فرزانہ مجید بلوچ بول رہی تھی ،
مسلسل ….اور انکی آواز میں تلخی گھلتی جار ہی تھی ایسا لگنے لگا کہ میرے
آنسوں بھی انکےگلے میں اٹکنے لگے ہیں ” ہم پاگل لڑکیاں نہیں ہیں ،ہم ڈرامہ
نہیں کر رہے تم ہم سے ڈرامہ کر رہے ہو” میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں میرے
آنسوں ،ہچکیوں میں بدل گیۓ! یا خدا ! کیا وقت ھے اس بدقسمت ملک پر ایک بہن
جو اپنے بھائی کے لیے در بدر ہے، انصاف ڈھونڈ رہی ہے، اسکی اس ملک کی عدالت
میں شنوائی ہے نہ حکومت میں ! پاکستانی میڈیا جو پچھلے تین چار ما ہ سے ان
جی دار بلوچوں سے نہ نظریں ملا رہا تھا نہ انکے جائز مطالبات ملک کےطو ل
وعرض میں پھیلانے کے لیے تیار تھا ایک دم سے بھوکے بھیڑیوں کی طرح ان تین
ہزار کلومیٹر کا سفر کر کے اسلا م آباد کے بےدرد و بے وفا شہر میں پہنچنے
والے اپنے پیاروں کے لیے تکلیفیں سہنے والے مظلوم بلوچ قافلے پر ٹوٹ پڑا-
ایک اینکر نے تو حد کر دی یہ کہہ کر کے آپ کے ساتھ ہزاروں افراد نہیں پھر
کس طرح آپکی مظلومیت اور جائز مطالبات کا یقین کیا جاۓ یعنی اب ظلم کے خلاف
آواز اٹھانے کے لیے بھی اسی طرح ہزاروں گواہ چاہیے ہونگے جیسے اسلامی نظر
یات کونسل کے ایک بودے فیصلے کے مطابق زیادتی کا شکار خاتون چارگواہ اکھٹے
کرے تواس پر ظلم توڑنے والوں کا گریبان پکڑا جاۓ گا-
یہ پڑھے لکهے جاہل جو ہر روز پاکستانی اسکرینوں پر آٹھ بجے اور دس بجے اپنی
اپنی ” چھا بڑیاں ” لگا کر گرم گرم مال کی صدا لگاتے ہیں اپنی جیبیں بھر تے
ہیں چاہیے انکے گرم مال سے اس عوام کا منہ ہی جل جاۓ جو سستی کی ایسی ماری
ہےکہ اپنے ارد گرد پھیلے ظلم کو جاننے کے لیےبھی اسکوایک کیمرے اور اینکر
کی ضرورت ہوتی ہے-
حقیقت. حال تو یہ ہے کہ مغربی اکثریتی آبادی کے صوبے کو یہ تک نہ پتہ چلا
کہ اس سے بڑی آبادی کا مشرقی صوبہ کب اور کس طرح بے زاری کے ایسے دریا کو
پار کرگیا جہاں سے اسکا لوٹ آنا اتنا ہی مشکل تھا جتنا آج فرزانہ مجید بلوچ
کے دل میں بھرے شک اورآواز میں بسی شکایت کودور کرنا-
لیکن یہ بات وہ کیا سمجھیں گے جن کے لیے پاکستان کی تاریخ کی پہلی
“فوڈاسٹریٹ ” قائیم کی گئی جہاں کوئی شا عر،ادیب، قصہ گو، فلاسفراورمفکر
اپنی ذہانت کے موتی بکھرنے نہیں آتا بلکہ صرف اورصرف کھانا کھانے والے جاتے
ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کا مقصد ہی ہلاگلا اور کھانا پینا بنا لیا ہو انکی
تکا لیف بھی انہی بے معنی چیزوں کے گرد پھرتی ہیں،انکی زندگی کے مسایل بھی
کھانےپینے سے جڑے ہوتے ہیں اسی لیے شہروں میں پھوٹنے والے ہنگاموں کا تعلق
نہ کسی ظلم کے خلاف جلوس سے ہوتا ہے نہ کسی ناانصافی کے خلاف توڑ پھوڑ سے
بلکہ ادھر “سوئی گیس ” غایب ہوئی ادھر ملک بھر کے بھوکے سڑکوں پر موجود
اپنے حکمرانوں کو حرام و حلال جانوروں سے تشبیہہ دینے لگتے ہیں
کاش یہ لوگ جتنا وقت ڈھول ڈھمکوں اور کھانے پینے کی عیاشی میں گزارتے ہیں
اتنا اپنے دائیں بائیں ظلم کے خلاف اپنی توانائیا ں خرچ کرنے میں لگاتے تو
نہ آج پاکستان کی یہ حالت ہوتی نہ بلوچستان کی اور نہ فرزانہ مجید کی آواز
میں دکھ ،تلخی اور شکایت ہوتی-
کاش ہمارے کا ندھوں پر رکھے سروں میں دماغ نام کی کوئی چیز ہوتی اور اس
سینے میں پتھر کی بجاۓحساس دل ہوتے تو ہم جان سکتے کہ بلوچوں نے کیا سوچا
ھوگا جب انکے منتخب وزیر اعلی کو پنجرے میں بند کیا گیا ، امید ہے کبھی
پنجاب کے اپنے آپ کو صبح شام ” خادم اعلی” کہنے والے شہباز شریف کو بھی کسی
پنجرے میں بند کر کے کورٹ کچہری پیش کیا جاۓگا
کیا کبھی کسی نے سوچا کہ اگر نواز شریف ،چودھری شجاعت یا پھرشیخ رشید جیسے
آخری صفوں کے نام نہاد رہنما کو سرداراکبر خان بگٹی شہید کی طرح پہاڑوں میں
چن دیا جاۓ اور انکے تابوت کو تالے ڈال دیۓ جائیں تو محب وطنی کے دعوے دار
اس ملک سے کس طرح کا سلوک کریں گے ؟ یہ تو چینی کے چار آنے بڑھنے اور آٹے
کے دو روپے زیادہ ہونے پرچیخ و پکارشرو ع کردیتے ہیں اگریہاں ٨٠٠٠ افراد
غایب کردیۓ جائیں اورپھرعدالتیں بازیابی کاحکم دیں تو انہی عدالتوں کا منہ
چڑانے کوانکے پیارں کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینکی جائیں کیا تب بھی
یہ لوگ“ سب سے پہلے پاکستان“ کا راگ الاپیں گے؟ کیا اس وقت یہ اتنے پرامن
اور صابر رہیںگے جتنے آج ماما بلوچ اور ان کے ساتھی ہیں؟ اگرایساھوگاتوانکی
وطن پرستی کو ساری بلوچ قوم سلام پیش کرے گی وگرنہ حال تو یہ ہے جو
بہادرذاکر مجید بلوچ کی عظیم بہن اور بلوچستان کے حقوق کی جنگ لڑنے والے
ہراول دستے کی بلند کردارو
باہمت فرزانہ مجید بلوچ نے کہا
“ہم لوگ ڈرامہ نہیں کر رہےآپ لوگ ہمارے ساتھ ڈرامہ کر رہے ہو،ڈرامہ کررہے
ہو بلوچ ماؤں اور بہنوں کے ساتھ“
مگر اس بار یہ ڈرامہ ریاست کو پہلے سے زیادہ مہنگا پڑے گا کیونکہ یہ١٩٧٠ء
نہیں ٢٠١٤ ہے |