17 ہجری میں نئی اسلامی سلطنت کو
بڑی قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑا،9 ماہ جاری رہنے والا قحط ،جس نے تمام
عرب کو اپنے گھیرے میں لے لیا،اس عرصے میں بارش کا ایک قطرہ بھی نہ
ٹپکا،جبکہ پہلے سے موجود کھیتی بھی سڑ کر راکھ میں تبدیل ہو گئی،اکثر بھڑ
بکریاں ہلاک ہو گئی،جو جانور بچ گئے ان کا گوشت سوکھ چکا تھا،جو کھانے کے
قابل نہ رہا،نوبت یہاں تک آ گئی تھی کہ لوگ چوہوں کی بل کھود کر ان کی جمع
شدہ خوراک حاصل کر لیتے،اس زمانہ قحط میں امیرالمومینین حضرت عمر بن خطاب
رض کا طرز عمل مثالی اور قابل تقلید تھا،،اور ہمارے آج کے حکمرانوں کے لیے
باعث ندامت بھی،ایک بار قحط کے دوران امیر المومینین کو گھی سے چپڑی روٹی
دی گئی،آپ نے ایک بدو کو ساتھ شامل کر لیا،بدو لقمے کے ساتھ چکنائی بھی
کھینچ کر اپنی طرف کر لیتا،عمر رضی اللہ کے پوچھنے پر اس نے بتایا،کی جب سے
قحط ہوا ہے،میں نے گھی اور زیتون نہ خود کھایا ہے نہ کسی کو کھاتے دیکھا
ہے،اسی وقت عمر رضی اللہ نے قسم کھائی جب تک قحط ختم نہیں ہوتا،گوشت کھاؤں
گا نہ گھی چکھوں گا، یہ تو تھیں تاریخ سے کھینچی ہوئی کچھ سطریں،اور اب وہ
تحریریں جو کچھ دن پہلے اخبارات کی زینت بنی اور آنے والے ادوار میں تاریخ
کا حصہ ہو گئ،آنے والی ہماری نسلیں جنہیں پڑہنے کے بعد ضرور اپنا سر ندامت
سے جھکا لیں گی،اخبارات کی زینت بننے والی سطریں کچھ یوں تھیں،تھر کے علاقے
میں قحط سے کئی معصوم بچے ہلاک،،، قحط زدہ علاقہ مٹھی میں وزیراعلٰی سندھ
قائم علی شاہ کا دورہ ،،،دورہ کے دوران فنگر فش،کورما روسٹ ،تکہ۔اور بریانی
سے وزیر اعلٰی کی خوب تواضع ،واہ سبحان اللہ،کیا کہنے ہمارے حکمرانوں کے ،رعایا
بھوک سے نڈھال،بادشاہوں کی مرغن غزاٰوں سے تواضع،تمہارے کتے دودھ پیئں اور
ہمارے بچے بھوک ،پیاس سے بلکتے رہیں تڑپتے رہیں،ہمارے ووٹوں سے کامیاب ہو
کر اپنا سر اونچا کرنے والے آج کتنے گھمنڈو اور بے حس ہو گئے ھیں،گوداموں
میں پڑی گندم خراب ہو گئی ،اور ہمارے بچوں کو دو وقت کی روٹی نہ مل سکی،،،
میرا مالک آج بہت خوش ہے
روز کی طرح آج بھی
اس کا منافع خوب رہا
آج تو خوب سے خوب تر
اسی خوشی میں دیکھو
کیسے آرام سے نرم نرم بستر پر
کیسے سکون سے سو رہا ہے
مگرپھر بھی ،،
نجانے کیوں،،
بھوک سے نڈھال ہو کر
میرا لال رو رہا ہے |