عوام کو وزیر اعظم صاحب سے اُمیدیں

" مشرف کی سیکورٹی کو مزید سخت کر دیا گیا" یہ پڑھ کرمجھے ہنسی آئی، سوچتے ہی قلم اُٹھانے پر مجبورہوا اور عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا دور یادآیا ۔سفر شام کے دوران ایک خیمے کے پاس سے گُزر ہوا تو عمر فاروقؓ وہا ں رُکے تو ایک بڑھیا نظر آئی۔ آپؓ پاس گئے اور اُس کی خیرت دریافت کی تو وہ بولی، میرا اور عمرؓ کا فیصلہ تو روز محشرمیں ہوگا، میرا ہاتھ ہوگا اور عمرؓ کا گریبان ہوگا۔ حضرت عمر فاروقؓ یہ سُن کر بلک بلک کر رو پڑے اور بولے، اتنی دور کا اخوال بھلا عمر کو کیسے معلوم ہو ؟ بوڑھیا بولی اگر رعایا کا حال معلوم نہیں تو ہمارا خلیفہ کیوں بنا ہوا ہے۔ آپؓ نے اُس کی مدد کی اور انتہائی رنج والم میں آگے بڑھے۔ اُن کے مُلازم اسلم کا بیان ہے کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ عمرؓ کا اسی غم میں انتقال ہوجائے گا۔

بات ہورہی تھی مُشرف کی۔۔۔ مُشرف 12 اکتوُبر 1999ء کو مُلک میں فوجی قانون نافذ کر کے وزیراعظم نواز شریف کو جبرا معزول کر دیا۔ پھر 20جون 2001 کوایک صدارتی استصواب رائے کے ذریعے صدارت کا عُہدہ اختیار کیا ۔ سیکورٹی کی لحاظ سے مُشرف کو باقی سارے سیاستدانوں پر فوقیت حاصل ہے۔ وہ پہلے تو زمین پر پاؤں نہیں رکھتے مگر جہاں ہیلی کا پٹر کی ضرورت نہ تھی وہاں کے لوگوں کو ٹریفک میں ایسا اُلجھاتا تھا کہ سارا دن اپنی جگہ سے ہلنا بھی مشکل ہوجاتاتھا۔ اُس کے ساتھ اپنا قافلہ اور ایک جیسی گاڑیاں ہوتی کہ کسی کو پتہ تک نہیں چلتا تھا کہ مُشرف صاحب کس گاڑی میں بیٹھا ہے۔ 18 اگست 2008ء کو جب اُن کا دور حتم ہوا تو لوگوں میں عجیب سی خوشی تھی کہ شاہد اب پاکستان کا تقدیر بدل جائے گا مگر پاکستان کے قسمت میں تبدیلی لفظ کا کہی دودورر تک نام ونشان نہ تھا۔6 ستمبر 2008ء کو پاکستان کا قسمت تبدیل کرنے کے لئے جناب آصف علی زرداری نے صدارت کا عہدہ لیا۔یہ ایک ایسا فیصلہ تھا کہ کسی کے گُمان میں بھی نہ تھا۔ لوگوں نے سُکون کا سانس لینا چاہا اور مُشرف صاحب کے دور کو بھولنے کی کوشش کر رہے تھے۔ سیکورٹی کے لحاظ سے صدر زرداری صاحب ، مُشرف صاحب سے کچھ زیادہ مُختلف نہ تھا۔اُسے بھی مُلک کو بچانے کے لئے اپنی سیکوٹی اتنی سخت کر دی تھی کہ جہاں بھی وہ جاتے تھے وہاں پرندہ پر تک نہیں مار سکتی۔اگر یہ لوگ اتنی سیکورٹی میں گھومتے ہیں تو عوام کا مُحافظ کیسے بن سکتے ہیں؟؟؟ اُن کے دور میں جتنے بھی وزیراعظم صاحبان آئے اُن کی سیکورٹی کی داستان بھی اُن سے مُختلف نہ تھی۔8 ستمبر 2013ء کو پہلی بار پاکستان کی تاریح میں حکومت کی مُدت ختم ہونے پر زرداری صاحب کو صدارت کی کُرسی خالی کرنا پڑی اور ایک بار پھر عوام نے خوشی کا اظہار کیا اور اُن کی جگہ ممنون حسین کوصدارت کی کُرسی ملی جو کہ ابھی تک سکرین سے باہر ہے۔

پہلے سے منتخب ہونے والا ہمارا نیا وزیراعظم صاحب کی سیکورٹی میں کافی حد تک کمی آئی ہے لیکن پھر بھی جو اُمیدیں اس با رپاکستانی عوام نے اُن سے وابسطہ رکھی ہے اس پراب بھی شاید پورا نہیں اُترتا۔ انہیں یہ بات سمجھنا چاہئے کہ اگر سیکورٹی کی ضرورت اُن لوگوں کو پڑے تو عوام کا خیال کون رکھے گا۔ اگر ایک ملک کا وزیراعظم، صدر یا دوسرے وزراء اپنی خیال رکھنے میں اس طرح ڈوب جائے تو عوام کی چیخ کون سنے گا۔عوام ووٹ اس لئے دیتے ہیں کہ مُلک کا قسمت تبدیل ہو جائے نہ کہ مُلک بچانے کی بجائے اپنی سیکورٹی کا خیال رکھا جائے۔وزیر اعظم صاحب سے عوام بُہت سی اُمیدیں لگائی بھیٹے ہیں۔ عوام چاہتے ہیں کہ جو غلطیاں پہلے حکومتوں میں ہوئی ہیں اُسے دُھرانا نہ جائے بلکہ اُن غلطیوں سے سبق سیکھ کر مُلک کو کامیابی کیطرف بڑھایا جائے۔ جو وعدے وزیراعظم صاحب نے کی ہیں اُنہیں عملی شکل دیا جائے تاکہ عوام کو اُن کے ووٹ کی صحیح استعمال کا بدلہ مل جائے۔اور اگر وزیر اعظم صاحب ایسا نہیں کرتے تو شاید اُن کا نام بھی دوسری سیاستدانوں (جنہوں نے اپنے دور حکومت میں عوام کی بھلائی کے لئے کچھ نہ کی ہو)کی طرح لیا جائے گا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ جناب وزیر اعظم صاحب کس حکمت عملی سے مُلک اور عوام کی قسمت کو جھگمگا تے ہیں اور ہمیں ایک نیا پاکستان، جہاں امن، روزگار اور تعلیم ہو، دیتا ہے ۔۔۔