تھر میں قحط کی وجہ سے انسانی اموات کا سلسلہ تھم نہ
سکا،بھوک اور بیماری کے باعث مزید کئی بچے دم توڑ گئے۔ قحط کی بھینٹ چڑھنے
والے بچوں کی تعداد دوسو سے تجاوز کرچکی ہے۔کئی روزقبل تھرپارکر میں امدادی
سرگرمیاں شروع کرنے کا سلسلہ شروع تو کیا گیا تھا، لیکن ابھی تک بہت سے
علاقوں میں کسی قسم کی امداد نہیں پہنچ سکی۔تھرپارکر میں امدادی کارروائیاں
انتہائی سست روی کا شکار ہیں۔ تحصیل ڈپلو، مٹھی ، اسلام کوٹ ، ڈاھلی اور
نگر پارکر کے دور دراز علاقوں میں لوگ ابھی تک امداد کے منتظر ہیں۔ متاثرین
نے امداد نہ ملنے پر شدید احتجاج بھی کیا ہے۔مقامی افراد کا کہنا ہے کہ
سرکاری راشن اور گندم مقامی وڈیرے اپنے ہی لوگوں میں بانٹ رہے ہیں۔ ان تک
نہ کوئی حکومتی کارندہ پہنچا ہے اور نہ ہی کسی ادارے یا تنظیم کی طرف سے
امداد فراہم کی گئی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے صحرائے
تھر میں قحط سالی کا شکار لوگوں کی امداد کے لیے بلند و بانگ دعوے کیے
جارہے ہیں، لیکن صورت حال یہ ہے کہ ضلع بھر کے سرکاری گوداموں میں گندم کا
ایک دانہ بھی نہیں، جس کی وجہ سے سرکاری امداد کی ترسیل ایک مرتبہ پھر رک
گئی ہے اور لاکھوں افراد کا دارومدار نجی اداروں پر رہ گیا ہے۔ بھوک، پیاس
اور افلاس کا شکار لوگ ہر پل جی اور مر رہے ہیں، لیکن حکمران ہیں جو میں نہ
مانوں کی رٹ لگاکر میڈیا کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔تھر کے اکثر دیہات
میں لوگ اب تک امداد کے منتظر ہیں، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر مٹھی سمیت تھر پارکر
کے مختلف شہروں اسلام کوٹ، چھاچھرو، نگر پارکر اور ڈیپلو میں واقع سرکاری
گوداموں میں گندم کا ایک دانہ بھی نہیں۔ اس صورتحال میں قحط متاثرین کو
سندھ حکومت کی طرف سے گندم کی فراہمی بند ہو گئی ہے اور کم و بیش ایک لاکھ
خاندانوں تک اب بھی امداد نہیں پہنچی۔ تھر کے ایک دور دراز گاوں روہی راڑو
کے بعض لوگوں کے مطابق ان کے علاقے میں کوئی امدادی کاروائی نہیں کی جارہی۔
شہر کے لوگ اور حکومت ان کے حال سے بے خبر ہیں، کیونکہ جس پر پڑتی ہے وہی
جانتا ہے۔ جس سال بارشیں ہوتی ہیں، ا ±سی سال میٹھا پانی دستیاب ہوتا ہے،
ورنہ کنویں کا کڑوا اور ناقابلِ استعمال پانی پینا پڑتا ہے۔ ساتھ ہی، غذا،
پانی اور دوا کی عدم موجودگی کے باعث حاملہ مائیں بیمار ہوجاتی ہیں اور ان
کے بچے بیمار پیدا ہوتے ہیں، مویشی مرجاتے ہیں، بچوں کو نہ ماں کا دودھ
ملتا ہے اور نہ مویشیوں کا اور یوں ان علاقوں میں بس بے بسی اور موت ہی نظر
آتی ہے ۔اگر دل پر پتھر رکھ کر یہ مان بھی لیں کہ مرنے والے مرگئے تو کم از
کم ان کی موت کی وجہ معلوم کرکے جو زندہ ہیں، ان کو تو بچایا جا سکتا ہے۔
سول ہسپتال مٹھی میں گنجائش سے زیادہ مریض آجانے کی وجہ سے چارپائی رکھنے
کی جگہ بھی نہیں رہی،ایک بیڈ پر دو دو بچوں کو لٹاکر طبی امداددی جا رہی
ہے۔متاثرہ افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے، جبکہ علاقے میں طبی مراکز اور عملہ
بہت کم ہے۔ صحت کے عالمی ادارے ڈبلیو ایچ او کے مطابق تھر میں حالیہ اموات
میں اضافے کا تعلق عوام کا صحت کی سہولتوں تک عدم رسائی سے ہے۔ تھر میں
قریبی صحت مرکز تک پہنچنے کے لیے ایک ہزار سے چار ہزار رپے درکار ہوتے ہیں
اور یہ سفر دو سے چار گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔سرکاری اعدادو شمار کے مطابق
تھر میں ایک ضلعی ہسپتال، تین تحصیل ہسپتال، دو دیہی صحت مرکز، 34 بنیادی
صحت مرکز، دو ماں اور بچہ صحت مرکز اور 82 ڈسپینسریاں موجود ہیں، جن میں 29
اسپیشلسٹ، 165 ڈاکٹروں، 27 لیڈی ڈاکٹروں کی آسامیاں خالی ہیں۔ اسی طرح تین
نرسنگ اسٹاف، 50 لیڈی ہیلتھ وزیٹرز اور 26 پیرامیڈیکل اسٹاف کی آسامیاں
خالی ہیں۔ پندرہ لاکھ کی آبادی میں کوئی بھی ایسا انتظام نہیں جس کے تحت
بلڈ بینک میں ایمرجنسی کے لیے خون دستیاب ہو۔ مٹھی ضلعی ہسپتال میں بھی
مریض اپنے ساتھ ڈونر لاتے ہیں اور صرف خون کی منتقلی کی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ ضلع تھرپارکر میں قحط سالی کی وجہ سے سینکڑوں جانوں کے ضیاع پر
صوبائی حکومت کی جانب سے مجرمانہ غفلت کا اعتراف کرنے پر عوامی سطح اور
میڈیا پر صوبائی انتظامیہ کوشدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے،کیونکہ
تھرپارکر کے موجودہ حالات کے حوالے سے زیرِ بحث آنے والا ایک اہم عنصر
حکومت کی جانب سے گندم کی تقسیم میں ’غفلت‘ تھا ۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق
گندم سرکاری گوداموں میں پڑی رہی اور عوام کو بروقت مسیر نہ آ سکی تھی، اس
لیے تھرپارکر میں اتنازیادہ جانی نقصان ہوا ہے،لیکن سندھ کے وزیر اعلیٰ
قائم علی شاہ نے تمام میڈیا رپورٹس مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ تھر
میں قحط سے نہیں بلکہ ٹھنڈ پڑنے سے بچوں کی اموات ہوئی ہیں، جن کی تعداد
صرف 55 ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ بارشیں نہ ہونے کے باعث ہر سال
تھر میں قحط آتا ہے، اس سال بھی بارشیں نہیں ہوئیں، جبکہ سردی بھی تاخیر سے
ہوئی، جس سے حاملہ خواتین و بچوں میں نمونیا اور ڈائریا کی بیماریاں
پھیلیں۔ تھر میں بھیڑوں کے علاوہ کوئی اور جانور نہیں مرا ۔ سندھ حکومت نے
دعویٰ کیاتھا کہ انہوں نے ایک لاکھ خاندانوں میں گندم کی تقسیم کردی
ہے،جبکہ سابق وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم نے کہا ہے کہسندھ حکومت کا
ایک لاکھ خاندانوں کو گندم تقسیم کرنے کا دعویٰ جھوٹا ہے۔ امدادی گندم کی
تقسیم سیاسی بنیادوں پر ہو رہی ہے۔ پی پی کے جیالے متاثرین کا امدادی سامان
فروخت کر رہے ہیں۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ
اتھارٹی کے مطابق تھر میں خشک سالی سے11 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں، جبکہ
ڈیڑھ لاکھ سے زاید لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں۔ سندھ حکومت نے حالیہ بحران کے
پیشِ نظر علاقے میں گندم کی ایک لاکھ 20 ہزار بوریاں تقسیم کرنے کا اعلان
کیا تھا۔ابھی تک اس سے آدھی بوریاں بھی تقسیم نہیں کی جاسکیں۔سندھ حکومت نے
1998 ءکی مردم شماری کی بجائے موجودہ آبادی کے تحت گندم کی تقسیم کا فیصلہ
کیا ہے، جس کے تحت تھر میں 2 لاکھ 59 ہزار خاندان رجسٹرڈ ہیں اور ہر گھرانہ
10 سے 15 افراد اور بچوں پر مشتمل ہے۔ حکومت فی خاندان 50 کلو گرام گندم
فراہم کر رہی ہے، جو حکام کے خیال میں ایک ماہ کے لیے کافی ہے۔ غیر سرکاری
تنظیموں کا کہنا ہے کہ سیلاب اور زلزلے میں جس طرح لوگوں کو حکومت آٹا،
دال، چاول، گھی فراہم کرتی ہے یہاں بھی ایسے ہی پیکیج کی ضرورت ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ اربابِ اختیار کو تھر کی یاد تب ہی آئی
جب وہاں بے شمار مور، مویشی اور انسان بھوک، پیاس اور بیماری کی وجہ سے
تکالیف جھیل رہے ہیں۔ کیا تھر صحرائی علاقہ نہیں ہے؟ کیا کم بارشیں ہونے کی
صورت میں وہاں خشک سالی کا خدشہ نہیں رہتا؟ کیا قحط کی وجہ سے اموات واقع
نہیں ہوتیں؟ اور اگر یہ سب کچھ سچ ہے تو پھر پہلے سے ہی احتیاطی تدابیر
کیوں نہیں کی جاتیں؟ خوراک کی قلت تو تھر میں ہر سال ہی ہوتی ہے، ، کبھی
کبھار یہ صورتحال بہت ہی زیادہ سنگین ہوجاتی ہے اور اسی وجہ سے کم بارشیں
ہونے کی صورت میں کئی مرتبہ تھر کو پہلے ہی قحط زدہ قرار دے دیا جاتا ہے۔
من حیث القوم ہمارا رویہ یہ ہو چکا ہے کہ جب کوئی حادثہ ہوجاتا ہے تو ہم اس
کے بعد سوچتے ہیں، لیکن کسی قدرتی آفت سے نبردآزما ہونے کی بروقت کوئی
تدبیر کرنا ہمیشہ ہماری دسترس سے باہر معلوم ہوتی ہے۔ تھر میں بچوں کی
اموات کی خبریں روز میڈیا پر آتی رہی ہیں، ہرطرف سے یہ خبریں آرہی تھیں کہ
امدادی قافلے تھر کے علاقے مٹھی کے لیے روانہ پہنچ چکے ہیں۔ اس کے باوجود
تھرپارکر کے بہت سے علاقوں میں امدادی سرگرمیاں جاری نہیں ہوئی ہیں، امدادی
کارروائیوں کا مرکز مٹھی کا بنا ہوا ہے، تھر تو بہت وسیع علاقہ ہے جس کے
دوردراز علاقوں میں کوئی امدادی کاروائی نظر نہیں آتی اور اسی وجہ سے قحط
سے متاثرہ لوگ میرپورخاص، سانگڑ، بدین اور دوسرے علاقوں میں نقل مقانی کرنے
پر مجبور ہیں،لیکن بدقسمتی سے اب تو خیرپور اور ضلع سانگڑ میں بھی قحظ کے
خطرات پیدا ہوچکے ہیں۔ صوبہ سندھ کی حکومت نے ضلع خیرپور کے 14 دیہاتوں اور
ضلع سانگڑھ کے سات دیہاتوں کو قحط سالی جیسی صورتحال کے پیشِ نظر آفت زدہ
علاقہ قرار دے دیا ہے۔پاکستانی سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق صوبائی
حکومت نے ان علاقوں کی ضلعی انتظامیہ کو امدادی کارروائیاں شروع کر کے
لوگوں تک اشیائے خوردونوش اور طبی سہولیات پہنچانے کا حکم جاری کیا ہے،لیکن
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہاں بھی اسی طرح امدادی سرگرمیاں کی جاتی ہیں جس
طرح تھر میں کی گئیں، تھر میں تو پانچ ماہ پہلے علاقے کو آفت زدہ قراردیا
گیا تھا، لیکن پانچ ماہ کے بعد امدادی سرگرمیاں شروع کی گئیں، وہ بھی محدود
علاقوں تک۔جس کی ساری ذمہ داری سندھ حکومت پر عاید ہوتی ہے۔ |