نیم جان الیکشن کمیشن

موجودہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ہماری سیاسی تاریخ کا ایسا منفرد اور معتبر کمیشن ہے جسے حکومت اور اپوزیشن کی باہمی رضا مندی سے آئینی طریقہ کار کے مطابق تشکیل دیا گیا۔خوش آئند امر تھا کہ پارلیمنٹ سے باہرموجودجماعتوں نے بھی فخر الدین جی ابراہیم کی بطور چیف الیکشن کمیشنرتعیناتی کی حمایت کی ۔ سیاسی جماعتوں کے علاوہ میڈیا ، عدلیہ ، سول سوسائٹی اور افواج پاکستان کی جانب سے بھی کمیشن کے ساتھ اظہار یکجہتی دیکھنے میں آیا۔ یوں الیکشن کمیشن ایک معتبر، غیر جانبداراور سب کے لیے یکساں طور پر قابل قبول اور قابل اعتبار ادارہ کے طور پر سامنے آیا۔ گو ڈاکٹر طاہر القادری اور ہم خیال عناصر کی جانب سے کمیشن کو متنازعہ بنانے کی سعی کی گئی مگر مجموعی طور پر کمیشن کی ساکھ بر قرار رہی۔حکومت اور اپوزیشن کے مابین نگران وزیر اعظم کے نام پر عدم اتفاق سیاستدانوں کی ناکامی سہی ،مگر یہ الیکشن کمیشن پر اعتمادکا مظہر بھی تھا۔اسقدر مقبولیت اور قبولیت کے حامل کمیشن سے بجا طور پر بہترین کار کردگی اور نتائج کی توقعات وابستہ تھیں۔ مگر عملی طور پر کمیشن کی کارکردگی اوسط درجے کی اور مختلف معاملات پر قابل تنقید رہی ۔آغاز سے ہی کمیشن بے حکمتی اور بے سمتی کا شکار رہا۔ قابل توجہ اور اہم معاملات کو پس پشت ڈالے اس کی توجہ معمولی نوعیت اور کم اہمیت کے حامل معاملات کی جانب مرکوز رہی۔ اسے ادار ے کا اندرونی خلفشار کہیے یا حد سے بڑھی خود اعتمادی کہ شعوری لا شعوری طور پر کمیشن دیگر اداروں کے اختیارات کے حصول کی کوشش میں ہلکان رہا۔ ڈگریوں کی تصدیق کے معاملہ پر ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی بجائے براہ راست اراکین اسمبلی کو تندو تیز زبان میں لکھے خطوط بھجوائے تو سیاستدانوں نے اسے عزت نفس پر حملہ تصور کرتے ہوئے کمیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ آخر کارکمیشن کو HEC کے ذریعے تصدیق کے عمل پر آمادہ ہونا پڑا۔ نگران حکومت کی موجودگی کے با وجود براہ راست بیوروکریسی میں تبدیلیوں کے احکامات جاری کیے جاتے رہے ۔حالانکہ نگران حکومت کی سستی ، اور کمزوری سے قطع نظر ، بہر حال یہ تبدیلیاں حکومت کا استحقاق تھیں اور نگران حکومت کو ہدایات کے ذریعے یہ کام کروانا زیادہ مناسب ہوتا۔محض اخباری خبروں اور مخالف سیاسی بیانات سے متاثر ہو کر کمیشن نے اہم سیاستدانواں کی سیکیورٹی کی واپسی اور مساوی فراہمی کے احکامات جاری کیے۔ حالانکہ یہ معاملہ وزارت داخلہ کی صوابدید تھا اور وہ سیکیورٹی ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق کسی بھی امیدوار کی سیکیورٹی کم یا زیادہ کرنے کا فیصلہ زیادہ بہتر طریقے سے کر سکتی تھی۔

صدر پاکستان کی تصدیق کے بغیر کاغذات نامزدگی کی چھپائی کا معاملہ ہو یا بیلٹ پیپر پر خالی خانے کے اندراج کا تنازعہ ،کمیشن کی جانب سے غیر ضروری عجلت برتی گئی۔سکروٹنی کا عمل بھی کسی حکمت عملی سے عاری تھا اور کمیشن کا زور بازو 62 اور 63 جیسی آئینی شقوں تک محدود رہا۔ ٹی وی کیمروں کے سامنے امیدواروں کو تماشہ بنا کر قوم کو تفریح کا سامان فراہم کیا گیا۔ مضحکہ خیز بات ہے کہ ایک امیدوار کے کاغذات کسی ایک حلقے سے رد کیے گئے تو دوسرے حلقے سے منظور کر لیے گیے۔ یعنی کمیشن کی جانب سے قبول و مسترد ہونے کا پیمانہ ایک نہ تھا۔

ٹیکس ناہندگان، قرض خوروں اور جعلسازوں کی گرفت کے لیے نیب، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، نادرا اور ایچ ۔ ای۔ سی پر مشتمل ایک مشترکہ بورڈ تشکیل دیا گیا۔ مگر عملی طور پر اس عمل سے میڈیا پر امیدواروں کی تضحیک اور مضحکہ اڑانے کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوا۔ اور چند ایک پر گرفت کا تردد کر کے 99.9 فیصد امیدواروں کو کلیئر کر دیا گیا۔

میڈیا تک کمیشن کا نقطہ نظر پہنچانے کے لیے اول روز سے ہی ترجمان مقررہونا چاہیے تھا۔ مگرایسا نہ ہوا اور کمیشن کے چند افسران خبروں کی زینت بننے کے لیے مختلف بیانات اور انٹر ویوز دیتے رہے۔ جس پر کمیشن کو شرمندگی اور تنقید کا سامنا کرنا پڑااور بعض اوقات تردید کے بعد بیانات واپس لینے پڑے ۔ سیاستدانوں اور امیدواروں کو چور ڈاکو کہنا اور مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے کی ممانعت جیسے بہت سے بیانات پر کمیشن کو معذرت خواہانہ اور مدافعانہ رویہ اختیار کرنا پڑا۔

کمیشن ان معمولی نوعیت کے معاملات میں الجھا رہامگر دوسری طرف سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق نہ تو کراچی میں حلقہ بندیاں کروا سکا اور نہ ہی ووٹوں کی تصدیق کا عمل مکمل کیا جا سکا۔ اوور سیز پاکستانیوں کی ووٹنگ کے حوالے سے بھی کوئی نظام وضع نہ کر سکا ۔ دیہاتی اور قبائلی علاقوں میں خواتین ووٹرز کا اندراج اور شمولیت کو یقینی بنانے کے اقدامات کی جانب بھی کوئی سرگرمی دکھائی نہ دی ۔

حالیہ انتخابات دولت کی ریل پیل کے حوالے سے پاکستان کی تاریخ کے مہنگے ترین انتخابات ہیں۔ اختیارات کے با جود اس ریل پیل کو لگام نہ ڈالنے کا داغ الیکشن کمیشن کی پیشانی پر ہمیشہ موجود رہیگا۔انتخابی مہم کیلئیے قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کے لیے بالترتیب 15اور 12 لاکھ روپے کی حد مقرر ہے۔ یقیناً سیاسی جماعتوں کے اخراجات کی بھی کوئی حد مقرر ہو گی۔ مگرابتک چند سیاسی جماعتیں اپنی اشتہاری مہم میں اربوں روپیہ پھونک چکی ہیں ۔یہ جماعتیں اخبارات اور ٹی وی اشتہارات پر ایک کروڑ روپیہ یومیہ کے حساب سے خرچ کر رہی ہیں ۔ یقیناکروڑوں روپے کا بزنس دینے والی جماعتیں خبروں اور تجزیوں پراثر انداز ہونے کی بھی بھر پور صلاحیت رکھتی ہیں ۔ اشتہارات اور انتخابی سر گرمیوں میں زبان و بیان کا معاملہ ہو یا کروڑوں روپے کے اشتہارات اپنی تشہیر کی بجائے مخالفین کی تضحیک کے لیے استعمال کرنے کاجدید رحجان ، کمیشن کی جانب سے تغافل برتا گیا ۔ سومتاثرہ جماعتوں کو خود توجہ دلانا پڑی اور عدالتوں کا رخ کرنا پڑا۔ٹی وی چینلز اور اخبارات پراشتہارات کے لیے حد بندی کے حوالے سے کوئی نگرانی نظر نہیں آئی۔

نگران حکومت امن و عامہ کے معاملہ پر اور کمیشن تشہیر کے حوالے سے تمام جماعتوں اور امیدواروں کو(level playing field) مساوی مواقع کی فراہمی میں ناکام رہا ہے ۔ 11 مئی کو منعقد ہونے والے انتخابات ملکی تاریخ کے اہم ترین انتخابات ہوں گے ۔ اب تک کے معاملات سے قطع نظر،کمیشن کو ان کے انعقاد اور ساکھ کی جانب خاص توجہ مبذول کر کے بہترین انتظامات ممکن بنانے چاہیے۔ پولنگ اور نتائج کا معاملہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ نگران حکومت ، افواج اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی مدد سے پولنگ کے روز ووٹنگ اور نتائج کی گنتی اور اعلانات کے حوالے سے ایسا نظام وضع کرنا ہو گا جس پر کسی کو بھی دھاندلی، ناقص انتظامات اور امن عامہ کی مخد وش صورتحال کا جوازبناتے ہوئے انگلی اٹھانے کا موقع میسر نہ آ سکے۔ کیونکہ انتخابات کی ساکھ اور نتائج کی قبولیت پر ہی جمہوریت کی بقا کا دارومدار ہے۔

Lubna Zaheer
About the Author: Lubna Zaheer Read More Articles by Lubna Zaheer: 40 Articles with 28519 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.