حسب معمول یہ عظیم بادشاہ رعایا کی خبر گیری کرنے کے لیے
رات کے اندھیرے میں بھیس بدل کر اپنی سلطنت میں گھوم رہا تھا کہ یہ بادشاہ
اپنے غلام کے ساتھ گھومتے گھومتے جنگل میں پہنچ گیا کہ اسی اثنا میں اس کی
نظر ایک جھونپڑی پر پڑی ۔بادشا ہ وقت نے اپنے غلام سے پوچھا کہ اتنے جنگل
بیابان میں یہ کس کی جھونپڑی ہے؟ اس سوال کا جواب غلام کیا دیتا وہ تو خود
جواب کا متلاشی تھا۔بادشاہِ وقت نے اندازہ لگایا کہ یہ ضرور کوئی قافلے
والے ہوں گے جو یہاں پڑاؤ کیے ہوئے ہیں۔یہ جاننے کے لیے کہ قافلے والے کسی
قسم کی تکلیف کا شکار تو نہیں بادشاہ وقت اس جھونپڑی کی طرف روانہ ہوا۔
جھونپڑی کے پاس پہنچ کر بادشاہ وقت بچوں کے رونے کی آواز سن کر اور بے چین
ہوا اور جھونپڑی میں داخل ہونے کی اجازت چاہی ۔اجازت ملتے ہی بادشاہ وقت نے
وہاں بیٹھی عورت سے پوچھا کہ یہ بچے کیوں رو رہے ہیں؟اس سوال کے جواب میں
عورت نے کہا کہ یہ بھوکے ہیں اور شدید بھوک کی وجہ سے یہ رو رہے ہیں۔اس پر
بادشاہ ِ وقت نے چولھے پر رکھی دیگچی کی طرف اشارہ کیا اور پوچھا اس دیگچی
میں کیا ہے؟ بھوکے بچوں کی ماں بولی یہ تو پانی ہے جو بچوں کو بہلانے کے
لیے رکھا ہے کہ ذرا انہیں تسلی ہو جائے اور یہ سو جائیں۔
کسمپرسی کی اس حالت میں وہ عورت کس سے گلہ کرتی ؟اپنی اس حالت پر وہ بے
اختیار بولی کہ بادشاہِ وقت اور میری اس حالت کا فیصلہ اﷲ تعالٰی کے ہاں ہی
ہو گا۔وہ عورت یہ نہیں جانتی تھی کہ اس کے سامنے بادشاہ وقت کھڑا ہے ورنہ
شاید وہ یہ الفاظ کبھی نہ کہتی مگر اس عورت کے یہ وہ الفاظ تھے جوسامنے
کھڑے بادشاہ وقت کے سینے کو چیرتے ہوئے گزر گئے۔بادشاہ وقت چاہتا تو اس’’
گستاخی‘‘ پر اس عورت اور اس کے بچوں کو ابدی نیند سلا دیتا کیوں کہ وہ
بادشاہ تھا ،اداروں کا زمینی مالک ،یہ بادشاہ اپنی سلطنت میں کسی بھی فرد
کو اس عورت کی ’’گستاخی‘‘ کا بتاتا تو بے شمار افراد اُس عورت کی اس’’
گستاخی‘‘کو قابل ِ سزا قرار دیتے مگر۔۔۔۔۔۔ مگر ایسانہ ہوا۔
ٹھیک ہے یہ بادشاہ وقت پہلوان تھا جس سے بڑے بڑے پہلوان ڈرتے تھے ہم یہ بھی
مانتے ہیں کہ اسی بادشاہ وقت نے ہجرت مدینہ کے وقت مکہ والوں کو للکار کر
ہجرت کی تھی مگر۔۔۔۔۔۔ مگر یہ بادشاہِ وقت اس عورت کے اس گلہ پر زاروقطار
رونا شروع ہو گئے۔ اتنا روئے کہ کچھ بولنا چاہا مگر آواز حلق سے باہر نہ
نکلی ۔ جب تھوڑا سا سنبھلے توبولے، اﷲ تمھاری حالت پر رحم کرے بادشاہِ وقت
کو تمھاری حال کی کیا خبر۔اس پر وہ عورت بولی اگر اسے ہماری حالت کا نہیں
پتا تو پھر ہمارے امیر، ہمارے بادشاہ کیوں بنے؟یہ سننا تھا کہ بادشاہِ وقت
وہاں سے بھاگے اور بیت المال سے راشن لے کر ایک بوری میں ڈالا او ر اپنے
غلام کو کہا کہ اس بوری کو میری کمر پر رکھ دو۔غلام کو کہا یہ پسند کہ اُس
کا مالک اس کی موجودگی میں بھاری بوری اُٹھائے۔غلام بولا میں یہ بوری اٹھا
کر لے جاتا ہوں مگر بادشاہِ وقت نے اس پر نہ کردی۔غلام نے جب تین چار مرتبہ
ایسا کہا تو بادشاہ ِ وقت نے کہا: قیامت والے دن بھی مجھ ہی سے اس کا سوال
ہو گاکیا قیامت والے دن بھی تم میرے بوجھ کو اٹھاؤ گے؟ بادشاہ ِ وقت کا یہ
جواب سن کر غلام خاموش ہوگیا۔بوری بادشاہ وقت کی کمر پر رکھی اور بادشاہ کے
ساتھ ساتھ روانہ ہوا۔جھونپڑی میں پہنچ کر بادشاہ وقت نے اپنے ہاتھوں سے
بھوکے بچوں کو کھانا پکا کر کھلایاپھر وہاں ہی زمین پر بیٹھے، بچوں کے ساتھ
کھیلے ،بچوں کو ہنستے مسکراتے دیکھا او ر اپنے غلام کو کہا کہ میں اس لیے
یہاں بیٹھا کہ میں نے ان بچوں کو روتے دیکھا میرا دل چاہا کہ ان کو ہنستے
ہوئے بھی دیکھوں۔
اس عظیم بادشاہ کی خدا خوفی صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں تھی بل کہ یہ کہا
کہ دریائے فرات کے کنارے پیا س سے مرنے والے کتے کی بھی قیامت والے دن مجھ
سے پوچھ گچھ ہوگی۔
کہاں ہیں وہ حکمران جو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مسند حکمرانیت پر ہیں
اور جنھیں تھر میں معصوم بچے ،نوجوان ،بوڑھے اور مویشی بھوک سے مرتے نظر
نہیں آتے ہیں۔یہ کب تک اربوں روپے بے مقصد فیسٹیولز پر اڑائیں گے جب کہ
انسانی جانوں کے لیے چند کروڑ ان کے پاس نہیں ہوں گے ۔یہی وہ حکم راں ہیں
جو پارلیمنٹ میں، کانفرنسز میں ،سکو ل و کالجز میں ،یونی ورسٹیز میں اور سب
سے بڑھ کر ووٹ حاصل کرنے کے لیے جلسے جلوسوں میں اس عظیم ہستی کی خلافت کا
ذکربڑھ چڑھ کر کرتے ہیں جو کتے کے پیاسے مرنے پر بھی اپنے آپ کو قصور وار
ٹھہرائے۔پھر یہ جب مسند حکمرانیت سنبھالتے ہیں تو کیوں انھیں حضرت عمرؓ کے
دور خلافت اور طریقہ حکومت کی تقلیدکرنابھول جاتی ہے۔آخر کب تک مائیں دیگچی
میں پانی ڈال کر بچوں کو بہلاتی رہے گی،بچے کب تک روتے اور بلکتے رہیں گے
،مائیں کب تک یہ انتظار کریں گی کہ ابھی بادشاہِ وقت بھیس بدل کر آئے اور
میرے بچوں کے لیے کھانا تیار کرے،انھیں کھلائے اور ان کی کس مپرسی کا مستقل
سدِ باب کرے۔اب تو تھر میں بادشاہِ وقت کا انتظار کرتے کرتے دیگچیوں میں
بچوں کے بہلانے کے لیے رکھا گیا پانی بھی ختم ہوچکا ہے اور جہاں پانی ہے
وہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہاں بچے ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکے ہیں۔ |