مسعود عالم ندوی
(استاذمدرسہ سیدنابلال ،لکھنؤ)
ترکی یورپ اور ایشیاء کے درمیان پل کی حیثیت رکھنے والا ایک عظیم ملک
ہے،جہاں پچھلے گیارہ برسوں سے اسلام پسند انصاف اور ترقی پارٹی کی حکومت
قائم ہے، وزیر اعظم رجب طیب اردو غان اور صدر عبداﷲ گل کی قیادت میں اس نے
اپنا کھویاہوا وقار بحال کرنا شروع کیا اور وہ مسلسل اس راستے پر گامزن
ہے،اس وقت پوری مشرقی اور مغربی دنیا ترکی کو ترقی کے رول ماڈل کے طور پر
دیکھ رہی ہے،ساتھ ہی داخلی اورخارجی سطح پر اس حکومت کو اکھاڑپھینکنے اور
وزیر اعظم رجب طیب اردوغان اور تمام اسلام پسند وزراء و افسران کے ساتھ
ڈاکٹر محمد مرسی اور ان کے ہمنواؤں جیسے سلوک کئے جانے کے لئے مستقل ریشہ
دوانیاں بھی کی جارہی ہیں،پچھلے چار مہینوں کے اندر انصاف اور ترقی پارٹی
اور امریکہ میں مقیم معروف یرکی اسکالر فتح اﷲ گولن اور ان سے وابستہ افراد
اور اداروں کے درمیان کشمکش کی خبریں موصول ہوئی ہیں، کوتش گرو پ اورعوامی
ریپبلکن پارٹی کی حکومت مخالف سرگرمیاں سامنے آئی ہیں، امریکہ میں مقیم
حکومت مخالف رجحان رکھنے والے ترک شہریوں اور ساز باز کرنے والوں کے سلسلہ
میں بھی انکشافات ہوئے ہیں ،ذیل میں اس کا ایک جائزہ پیش کیا جارہا ہے :
ترکی کے اندر حالیہ دنوں میں جو کچھ ہوا اور ہورہا ہے اور جسنے اردو غان
حکومت اور گولن کے درمیان کشمکش اور محاذ آرائی کا نام دیا جارہا ہے،اس کا
انجام کیا ہوگا ؟ نتیجہ کس کے حق میں رہے گا ؟ کس کا پلڑا بھاری ہوگا ؟ اس
سلسلہ میں کچھ بھی غیر متوقع نہیں ہے، اردو غان کا وہ خطاب جس میں انہوں نے
بڑی قوت کے ساتھ کہا ہے کہ ’’ ہماری آزادی اور خود مختاری پر جو قدغن لگانے
کی کوشش کرے گا ،ہم اس کا پنجہ توڑدیں گے‘‘،یہ سوال بھی بار بار پیدا ہورہا
ہے کہ آخر ایک اسلامی جماعت اوراسلامی تحریک کیوں اسلام پسند حکومت سے
متصادم ہورہی ہے،اس سلسلہ میں تجزیہ نگار وں کا کہنا ہے کہ اس اسلامی جماعت
نے حکومت سے کشمکش کا رویہ اختیار نہیں کیا ہے بلکہ اس نے اس ایسے لوگوں سے
تعلقات بڑھالیے ہیں جنہوں نے حکومت کے خلاف اقدامات کا پختہ ارادہ کرلیا
ہے،اور انہیں لوگوں نے اس تحریک کو بالکل فرنٹ میں کردیا ہے،کیونکہ داخلی
اور خارجی سطح پر کچھ ایسے عناصر ہیں جو ترکی کی موجود ہ ترقی اور اس کے
قائدانہ اور جرأتمندانہ کردار سے خائف ہیں اور کس بھی حال میں اسے موجود
راستہ پر گامزن رہنے دینا نہیں چاہتے ہیں،خود وزیر اعظم رجب طیب اردوغان نے
بھی اپنے حالیہ خطاب میں اس کا اشارہ دیا ہے ۔
اس اسلامی جماعت کا یہ کردار کوئی نیا نہیں ہے،بلکہ اس نے ہمیشہ ہی نام
نہاد انقلابیوں کا ساتھ دیاہے، اسی درمیان جب کہ فتح اﷲ گولن آج اپنے
حامیوں سے پرزور اپیل کررہے ہیں کہ وہ جماعت کے تعلیمی مراکز پر تالالگانے
سے روکنے کے لئے پوری طاقت جھونک دیں،اس سے پہلے وہ انقلابیوں کے سامنے یہ
پیشکش رکھ چکے ہیں کہ وہ اپنے تمام تعلیمی مراکزملک کے حوالہ کردیں گے،لیکن
آج انہوں نے اپنا ہاتھ ان لوگوں کے ہاتھوں میں ڈال دیا ہے جنہوں نے مسلم
خواتین کو حجاب سے روکا اور اسلام سے جنگ کی،یہ جماعت جس طرح ماضی میں
انقلابیوں کی مدد کرچکی ہے ، آج بھی وہ انقلابیوں کا ساتھ دے سکتی ہے،اور
ایک ایسی جنگ کی قیادت کے لئے آگے آسکتی ہے جس سے کسی کا بھلا نہیں ہوگا ۔
کوتش گروپ:
’انصاف اور ترقی پارٹی‘کی حکومت اور اردوغان کے وزیر اعظم بننے سے پہلے کئی
دہائیوں تک ،ذرائع ابلاغ ،سیاست اور مالیات کی دنیا میں تین لوگوں کاسکہ
چلتا تھا ،ان میں پہلا شخص جیم اوزان ہے جو اس وقت فرانس میں مقیم ہے،اور
مختلف جرائم میں ۲۳سال قید کی غائبانہ سزاکاٹ رہا ہے ، دوسرا شخص آیدین
دوغان ہے جو ترکی ذرائع ابلاغ میں شہنشاہ کی حیثیت رکھتا تھا ،متعدد سنگین
جرائم کے پاداش اور حکومت کے خلاف انقلاب اور بغاوت کی دعوت کی وجہ سے عتاب
جھیلتے جھیلتے اس وقت بہت کمزور ہوگیا ہے،اور اس نے اپنے بہت سے اداروں کو
فروخت بھی کردیا ہے،اب رہ گئی بات تیسرے نام کی تو وہ کوتش فیملی، اور اس
کے سربراہ مصطفی کوتش ہیں،جنہوں نے اردو غان حکومت کے خلاف اس وقت کھلی
محاذ آرائی شروع کی، جب حکومت کے قریبی ذرائع نے ان پر یہ الزام عائد کیا
کہ وہ کوتش گروپ کی یونیورسٹی سے حکومت مخالف رجحان کو بڑھاوا دے رہے ہیں
،مخالفین کو مال اور فکری توانائی فراہم رہے ہیں،گزشتہ برس پیش آنے
والے’’جیزی پارک‘‘ واقعہ کو ہوا دینے میں اس کا بڑا حصہ ہے، حکومت کے قریبی
ذرائع نے یہ بھی کہاہے کہ اس یونیورسٹی کے سربراہ نے تمام طلبہ کے نام ایک
خط روانہ کیا جس میں لکھا تھا کہ امتحانات سے غیر حاضر رہنے والے طلبہ کو
دوبارہ امتحان دینے کا موقع دیا جائے گا،اس خط پر وزیر اعظم اردوغان نے
ازخود ریمارک بھی دیا تھا ۔
تین مہینے قبل مصطفی کوتش نے ایک خصوصی میٹنگ بلائی تھی،جس کے نامور شرکاء
میں فوجی عہدمیں سات مرتبہ وزیر اعظم کے عہدہ پر فائزرہ چکے سابق صدر
سلیمان دیمرال، کوتش گروپ کے سابق چیرمین مصطفی کوتش کے والد’ رحمی کوتش‘
اور’آیدین دوغان‘کے معاون خصوصی تایلاں، بیلغان شریک تھے ،اس نشست پر نگاہ
رکھنے والے تمام مبصرین کااس پراتفاق ہے کہ آنے والے مرحلہ کے لئے مرکزی
شخصیت کی حیثیت سے’ ساری گل‘ کا انتخاب ہوا ،جو عوامی ریپبلکن پارٹی کی طرف
سے پہلے تو استنبول کے میئر ہوں گے اور پھر ترکی کے وزیر اعظم ۔
پبلک ڈیموکر ٹیک پارٹی
ترکی میں قصر حکومت کا راستہ استنبول کے میئر کی گلی سے ہوکر گذرتا ہے،
یعنی ترکی میں وزیر اعظم بننے سے قبل استنبول کا میئر بننا پڑتا ہے ،اسی
معروف سیاسی مقولہ کے تناظر میں حسب تو قع’رپبلک ڈیموکر ٹیک پارٹی‘ نے
اعلان کیاہے کہ 30مارچ 2014میں ہونے والے بلدیانی انتخابات میں ’مصطفی ساری
گل‘استنبول سے پارٹی کے میئر عہدہ کے امیدوار ہوں گے ۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ عوامی ریپبلکن پارٹی اسلامی جماعت اور تحریکوں کو
ترکی کے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھتی رہی ہے،لیکن حال ہی میں اس کے ایک
نمائندہ وفد نے امریکہ کا خصوصی دورہ کیا ،جہاں ان کی ملاقات فتح اﷲ گولن
تحریک کی مقتدر شخصیات سے ہوئی ،اس کے بعد سے یہ پارٹی اس جماعت کے لئے
محبت کا اظہار کررہی ہے اور پارٹی کی دوسری سب سے بڑی ابھرتی ہوتی شخصیت
’ساری گل‘ اس اسلامی جماعت کے اقدامات کی حمایت کررہے ہیں، اس کے ماتحت
تعلیمی اور ثقافتی اداروں کو مذہب اور اخلاق و اقدار کی حفاظت کے لئے اہم
اور ضروری قرار دے رہے ہیں ۔
آئندہ ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں پارٹی امیداوار منتخب ہونے سے چند
گھنٹے قبل ،میڈیا سے وابستہ ترکی کی معروف شخصیت’سیفلای پوکسالیر‘نے کہا کہ
’’ مصطفی ساری گل نے بذات خود مجھے بتایا ہے کہ انہوں نے فتح اﷲ گولن کی
جماعت کے ساتھ معاہدہ کیا ہے اس لئے جماعت ان کی مدد کررہی ہے اور ہونے
والے انتخابات میں آئندہ بھی مددکرتی رہے گی، مزید انہوں نے یہ بھی کہا کہ
’’ اگر میں غلط کہہ رہی ہوں تو انہیں نکل کرتردید کرنی چاہئے ،وہ حقیقت کے
اظہار سے کیوں شرمارہے ہیں ؟ ‘‘انہوں نے زور دے کر یہ بھی کہا کہ ’’ ساری
گل ایک منصوبہ بنارہے ہیں اور اس منصوبہ کے پس پردہ کوتش گروپ،فتح اﷲ گولن
کی جماعت اور مختلف امریکی لابیاں کام کررہی ہیں ۔‘‘
امریکی مفادات کے نئے محافظ
عوامی ریپبلکن پارٹی کے نو منتخب صدر ’کمال کیلیتشار اوغلو ‘نے پارٹی کے
منصب صدرات پر فائز ہونے کے بعد امریکہ کے اولین دورہ میں واشنگٹن کے اندر
پارٹی دفتر کے افتتاح کے موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہــ’’مستقبل قریب میں
ہی ہم امریکہ کے لئے بہت کچھ لائیں گے‘‘کمال کیلیتشار اوغلو کے اسی بیان کی
وجہ سے متعدد عالمی سطح کے تجزیہ نگاروں نے لکھا ہے کہ امریکہ اردو غان
حکومت کے خاتمہ کی پلاننگ کررہاہے،پوری مغربی دنیااوربطور خاص امریکہ، ترکی
کے موجودہ کردار اور خطہ میں اس کے بڑھتے ہوئے اثرات سے خائف ہے،انہیں ڈرہے
کہ کہیں استنبول بھی اپنے سیاسی وزن اور معاشی ترقی کی وجہ سے لندن اور
نیویارک جیسے شہروں کے مقابلہ میں نہ آجائے،اور اپنے جائے وقوع اور بے مثال
تہذیبی اور ثقافتی سرمایہ کی وجہ سے ان سے کہیں سبقت نہ لے جائے ۔
امریکی مفادات کے نئے محافظ ہی رواں صدی میں امریکی منصوبہ بندی کے پرچم
بردار ہیں،ان میں ایک طبقہ تو مذہب بیزار،اور لبرل ہے اور دوسرا طبقہ متحفظ
اور مذہبی رجحان رکھنے والا ہے،لیکن امریکی خاکہ میں رنگ بھرنے کے لئے یہ
طبقہ بھی لبرلزم کی روح کے ساتھ ہی کام کرتاہے، اس لبرل اور ریزرو طبقہ کے
باہمی تعاون،عملی اشتراک اور کنٹرول کا ہر جگہ اچھی طرح مشاہدہ کیا جاسکتا
ہے ،عالمی ذرائع ابلاغ پر بھی، ہائی پروفائل معاشی اداروں اور لابیوں میں
بھی اور امریکہ کے اندر باہر اہم ترین سیاسی اور انتظامی فیصلوں پر بھی
،متعدد چوٹی کے تجزیہ نگارجن میں ترکی کی نامور صحافی’ سیفلای یوکسالیر‘بھی
ہیں،لکھتے ہیں کہ عوامی ریپبلکن پارٹی اور فتح اﷲ گولن کی جماعت کے ساتھ
امریکی مفادات کے ان نئے محافظوں کے معاہدہ کا بنیادی طور پر ایک ہی مقصد
ہے اور وہ ہے وزیر اعظم اردوغان اورترکی خبررساں ایجنسی کے سربراہ ’ہاکان
فیدان‘ کو کسی بھی طرح اقتدار سے بے دخل کرنا،کیوں کہ ان دنوں ترک رہنماؤں
نے موجودہ عالمی طاقتوں کے ساتھ بہت ہی مضبوط اور غیر جانبدارانہ موقف کا
اظہار کیا ہے ،جسے’ان عناد‘سے بھی تعبیر کیا جارہا ہے،اردوغان کے ان مواقف
کا اظہار خطے کے مسائل میں ان کی بیباکانہ رائے اور اقدامات سے ہوا ہے،تو
وہیں ہاکان فیدان نے ترک خبررساں ایجنسی کو اسرائیلی خبررساں ایجنسی موساد
کے چنگل سے آزاد کرایا ہے ۔
حالیہ برسوں میں امریکی ذرائع ابلاغ اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اس کے
ایجینٹوں نے انتہائی منظم طریقہ سے بڑی قوت اور شدومد کے ساتھ اپنے ناپاک
عزائم کی تکمیل کے لئے بہت سے حربے اپنائے ہیں،جمہوری نظام کے مطابق اکثریت
سے منتخب وزیر اعظم کو’’سلطان ‘‘اورخلافت اسلامیہ کی تجدید کا خواب دیکھنے
والا قراردینا،سال گزشتہ تقسیم والے واقعہ کو زبردست میڈیا کو ریج دینااور
برابر حکومت مخالف ٹیبل اسٹوری کونیوز کے طور پر شائع کرنا اور معمولی
خبروں کو غیر معمولی اہمیت کے ساتھ نشر کرنا سب انہیں عزائم کاحصہ ہیں ۔
مالی بدعنوانی کے پس پردہ
حالیہ مالی بدعنوانی کی آڑ میں جہاں عوامی ریپبلکن پارٹی نے اور فتح اﷲ
گولن کی جماعت نے معنوی اور نظریاتی فائدہ اٹھایا، وہیں امریکہ بہادر نے
معروف ایرانی نژاد ترکی تاجر رضا زراب کی تذلیل اور سرزنش کااپنا اہم ترین
مقصد بھی حاصل کرلیا،رضاز راب ترکی اور ایرانی حکومت کے درمیان تجارتی
رابطہ کی اہم کڑی کی حیثیت رکھتے تھے،چونکہ ایران پر معاشی پابندیاں عائد
ہیں اور ترکی حکومت کو بھی گزشتہ کئی سالوں سے ایران سے درآمد شدہ پٹرول کی
قیمت ترکی میں قائم ایرانی بینک اکاونٹوں میں ہی جمع کردی جاتی تھی تاکہ
ایران بعد میں انہیں کے بدلہ رضاز راب اور دیگر قریبی تاجروں کے ذریعہ سے
ترکی سے سونا خرید سکے ، رضاز راب نے رہائی کے بعد فوراً میڈیا سے بات چیت
کے دوران اپنے اوپر لگے ہوئے تمام الزامات کو مسترد کردیا اور کہاکہ ’’ میں
قانونی طور پر روزانہ ایک ٹن سونا درآمد اور برآمد کرتا ہوں،اور ترکی میں
سونے کی تجارت پر کوئی ٹیکس ہی نہیں ہے تو پھر میں کیوں کسی کو رشوت دوں
؟‘‘ انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ ایک مرتبہ زرفروش کے کا غذات میں کچھ
خامیوں کے رہ جانے کی وجہ سے افریقہ سے آنے والا سونا رک گیا ، اور جب میں
نے مسئلہ کے حل کے لئے کوشش شروع کی،تو سیکورٹی کے ایک اعلی افسر نے مجھے
ڈرایا،پھر مجھ سے ڈیڑھ ملین ڈالر کی رقم (رشوت) کا مطالبہ کیا،میں نے اس
معاملہ کی شکایت وزارت داخلہ میں درج کروادی ہے،اور ثبوت کے طورپر ویڈیو
ریکارڈنگ بھی پیش کردی ہے، میڈیا سے گفتگو کے دوران مسٹر زراب نے یہ بھی
کہا کہ ’’ کچھ عرصہ کے بعد ایک صحافی نے مجھ سے ٹیلیفونک رابطہ کیا اور کہا
کہ آپ پرکرپشن ( مالی بدعنوان ) کے الزامات ہیں، جن کی فائلیں میرے پاس ہیں
،میں نے انہیں اپنے ساتھ کام کرنے والے ایک وکیل کے حوالہ کردیاہے، پھر
اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ وہ بھی مجھے ہر اساں کرنا چاہ رہا ہے اور ان
فائلوں کو کلوز کرنے کے عوض میں ایک ملین ڈالر رشوت مانگ رہا ہے،یہ ساری
گفتگو میرے پاس ریکارڈ ہے ،میں نے انکوائری کرنے والے فاضل جج کو بھی
بتلادیا ہے ،کہ پوری گفتگو کی ریکارڈنگ بھی میں پیش کرسکتا ہوں ‘‘ بعد میں
رضازر داب نے یہ ساری تفصیلات یوٹیوب پر بھی ڈال دیں، ‘‘ زراب کہتے ہیں کہ
میں نے کئی ماہ پہلے ہی اس کی جانکاری وزارت داخلہ کو دے دی ہے،مذکورہ
سیکورٹی آفیسر اور صحافی کے خلاف دعوی بھی دائر کردیا ہے ، مگر عجیب وغریب
بات ہے کہ یہ لوگ مجھ ہی پر مقدمہ چلارہے ہیں یعنی ’’الٹا چور کوتوال کو
ڈانٹے‘‘ والی بات ہو رہی ہے ۔
ترکی اور ایران کے مابین اقتصادی تعلقات میں ہالک بینک کو ریڑ ھ کی ہڈی کی
حیثیت حاصل ہے،امریکہ یا بالفاظ دیگر امریکی عزائم کے ان نئے محافظوں نے اس
بینک کے چیرمین پر مالی بدعنوانی کا الزام لگاکر اور اپھر اس بینک پر
پابندی عائد کرکے،اپنا ایک معاشی مفاد بھی حاصل کرلیا،ایرانیوں کے ساتھ لین
دین سے بینک کو روک کر امریکہ پابندیوں کو مزید سخت کردے گا ۔
آئندہ انتخاب میں اردوغان کوشکست دینے،ان کی حکومت کواقتدار سے بر طرف کرنے
کے لئے ہی، فتح اﷲ گولن کی جماعت نے عوامی ریپبلکن پارٹی سے معاہدہ
کیاہے،اور ان حالات کا سامناکرنے سے پہلے ہی اردوغان نے بھی متبادل تیار
کرلیا ہے ۔
پانچویں دہائی میں عدنان مندرلیس کی پھانسی کے بعد سے پچھلے کچھ سالوں تک
ترکی میں اسلامی تحریکات ،اداروں اور ترکی حکومت کے درمیان بر ابر کشمکش
رہی ہے،مگر فتح اﷲ گولن کی جماعت نے ہمیشہ حکومت کی تائید کی تھی اور انہوں
نے اسلامی اقدارواصول سے شدید نفرت رکھنے والے’ حجاب کے کٹر مخالف‘ کمیونزم
نظریات کے حامل، سابق ترکی وزیر اعظم بولنٹ اجاوید کی تائید وحمایت شروع
کردی،حکومت وقت کی تائید وحمایت کے اپنے تمام ریکاڈکے بالکل برخلاف فتح اﷲ
گولن کی تنظیم ’’الحدقۃ‘‘ پچھلے کئی سالوں سے برسراقتدار ’’انصاف اور ترقی
پارٹی ‘‘کی مخالفت پر آمادہ ہے،بلکہ اس میں اپنی پوری توانائی صرف کررہی
ہے،اس جماعت کو حکومت میں شامل ایک بڑی طاقتور اور مؤثر شخصیت ہاکان فیدان
سے کچھ زیادہ ہی’’بغض‘‘ ہے،کیوں کہ ہاکان فیدان نے ترک خبررساں ایجنسی میں
فتح اﷲ گولن کی حماعت کی بیجا دخل انداز ی پر روک لگادی تھی اور وزیر اعظم
کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر اسرائیل کے لئے ڈیلومیٹک مصیبت پیدا کردی تھی،جس
سے اس نام نہاد ’’اسلامی جماعت ‘‘ کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے،ادھر
اگر چہ بعض تجزیہ نگارلکھ رہے ہیں کہ تعلقات کی کشیدگی کچھ کم ہو رہی ہے
اور وزیر اعظم کی طرف سے فتح اﷲ گولن کے تمام اداروں کو بند کئے جانے کی
بات درحقیقت انہیں جاری رکھنے کی کھلی ہوئی اجازت کے سوا کچھ نہیں ہے،لیکن
سچی بات یہ ہے کہ فتح اﷲ گولن اور ان کی جماعت نے اردوغان،ان کی حکومت اور
’’انصاف اور ترقی پارٹی ‘‘ کے خلاف مہم چھیڑ دی ہے،اس کی پوری کوشش ہے کہ
وہ اسلام پسند روایتی حریف عوامی ریپبلکن پارٹی کو آئندہ انتخابات میں ہر
ممکن طریقہ سے تقویت پہونچائے اور رجب طیب اردوغان کی حکومت کو اقتدار سے
بے دخل کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرے ۔
مالی بدعنونی کا مسئلہ :
کل منگل کی صبح تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھاکہ مالی بدعنوانی مخالف
دستہ،انصاف اور ترقی پارٹی سے وابستہ دسیوں افراد کو گرفتارکرلے گا ،گرفتار
کئے جانے والوں میں وزیر داخلہ کے بیٹے کے علاوہ دو اور سینئر وزراء کے
فرزند،اور الفاتح میونسپل کارپوریشن کے چیئر مین،جوبر سراقتدار پارٹی کے
تاسیسی ارکان میں سے ہیں بھی شامل ہیں اور یہ گرفتاریاں رشوت کے طور پر
بھاری رقم وصولی کرنے اور مالی بدعنوانی کے الزمات کی تحقیق کے لئے عمل میں
آئی ہیں،اس معاملہ میں تحقیقاتی آفیسر کے دفتر سے جاری سرکاری بیان کے
مطابق تحقیقات کا عمل پچھلے ایک سال سے جاری تھا،ملزموں کے روابط اور
سرگرمیوں پر نگاہ رکھی جارہی تھی،تاہم اس نازک وقت میں آخریہ معاملہ کیوں
سامنے لایا گیا؟اس کے پیچھے کون سے جذبات کام کررہے ہیں ؟ اسی طرح پورے
وثوق کے ساتھ یہ بھی نہیں کہاجاسکتا کہ اس تحقیقاتی آفیسر کا فتح اﷲ گولن
کی جماعت سے کوئی نہ کوئی تعلق ضرورہے، لیکن اتنا یقینی ہے کہ اس گھڑی میں
اس معاملہ کے سامنے آجانے سے جہاں حکومت پر آنچ آتی ہے،وہیں وزیر اعظم
اردوغان اور ان کی پارٹی دونوں کے لئے انتہائی تکلیف کی بات ہے،یہ الگ بات
ہے کہ ماخوذ لوگوں میں سے اب تک عدالت نے کسی کی بھی سرزنش نہیں کی
ہے،البتہ ایک وزیر کے بیٹے پر کچھ آنچ آسکتی ہے،اگر ایسا ہوتاہے تو یہ
موجودہ ترک حکومت کے لئے پریشانی کا باعث ہوگی، کیوں کہ اس کی وجہ سے وزیر
اعظم اردوغان کو وزارتی کونسل میں بڑی تبدیلی لانی ہوگی،ساتھ ہی اگر ترکی
عدلیہ کی تاریخ اور طریقہ کار کو دیکھا جائے تو محسوس ہوتاہے کہ تحقیقات کا
عمل ابھی جاری رہے گا اور کیس فائنل ہونے میں کئی سال لگ جائیں گے اور
مخالف پارٹیاں آئندہ ہونے والے بلدیاتی ، صدارتی اور مجلس قانون ساز کے
انتخابات میں انصاف اور ترقی پارٹی کے خلاف ماحول سازی میں اس کاخوب
پروپیگنڈہ کریں گی ۔
ان گرفتاریوں پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم اردوغان نے کہا کہ ’’ عدالت کے
فیصلہ سے پہلے میں کچھ بھی نہیں کہوں گا ، انہوں نے عمومی طور پر صرف اتنا
کہا کہ ’’ وہ لوگ جو تاریکی،تعصب اور دھڑابندی کا سہارا لے کر کام کرنا
چاہتے ہیں اور مال ودولت،ذرائع ابلاغ کے بھروسہ ہی خاکے بناتے رہتے ہیں ،وہ
ترکی کے لئے کوئی راہ عمل تجویز نہیں کرسکتے،ہم ہرگز کسی بھی دھمکی کے
سامنے جھکنے والے نہیں ہیں، انہیں جو جو گھناؤنا کھیل کھیلنا ہے کھیل لیں،
اور جوجو معاہد ہ جن سے کرناہے، کرلیں،ـ‘‘ وزیر اعظم نے اپنی گفتگو کا
اختتام اس طرح کیا کہ’’اگر کچھ لوگوں کے پاس توپ ،ٹینک، بندوق، چھرے
اورگولے ہیں،تو ہمارے پاس بھی ہمارا رب اﷲ ہے، جو ہمارے لئے کافی ہے ‘‘ (اب
آج بتاریخ ۴/مارچ ۲۰۱۴ء خبرآئی ہے کہ سارے الزامات بے بنیادتھے، اور گرفتار
شدگان بری کردئے گئے ہیں)
ترک پالیمانی ممبران کے استعفے
پارلیامنٹ میں فتح اﷲ گولن کی جماعت کی سیاسی نمائندگی ہمیشہ بہت ہی محدود
رہی ہے،چونکہ جماعت کا عمومی رجحان ملک کے اندر فیصلہ کن کلیدی عہدوں تک
رسائی حاصل کرنا رہا ہے،جبکہ سیاسی مناصب سے وہ ہمیشہ دور رہی رہے
ہیں،چنانچہ انصاف اور ترقی پارٹی کے پارلیمانی گروپ کے مقابلہ میں ان کی
تعداد صرف ۲۰ / تک پہنچتی ہے اور اتنی بھاری اکثریت والی پارٹی کے سامنے
جماعت کے یہ ممبران جماعت کے ساتھ اپنے گہری وابستگی کی بھی ضمانت نہیں دے
سکتے،ان سب کے باوجود استعفے کی کاپی کو انتہائی پر خطر اور برسراقتدار
پارٹی کے لئے سب سے بڑا درد سر سمجھا جارہا ہے،اورکہا جارہا ہے کہ اس موقع
پر فتح اﷲ گولن کی جماعت اپنے مفادات کی خاطر زبردست گیم کھیلے گی،کیوں اسے
یقین ہے کہ دنیا بھر میں موجود اپنے ہمنوا ذرائع ابلاغ وترسیل کے سہارے
ہرہر استعفیٰ کے بعد حکمراں پارٹی کے خلاف وہ زبردست مہم چلانے میں کامیاب
ہو جائیں گے،آخری دنوں میں کام کرنے کا وہ اسلوب اور طریقہ ٔ کار جسے جماعت
اپنے مشن کی تکمیل کی خاطر اختیار کرے گی،اس وقت سامنے آگیا جب استعفے کی
کاپی سامنے آئی،پارلیامنٹ میں انصاف اور ترقی پارٹی کے ۳۲۵ ممبران میں سے
صرف دو ممبران کے استعفیٰ دینے پر فتح اﷲ گولن تحریک اور ان کے ہم نوا
ذرائع ابلاغ نے دنیا بھر میں ایک طوفان برپا کردیا،مذکورہ جماعت کے قریبی
اورمعتمد صحافیوں اور دیگر ذرائع ابلاغ نے یہ تک کہنا شروع کردیا کہ اگر
فتح اﷲ گولن اور برسراقتدار حکومت کے درمیان یہ کشمکش جاری رہی تو دس
عہدہداروں کو اپنے عہدوں سے استعفیٰ دینے پڑیں گے ۔
عوامی ریپبلکن پارٹی اور فتح اﷲ گولن کی جماعت کے درمیان معاہدہ کی عجلت کا
راز
ابتداء میں تو ایسالگ رہا تھاکہ عوامی ریپبلکن پارٹی اردوغان اور گولن کے
درمیان جاری کشمکش کا دورسے ہی مشاہدہ کرے گی،خود اس میں کوئی دلچسپی نہیں
لے گی،کیوں کہ دونوں ہی سیاسی اور نظریاتی اعتبار سے اس کے سب سے بڑے حریف
تصور کئے جارہے ہیں،لیکن عوامی ریپبلکن پارٹی کے صدر ’کیلیتشار اوغلو‘کے
حالیہ امریکی دورہ اور وہاں مقیم گولن کی جماعت کے اہم ارکان سے ملاقات کے
بعد تو پورا منظر نامہ ہی بدل گیا،اور اس راز سے بھی پردہ اٹھ گیا کہ
امریکہ اس بات کے لئے ایڑی چوٹی کے زور لگائے ہوئے ہے،کہ کسی بھی طرح وزیر
اعظم رجیب طیب اردوغان کو اقتدار سے بے دخل کیا جائے، اور ترکی کی سیاست
میں یہ جملہ تو محاورہ کی شکل اختیار کرگیا ہے کہ ترکی کی وزارت عظمی کا
راستہ استنبول کے میئر سے ہو کر گزرتاہے اور یہاں سے اس مرتبہ ’ساری گل‘ کو
امیداوار بنایاہے،یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ گولن کی جماعت اور عوامی
ریپبلکن پارٹی کے درمیان اس بات پر پختہ معاہدہ ہو چکا ہے کہ اردوغان کے
امیدوار کو ہراکر کسی بھی طرح استنبول کے میئر کے عہدہ تک ساری گل کو
پہنچاناہے اور اس طرح ایک ( نام نہاد)اسلامی جماعت اور ایک لادینی جماعت کے
درمیان امریکہ بہادر کی نگرانی میں معاہدہ ہوگیا ہے،تاکہ اردوغان حکومت کو
ترکی کے اقتدار سے برطرف کیا جاسکے ۔
تعجب خیز اورحیرت انگیز بات یہ ہے کہ بالکل ہی دو متضاد نظریات کی حامل دو
جماعتیں کیسے اتنی جلدی ایک دوسرے سے اس قدر قریب ہوگئیں ؟ آخر اس کی کیا
ضرورت پیش آگئی ؟ اس باہمی قربت کے نتیجہ میں ایک لادینی پارٹی جو اسلام
پسندوں اور تمام اسلامی مظاہر اور نقوش سے اپنی شدید دشمنی اور بغض وعناد
کے لئے معروف ہے ، نے اپنے ایک عوامی اجلاس میں حکومت کے اس بل کی سختی سے
مخالفت کی ہے ،جس میں فتح اﷲ گولن کی جماعت کے تحت چلنے والے تمام تعلیمی
اداروں کو بند کردینے کی بات کہی گئی ہے،استنبول سے پبلک ڈیموکرٹیک پارٹی
کے امیداوار ساری گل نے ان تعلیمی اداروں کی اہمیت اور دینی شعائر کے تحفظ
میں ان کے کردار پر دیر تک بڑی تفصیل سے گفتگو کی ہے واہ کیا خوب ہے ۔
ہیں کو اکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں بازی گردھو کہ کھلا
جہاں تک بات ہے بلدیاتی انتخاب میں’ساری گل‘ کی کامیابی کی،تو تجزیہ نگاروں
کاکہنا ہے کہ عوامی ریپبلکن پارٹی اور فتح اﷲ گولن کی جماعت کے درمیان اس
معاہدہ کی وجہ سے انصاف اور ترقی پارٹی پیچھے ہوسکتی ہے،موجودہ میئر قادر
تو باش جو استنبول کی انتہائی مقبول شخصیت ہیں ،سرکاری اور غیر سرکاری سروے
کے مطابق ان کی عوامی مقبولیت ساری گل سے بہت بڑھی ہوئی ہے، پسپا ہوسکتے
ہیں،یہ بات بھی معلوم ہونی چاہئے کہ آنے والے انتخاب میں بھی قادر توباش کو
ہی امیداوار بنائے جانے سے پارٹی کے اندرکچھ بے چینی سی محسوس کی جارہی
تھی،کیوں کے اندازہ تھاکہ پارٹی کسی نوجوان کو موقع دے گی،لیکن اس فیصلہ سے
اس وقت بڑااطمینان ہو ا،اور سبھی نے فیصلہ کو درست قرار دیا جب گولن کی
جماعت اور عوامی ریپبلکن پارٹی کے درمیان معاہدہ کا راز فاش ہوگیا ۔
نئی انتخابی گروپنگ
دن بدن یہ بات بھی کھل کر سامنے آرہی ہے کہ’ انصاف اور ترقی پارٹی ‘بھی
پچھلے کئی سالوں سے اس مقابلہ کی تیاری میں لگی ہوئی ہے اور گزشتہ دو سالوں
میں اس نے اپنے لئے اپنے نئے انتخابی دھڑے تلاش کرلئے ہیں جو فتح اﷲ گولن
اور اردوغان کے درمیان کشمکش کی وجہ سے کٹنے والے ووٹوں کا متبادل بن
سکیں،انصاف اور ترقی پارٹی کے اعداد وشمار کے مطابق کٹنے والے ووٹوں کی
تعداد تین فیصدی اور فتح اﷲ گولن کی جماعت کے سروے کے مطابق یہ تعداد
۷/فیصد تک پہنچتی ہے ۔
سال گذشتہ وزیر اعظم اردوغان نے بڑی قوت اور جوش کے ساتھ داخلی استحکام کے
لئے امن معاہدہ کیااور اس کے ذریعہ انہوں نے کردوں کے ساتھ تقریبا ربع صدی
سے چل رہے مسلح کشکمش کا خاتمہ کیا اور کردستانی لیبر پارٹی کو ڈیموکرٹیک
اصلاحات کے جتھے میں شامل کیا،جس کی وجہ سے کردوں میں اردغان کی مقبولیت
میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے،کردوں کی تعداد تقریبا ۱۸/ملین افراد تک پہنچتی
ہے،ان کی کثیر آبادی جنوب مشرقی صوبوں میں ہے اور ایک بڑی تعداداستنبول میں
بھی آباد ہے ،اردوغان نے ترکی کے اندر اپنے حالیہ اصلاحات کے ذریعہ کردوں
کے علاوہ ترکی میں آباد دیگرنسلی اقلیتوں کا دل بھی جیتاہے،جن میں ارمن
،گوجر، اشوری ،عرب اور آذربیجانی نسلیں قابل ذکر ہیں،یہ وہ اقلتیں ہیں جو
ترکی کے ریڈیکل قوم پرست حکمرانوں کے مظالم کے نشانہ پررہی ہیں اور جن کے
تشخص،ثقافت اور زبان کو مٹانے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں،وزیر اعظم اردوغان کی
حکومت پہلی حکومت ہے جس نے تمام ترک شہریوں کا خیال رکھا اور گوجر نسل کے
ترکوں کی تہذیب وثقافت کے تحفظ کے لئے ایک مخصوص ادارہ کابھی افتتاح
کیا،اسی طرح یہ پہلی حکومت ہے جس نے حکومتی اداروں اور سڑکوں کے نام رکھنے
میں غیر ترکی ناموں کے استعمال اور ان سے موسوم کئے جانے کی سرکاری سطح پر
اجازت دی اور انتخابی مہم میں مقامی زبان کے استعمال سے بھی پابندی
اٹھالی،خیر آگے آگے دیکھتے ہوتا ہے کیا؟
(بشکریہ ماہنامہ بانگ حراء ،لکھنؤ،مارچ ۲۰۱۴ء)
٭٭٭٭
|