جب سے شعور کی وادی میں قدم رکھا ہے ، پہلی بار ایسا ہوا
ہے کہ ہم پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی خبریں ’’چَسکے‘‘ لے لے کر پڑھ اور
سُن رہے ہیں ۔اﷲ بھلا کرے وزیرِ خزانہ جناب اسحاق ڈار کا جِن کی کرشمہ سازی
سے ڈالر دھڑام سے نیچے آ گرا اور ہمارے بیرونی قرضوں میں 700 ارب روپے کی
کمی ہو گئی جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر پاکستانی کا قرضہ بھی چار ہزار روپے تک
کم ہو گیا ۔ہمارے دِل میں لَڈو پھوٹنے کی وجہ یہ نہیں کہ ڈالر کی قدر کم ہو
گئی بلکہ یہ ہے کہ ہم نے زندگی میں پہلی دفعہ سَٹہ باز ٹیکسٹائل لابی کے
گھروں میں صفِ ماتم بچھی دیکھی ۔یہ لابی تو بیرونی ممالک سے اپنی برآمدات
کی وصولی پانچ ارب ڈالر تک حاصل کرنے کی عادی تھی جس کا ڈار صاحب نے ’’بیڑا
غرق‘‘ کرکے رکھ دیا ۔ہم نے تو ہمیشہ یہی دیکھا کہ ہر وزیرِخزانہ بڑے مگر
مچھوں کے مفادات کا تحفظ ہی کرتا ہے لیکن ڈار صاحب نے تو اُنہی مگر مچھوں
پہ چھُری چلا دی۔
ویسے ہمارے یہ ڈار صاحب ہیں بہت ’’شرارتی‘‘ ۔جب ہمارے ’’لال حویلی‘‘ والے
شیخ رشید صاحب نے لال پیلے ہو کر کہا کہ اگر ڈالر 98 کی سطح پر آ گیا تو وہ
اپنی نشست سے مستعفی ہو جائیں گے ، تَب ڈار صاحب نے یہ سوچا کہ شیخ صاحب سے
جان چھُڑانے کا یہ سنہری موقع ہے جسے ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے ۔اُنہوں
نے ’’چوری چوری ، چُپکے چُپکے‘‘ ڈیڑھ ارب ڈالر اکٹھے کر کے قومی خزانے میں
جمع کروا دیئے ۔جب پوچھنے والے نے ڈار صاحب سے پوچھا کہ یہ ڈالر کہاں سے
آئے تو اُنہوں نے مُسکراتے ہوئے جواب دیا کہ قوم آم کھانے سے غرض رکھے ،
پَیڑ گننے سے نہیں ۔اُدھر شیخ صاحب جنہیں کہیں سے اِن ڈالروں کی ’’ سُن
گُن‘‘ مِل گئی تھی نے حکومت کو ’’الٹی میٹم‘‘ دے دیا کہ وہ چوبیس گھنٹوں کے
اندر یہ بتلا دے کہ یہ ڈیڑھ ارب ڈالر کہاں سے آئے ، ورنہ وہ خود بتلا دیں
گے ۔چوبیس گھنٹے گزرنے کے بعد اب الیکٹرانک میڈیا شیخ رشید صاحب کو ایسے ہی
تلاش کر رہا ہے جیسے کبھی امریکہ اسامہ بن لادن کو تلاش کیا کرتا تھا لیکن
شیخ صاحب کی ’’مارکیٹ ویلیو‘‘ اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ وہ مشکل ہی سے ہاتھ
آتے ہیں ۔اینکروسیم بادامی نے اُنہیں پتہ نہیں کہاں سے ڈھونڈ لیا اور پہلا
سوال ہی یہ کر دیا کہ وہ کب مستعفی ہو رہے ہیں؟ ۔شیخ صاحب جو پہلے ہی
’’تَپے‘‘ بیٹھے تھے ، نے جواب دیا کہ چونکہ پارلیمنٹ میں وہ غریبوں کی واحد
آواز ہیں اِس لیے مستعفی ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا۔ویسے بھی اُنہیں
یقین ہے کہ ڈالر پھر چَڑھ جائے گا کیونکہ یہ ڈالر ہے کوئی گِری پڑی
پاکستانی کرنسی نہیں ۔شیخ صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ اُنہوں نے 98 روپے کی
بات کی تھی جبکہ ڈالر کی قیمت آج بھی ’’ساڑھے اٹھانوے‘‘روپے ہے اِس لیے
اسحاق دار صاحب کا یہ کہنا غلط ہے کہ’’ اگرمیں شیخ رشید کی جگہ ہوتا تو
مستعفی ہو جاتا ‘‘۔جب اینکر نے بات ’’گھُما ‘‘ کر بار بارشیخ صاحب سے یہ
جاننے کی کوشش کی کہ ڈیڑھ ارب ڈالر کہاں سے آئے تو شیخ صاحب نے تَپ کر کہا
کہ اُس اینکر جیسے دو تین تو وہ ہر وقت اپنی جیبوں میں لیے پھرتے ہیں۔اسحاق
ڈار صاحب کے ہاتھوں شکستِ فاش کے علاوہ شیخ صاحب کو یہ غصّہ بھی ہے کہ
عمران خاں صاحب نے اُن سے مشورہ کیے بغیر میاں نواز شریف صاحب سے ملاقات
بھی کر لی اور خلافِ عادت میاں صاحب اور اُن کے ہمراہیوں کی خوب خاطر تواضع
بھی کی ۔حالانکہ ہم نے تو یہی سُنا تھا کہ خاں صاحب یہ دیکھے بغیر کہ کوئی
بڑا آیا ہے یا چھوٹا ہمیشہ ’’بسکٹوں‘‘ پر ہی ٹَرخا دیتے ہیں ۔اب شیخ صاحب
کو یہ پریشانی بھی لاحق ہے کہ اگر خاں صاحب بھی ہاتھ سے نکل گئے تو پھر اُن
کا کیا بنے گا۔
ڈیڑھ ارب ڈالر کا قصّہ چونکہ اب زباں زدِ عام ہو چکا ہے اِس لیے ہم بھی
بتلائے دیتے ہیں کہ جب اسحاق ڈار صاحب نے شیخ صاحب کا ’’مَکو ٹھَپنے‘‘ کا
ارادہ کیا تو اُنہوں نے میاں نواز شریف صاحب سے یہ کہا کہ اگر شیخ صاحب سے
جان چھڑانی ہے تو پھر ابھی یا کبھی نہیں۔ میاں صاحب نے بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ
، جھَٹ سے اپنی ذاتی گارنٹی پر سعودی عرب سے ڈیڑھ ارب ڈالر اٹھا لیے اور
جونہی یہ رقم پاکستانی اکاؤنٹ میں منتقل ہوئی ، روپے نے مستحکم ہو کر ڈالر
کو اُس کی ’’نانی ‘‘ یاد دلا دی ۔سعودی عرب سے ملنے والے اِن ڈالروں کے
بارے میں طرح طرح کی مو شگافیاں ہو رہی ہیں اور ہمارے تجزیہ نگار بھی دور
کی کوڑیاں لانے میں مگن ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ ہماری موجودہ ’’میڈ اِن
پاکستان‘‘ حکومت ملکی مفادات کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی۔ شیخ صاحب !
ہوشیار باش ، شنید ہے کہ ابھی ڈیڑھ ارب متحدہ عرب امارات سے بھی آنے والے
ہیں جس سے ڈالر 80 روپے سے کم کی سطح پر آنے کا امکان ہے ۔ اِس لیے بہتر
یہی ہے کہ اپنی ’’بڑھکوں‘‘ کو کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھیں اور غریبوں کی
ہمدردی میں ’’ٹسوے ‘‘ بہانے جیسے ڈرامے بند کر دیں کیونکہ پہلی بار تو صحنِ
گلشن میں آشاؤں اور اُمیدوں کے پھول کھلنے کا یقین سا ہونے لگاہے کیونکہ
ڈالر کی قدر کم ہو جانے سے ہر پاکستانی کی عالمی قوتِ خرید میں 10 فیصد تک
نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اب اُمید ہو چلی ہے کہ اگلے ڈیڑھ دو ماہ میں اشیائے
خورو نوش کی قیمتیں بھی عوام کی قوتِ خرید میں آ جائیں گی۔آنے والے کَل کے
بارے میں تو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن فی الحال خوش ہو لینے میں ہرج ہی
کیا ہے۔
چلتے چلتے یہ بھی سُن لیجئے کہ خصوصی عدالت نے پرویز مشرف صاحب کے نا قابلِ
ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ۔ حکم میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر پرویز
مشرف عدالت میں آنے سے انکار کرتے ہیں تو پھر اُنہیں 31 مارچ کو گرفتار
کرکے خصوصی عدالت میں پیش کیا جائے ۔ خصوصی عدالت کی اِس صریحاََ نا انصافی
کے خلاف ’’مشرف لَورز‘‘ نے ’’والہانہ احتجاج ‘‘کی نئی تاریخ رقم کر دی
۔اُنہوں نے اے ایف آئی سی کے سامنے ڈھول کی تھاپ پر ایسا والہانہ احتجاجی
رقص کیا کہ دُنیا جھوم جھوم اُٹھی۔اِس والہانہ احتجاج سے بچنے کے لیے خصوصی
عدالت نے تویہ عندیہ دے دیا تھاکہ اگر پرویز مشرف عدالت میں حاضر ہونے سے
قاصر ہیں تو اُن کے وکلاء کو فَردِ جرم پڑھ کر سنا دی جائے لیکن مشرف صاحب
کے وکیل انور منصور نے صاف کہہ دیا کہ سکیورٹی خدشات کی وجہ سے مشرف صاحب
عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے اور پڑھ کر سنا دینے سے فردِ جرم عائد نہیں
ہوتی جس پر چار و ناچار خصوصی عدالت نے یہ حکم جاری کر دیاکہ اگر 31مارچ کو
پرویز مشرف عدالت میں آنے سے انکار کرتے ہیں تو اُنہیں گرفتار کرکے پیش کیا
جائے کیونکہ فوجداری مقدمات میں اتنی تاخیر نہیں کی جا سکتی۔مشرف صاحب کے
وکیل احمد رضا قصوری کہتے ہیں کہ جب حکومت کے ماتحت ادارے ایف سی ، رینجرز
اور پولیس مشرف صاحب کو عدالت میں پیش نہیں کر سکے تو 31 مارچ کو کون سی
ٹانگ ٹوٹ جائے گی ۔اُنہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ عدالتیں وارنٹ گرفتاری جاری
کرتی رہتی ہیں اصل مسلہ تو گرفتاری کا ہے اور اُنہیں یقین ہے کہ افواجِ
پاکستان اپنے سابق آرمی چیف کو ہتھکڑی نہیں لگنے دے گی ۔دست بستہ عرض ہے کہ
پاکستان کی تاریخ میں شاید مشرف صاحب سے زیادہ متنازع شخصیت اور کوئی نہیں
ہو گی ۔اُنہیں چاہیے کہ اِس سے پہلے کہ فوج پر انگلیاں اُٹھنے لگیں اور فوج
تنگ آ کر اُنہیں اے ایف آئی سی سے ڈسچارج کروا دے ، بہتر یہی ہے کہ وہ
عدالت میں پیش ہو جائیں کیونکہ یہ تو طے ہے کہ اِس مقدمے نے بہرحال اپنے
منطقی انجام کو پہنچنا ہی ہے ۔ |