در پے رہتے ہیں ۔قحط
کے دِنوں میں ہی ایک دِن اپنے کسی بچے کے ہاتھ میں تربوز کا ٹکڑا دیکھ لیا
تو فرمایا \"تجھ پر تعجب ہے اے امیرالمومینن کے بیٹے ! تو پھل کھا رہا ہے
اور محمدﷺ کی امت تنگی کا شکار ہے\"۔ذرا سوچیئے بایئس لاکھ مربع میل پر
حکومت کرنے والے حکمران کے بیٹے کو قحط کے دنوں میں تربوز کھانے بھی اجازت
نہیں جبکہ ہمارے شہزادوں کاحال یہ ہے کہ جب بچے بھوک سے مررہے تھے توایک
سندھ فسٹیول کے نام پر ناچ گانے میں مصروف تھا اور دوسرا پنجاب یوتھ فسٹیول
کے نام پراچھل کودمیں۔کتنا فرق ہے آج کے اور چودہ سوسال پہلے کے ان
مناظرمیں،ایسا حکمران جس کے نام سے روم وفارس کی سلطتنتیں کانپتیں تھیں ایک
ایسے دورمیں جس میں نہ عوام کے احتجاج کاڈرتھانہ مخالفین کی تنقید کاکوئی
غم،میڈیا تھانہ سول سوسائٹی نام کی کوئی چیز،پھربھی وہ دن رات لوگوں کی
فلاح کے لیے مصروف رہتا تھا،لوگ بھوکے ہیں تووہ بھی بھوکاہے،لوگ جاگ رہے
ہیں تووہ بھی جاگ رہاہے،اورآج کے حکمران کیسے ہیں ؟وہ آپ خود دیکھ رہے ہیں
کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔یہ فرق اس لیے ہے کہ سیدناعمرؓکے دل میں خوف خدااور
آخرت میں رب کے حضور جواب دہی کا احساس تھا،وہ سچے مسلمان تھے وہ جانتے تھے
کے نبی ﷺکے قول کے عین مطابق اُن سے رعیت کے بارے میں پوچھ ہو گی۔اور یہی
اصل اسلامی نظام حکومت ہے جس میں حکمران عوام کی مشکلات پرتڑپ اٹھتاہے۔مجھے
تعجب ہوتا ہے اُن مسلمانوں پرجواتنے خوبصورت نظام کے ہوتے ہوئے
سوشلزم،کمیونزم اور سیکولرزم کی بات کرتے ہیں،اوراُن پربھی تعجب ہوتاہے جو
صرف اسلامی سزاؤں کے نفاذ اورایک مخصوص وضع قطع بنوانے کو اسلامی نظام
حکومت سمجھتے ہیں۔مجھے علم ہے کہ حضرت عمرؓجیسابننا آج کے دور میں ناممکن
ہے لیکن اتناتو آج کے حکمران کرسکتے ہیں کے اپنی عیاشیوں کے ساتھ ساتھ غریب
کے لیے روٹی کا بندوبست بھی کردیں۔ |